Saturday, November 15, 2025
homeاہم خبریں”سیمانچل کے گاندھی محمد تسلیم الدین“ کی سیاسی وراثت پر قبضہ کی...

”سیمانچل کے گاندھی محمد تسلیم الدین“ کی سیاسی وراثت پر قبضہ کی جنگ۔ایم آئی ایم کی عوامی مقبولیت

کشن گنج:
گزشتہ چار دنوں سے سیمانچل کے مختلف اسمبلی حلقے کا سفر کرنے کے دوران شدت سے احساس ہوا کہ محض ایک دہائی قبل سیمانچل کی ایک مشہور شخصیت رہی ہے جن کا نام ”محمد تسلیم الدین“ تھا مگر انہیں لوگ ”سیمانچل کے گاندھی“ کے نام سے یاد کرتے تھے۔میرے سامنے دو سوال تھے کہ آخر محمد تسلیم الدین کو سیمانچل کا گاندھی کیوں کہا جاتا ہے؟ اور اب ان کی وراثت جو ان کے دوبیٹے دو مختلف پارٹیوں میں اور آمنے سامنے مقابلہ کررہے ہیں کیا بچاپائیں گے؟ یا پھر محمد تسلیم الدین کے آبائی اسمبلی حلقہ ”جوکی ہاٹ“ جہاں سے دونوں آمنے سامنے ہیں کے عوام محمد تسلیم الدین کے نام پر ان دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کریں گے یا پھر اس مرتبہ بھی ایم آئی ایم کا جادو چلے گا اور محمد تسلیم الدین کے خاندان کے باہر کا کوئی فردانتخاب جیتنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

ارریہ شہر سے متصل اور کشن گنج کی سرحد پر واقع ”جوکی ہاٹ“ کی سیاست پر گزشتہ 50برسوں سے محمد تسلیم الدین اور ان کے صاحبزادوں کا غلبہ رہا ہے۔1969میں محمد تسلیم الدین پہلی مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر جوکی ہاٹ سے منتخب ہوئے تھے۔ 1980میں معیدالرحمن، 1990میں معید الرحمن اور 2005کے علاوہ 2020تک جتنے بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں اس میں پانچ مرتبہ محمد تسلیم الدین اور 4مرتبہ محمد تسلیم الدین کے بیٹے محمد سرفراز اور 2018کے ضمنی انتخاب میں محمد تسلیم الدین کے چھوٹے بیٹے محمد شاہنواز اور 2021میں بھی محمد شاہنواز اپنے بھائی کو شکست دے کر ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچے ہیں۔

اس مرتبہ بھی محمد تسلیم الدین کے دونو ں بیٹے آمنے سامنے ہیں۔بڑے بیٹے محمد سرفراز جن سوراج سے امیدوار ہیں، جب کہ چھوٹے بیٹے محمد شاہنواز راشٹریہ جنتادل سے امیدوار ہیں مگر ایم آئی ایم نے علاقے کی مشہور شخصیت محمد مرشد کو امیدوار کومیدان میں اتارا ہے۔مرشد نوجوان ہیں اور لوگوں نے بتایا کہ ا ن کی شبیہ بہتر ہے اور عوام انہیں پسند بھی کرتے ہیں۔جنتادل یو کے ٹکٹ پر سابق ممبر اسمبلی محمد منظر بھی میدان میں ہیں۔محمد شاہنواز ایم آئی اے کے ٹکٹ پر منتخب ہو نے کے بعد ایم آئی ایم کے دیگر تین ممبراسمبلی کے ساتھ راشٹریہ جنتادل میں شامل ہوگئے تھے۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں راشٹریہ جنتادل کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا مگر وہ شکست سے دوچار ہوگئے۔

جوکی ہاٹ میں 70فیصد کے قریب مسلم آبادی ہے۔اس لئے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں سے بات کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں اصل مقابلہ جن سوراج کے محمد سرفراز جو محمد تسلیم الدین کے بڑے صاحبزادے ہیں اور ایم آئی ایم کے محمد مرشد کے درمیان ہے۔

انصاف نیوز آن لائن سے بات کرتے اے آئی ایم کے امیدوار محمد مرشد کہتے ہیں کہ جوکی ہاٹ گزشتہ 50برسوں سے ایک ہی خاندان کا قبضہ رہا ہے۔یہاں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں۔محمد تسلیم الدین کے بعد ان کے بیٹے آپس میں لڑرہے ہیں۔گزشتہ انتخاب میں گرچہ تسلیم الدین کہ چھوٹے بیٹے کامیاب ہوئے تھے اور راشٹریہ جنتادل سے ان کے بڑے بیٹے محمد سرفراز کی ہارہوگئی تھی۔ تاہم محمد شاہنواز کی کامیابی ایم آئی ایم اور اسدالدین اویسی کی مقبولیت کا نتیجہ تھا۔ جوکی ہاٹ کے عوام نے اسدالدین اویسی کے نام پر محمد شاہنواز کو ووٹ دیا تھا۔
https://youtu.be/5MvodxCyVUo?si=vZkJ4Y8ZbSCTqrI0

مرشد کے ساتھ جلوں میں شامل نوجوانوں سے میں نے سوال کیا کہ جوکی ہاٹ اسمبلی حلقے میں محمد تسلیم الدین کیا معنی رکھتے ہیں۔کیا یہاں کے عوام نے انہیں فراموش کردیا ہے۔اس سوال کے جواب میں لوگوں نے کہا کہ جمہوریت میں کوئی حلقہ کسی کی جاگیر نہیں ہوتی ہے۔تسلیم الدین کا دور ختم ہوچکا ہے اور اسدالدین اویسی کا زمانہ ہے اور اویسی ہمارے جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مرشد کہتے ہیں کہ محمد تسلیم الدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد بھی یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ محمد تسلیم الدین کے اپنے آبائی گاؤں کی حالت بھی خستہ ہے۔قومی شاہراہ کے قریب واقع جوکی ہاٹ کے اسمبلی حلقے کے متعدد گاؤں سے جب میری گاری گزررہی تھی تو کچے اور نیم پختہ مکانا ت علاقے کی پسماندگی کی کہانی بیان کررہی ہے۔تاہم سینئر صحافی نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔

جوکی ہاٹ کے دوبا گاؤں میں مرحوم صحافی عبد القادر شمس اپنے علاقے میں دعوت القرآن کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے۔اس کی کئی شاخیں بھی علاقے میں قائم ہیں۔اس کے علاوہ شمس اسکول کے نام سے ایک ادارہ چل رہا ہے۔عبدالقادر شمس کے چھوٹے بھائی عبد الواحد قاسمی نے بتایا کہ دعوت القرآن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں زیر تعلیم مدرسہ کے بچوں کو اسکولی تعلیم بھی سہ پہر کے بعد دی جاتی ہے۔ایک ساتھ دونوں تعلیم کا تجربہ کیا جاتاہے۔

جوکی ہا ٹ سے لوٹتے وقت ہماری ٹیم قومی شاہراہ پر واقع ایک ہوٹل میں تھوڑی دیر کیلئے روکے تو مقامی نوجوانوں نے الگ کہانی بیان کی کہ جوکی ہاٹ کی مرکزیت ختم ہورہی ہے اور اب ریلیاں بھی یہاں نہیں ہوتی ہے۔انتخابی موسم میں ریلیوں سے ہماری آمدنی ہوتی تھی مگر اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔جب ہم نے سوال کیا کہ اس مرتبہ وہ کس طرف جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تسلیم الدین کے بڑے بیٹے محمد سرفراز جو جن سوراج سے امیدوار ہیں ایک ایسے لیڈر ہیں ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور جب بھی ہم ان کے پاس کام کیلئے جاتے ہیں وہ ہمارا ہرکام کردیتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین