Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںڈنڈوں سے لیس ہجوم نے حسینہ واجد کے حامیوں کی ’رد انقلاب‘...

ڈنڈوں سے لیس ہجوم نے حسینہ واجد کے حامیوں کی ’رد انقلاب‘ کی کوشش ناکام بنا دی

ڈھاکہ: انصاف نیوز آن لاین

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ڈنڈوں، راڈوں اور پائپوں سے لیس ہجوم نے جمعرات کو سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی پارٹی عوامی لیگ کی جانب سے ملک کے بانی وزیراعظم شیخ مجیب کی برسی پر شیڈول ریلی کے مقام پر گشت کیا اور عوامی لیگ کے حامیوں کی پٹائی کی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈنڈو اور راڈوں سے لیس ہجوم میں سے بعض نے عوامی لیگ کے کچھ حمایتیوں کی پٹائی بھی کی۔
گذشتہ ہفتے حسینہ واجد اس وقت فوجی ہیلی کاپٹر میں انڈیا بھاگ گئیں جب بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کی سربراہی میں طلبا اور مظاہرین ڈھاکہ کی سڑکوں اور گلیوں کو بھر دیا جس کے ساتھ ہی ان کے 15 سالہ ’مطلق العنان‘ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا۔

حسینہ واجد کی حکومت کی جگہ نوبل انعام یافتہ معیشت دان محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے لے لی۔ عبوری حکومت نے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو حسینہ حکومت کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کیے گئے مظالم کی تفتیش کرنے کی دعوت دی ہے۔

جمعرات کو بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی برسی منائی جارہی ہے جن کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ 15 اگست 1975 کی فوجی بغاوت کے دوران قتل کیا گیا تھا۔
حسینہ واجد کی حکومت نے اس دن کو عام تعطیل اور یوم سوگ قرار دے دیا تھا۔

گذشتہ برسوں کے دوران ملک بھر میں اس دن بڑی بڑی ریلیاں منعقد کی جاتی تھیں۔ لیکن حسینہ واجد کی اقتدار سے بے دخلی کی خوشی منانے والوں کی کوشش ہے کہ ان کی جماعت عوامی لیگ کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع نہ ملے۔


نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں ’انقلاب‘ کی حفاظت کے لیے جمع ہیں تاکہ یہ ہمارے ہاتھوں سے نہ پھسلے۔

26 سالہ عمرالحسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مفرور ڈکٹیٹر حسینہ واجد نے اپنے عنڈوں اور مسلح ملیشیا کو حکم دیا ہے کہ اس جگہ پر جمع ہو کر ’رد انقلاب‘ کریں۔‘
’ہم یہاں اپنے انقلاب کی حفاظت کے لیے جمع ہیں تاکہ یہ ہمارے ہاتھوں سے نہ پھسلے۔‘
پولیس کی غیر موجودگی میں سینکڑوں افراد، جن میں سے اکثر طالب علم نہیں، نے حسینہ واجد کے پرانے خاندانی گھر کی طرف جانے والے راستے پر انسانی حصار قائم کیا ہے۔ 49 سال پہلے آج ہی کے دن اس گھر میں شیخ حسینہ کے والد اور ملک کے بانی شیخ مجیب کو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔
یہ گھر حسینہ واجد کی حکومت گرنے تک میوزیم تھا جسے حکومت مخالف طلبہ تحریک کے دوران نہ صرف جلایا گیا بلکہ اس کے اندر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔
جمعرات کو اس جگہ کئی لوگوں کو عوامی لیگ کے حامی ہونے کے شبہے میں ہجوم نے مارا پیٹا اور کئی ایک کو زبردستی وہاں سے ہٹایا گیا۔
حسینہ واجد نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنے اولین بیان میں اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ 15 اگست کو اس جگہ جمع ہو جائیں اور پھول اور پھولوں کے ہار رکھیں۔


حسینہ واجد کی حکومت نے 15 اگست کو عام تعطیل اور یوم سوگ قرار دیا تھا۔

حسینہ واجد پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے دو اقتدار میں اپنے والد کی شخصیت کو کلٹ میں تبدیل کرنے کے جتن کیے۔
حسینہ نے آئین میں ترمیم کرکے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ ہر سکول، گورنمنٹ آفس اور سفارتی مشن میں شیخ مجیب کا پورٹریت موجود ہو۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ٹام کین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حسینہ حکومت نے شیخ مجیب پر آن لائن تنقید کو بھی جرم بنا دیا تھا جس کی سزا دس سال قید مقرر کی گئی تھی۔‘
’گوکہ بہت سارے لوگ اب بھی شیخ مجیب کی عزت کرتے ہیں اور ان کی کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ان پر تنقید کو تعزیری جرم بنا کر ان کی لیگیسی پر حقیقی مباحثے کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا تھا۔‘

حسینہ واجد کی حکومت میں ہزاروں سرکاری ملازمین اور افسران پر لازم تھا کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کی برسی پر جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرے۔
حسینہ حکومت میں عوامی لیگ کے عہدیدار دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف علاقوں میں عارضی ساؤنڈ سسٹم نصب کرتے اور وہاں سے شیخ مجیب کی پرانی تقاریر نشر کی جاتیں۔ لیکن جمعرات کو ڈھاکہ میں ٹریفک جام میں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیا۔


حسینہ واجد کی حکومت میں سرکاری ملازمین اور افسران پر لازم تھا کہ وہ شیخ مجیب کی برسی پر جلسوں میں شرکت کریں۔

منگل کو عبوری حکومت نے شیخ مجیب کی برسی پر عام تعطیل کو منسوخ کر دیا۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں
حسینہ واجد حکومت پر انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی کے الزامات ہیں۔ ان پر اپنے ہزاروں سیاسی مخالفین کو ماورائے عدالت قتل کرنے، بڑے پیمانے پر گرفتار اور غائب کرنے کے الزامات ہیں۔
عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے تفتیش کار بنگلہ دیش پہنچیں گے جو کہ حسینہ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران مظاہرین کی ہلاکتوں اور مظالم کی تحقیقات کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق والکر ترک کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ ہائی کمشنر عبوری حکومت کی جانب سے کامیاب ٹرانزیشن کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین