Saturday, December 21, 2024
homeاہم خبریںبشار الاسد حکومت کا خاتمہ۔۔۔۔ہیت تحریر شام کی قیادت میں نئی حکومت...

بشار الاسد حکومت کا خاتمہ۔۔۔۔ہیت تحریر شام کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل کا امکان

دمشق :

شام میں حکومت مخالف فورسز کے دو مختلف ذرائع نے خبر رساں اداروں کو اتوار کو تصدیق کی ہے کہ ان کے جنگجو دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں جبکہ شامی فوج کے دو اعلی افسران نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد ایک ہوائی جہاز میں سوار ہوکر اتوار کو دمشق سے نامعلوم منزل کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔

حکومت مخالف فورسز نے وئٹرز کو بتایا کہ ان کے جنگجو دارالحکومت میں داخل ہو گئے جہاں سرکاری فوج کی تعیناتی کے کوئی آثار نطر نہیں آ رہے۔

A military vehicle belonging to the Syrian regime forces is pictured abandoned on the side of a road in the Hama governorate, on December 7, 2024. – Syria’s embattled government said on December 7, it was setting up a ring of steel around Damascus, state media reported, as rebels on a lightning advance said they were bearing down on the city. (Photo by OMAR HAJ KADOUR / AFP)

عینی شاہدین نے بتایا کہ ہزاروں گاڑیوں میں اور پیدل افراد دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ لہراتے ہوئے ’آزادی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔

شامی حزب اختلاف کے اتحاد کا کہنا ہے کہ ’ہم شامی عوام کے ساتھ اپنے دمشق کی صیدنایا جیل سے قیدیوں کی رہائی، زنجیریں توڑنے اور ناانصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے جشن منا رہے ہیں۔‘

صیدنایا دمشق کے مضافات میں ایک بڑی فوجی جیل ہے جہاں شامی حکومت نے ہزاروں افراد کو قید کر رکھا تھا۔

چند گھنٹے قبل باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے صرف ایک دن کی لڑائی کے بعد حمص کے اہم شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

اتوار کو دو رہائشیوں نے بتایا کہ دمشق کے وسط میں فائرنگ کی شدید آوازیں سنی گئیں، اگرچہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ فائرنگ کہاں اور کیوں ہو رہی تھی۔

دارالحکومت کے جنوب مغرب میں دیہی علاقوں میں، مقامی نوجوانوں سرکاری افواج کے غائب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسد خاندان کی ’آمرانہ حکمرانی‘ کے خلاف مظاہروں کے لیے سڑکوں پر آ گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے علاقی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے ’وار مانیٹر‘ کا کہنا ہے کہ شامی فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز دمشق کے ہوائی اڈے سے نکل گئی ہیں۔

برطانیہ میں قائم ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ذرائع نے بھی بتایا کہ سرکاری فورسز کے افسران اور سپاہی دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کنٹرول چھوڑ چکے ہیں۔

People ride a tank in the Syrian southern city of Daraa on December 7, 2024, after the collapse of government forces. – Syria’s army said it was redeploying in two southern provinces on December 7, after the Syrian Observatory for Human Rights reported government forces had lost control of most of Daraa province, the cradle of the country’s 2011 uprising. (Photo by Sam HARIRI / AFP)

روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد پُرامن انتقالِ اقتدار کے احکامات جاری کرنے کے بعد اپنے عہدے سے دست بردار ہو ئے جس کے بعد انہوں نے ملک چھوڑ دیا ہے۔

روس کے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بشار الاسد کہاں ہیں؟ تاہم یہ واضح کیا ہے کہ بشار الاسد کی روانگی سے قبل ہونے والی بات چیت میں روس شریک نہیں تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں موجود روس کے فوجی اڈے ہائی الرٹ پر ہیں تاہم انہیں فی الوقت کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق ماسکو شامی اپوزیشن گروپس کے رابطے میں ہے اور تمام فریقوں پر تحمل اور تشدد سے باز رہنے کے لیے زور دے رہا ہے۔

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد مشتعل افراد نے اتوار کی صبح دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا۔

رپورٹس کے مطابق مشتعل افراد نے حزب اللہ کے سابق رہنما حسن نصراللہ اور ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کے سفارت خانے پر لگے پوسٹرز پھاڑ دیے۔

اس عمارت میں قائم متعدد دفاتر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے

ماضی میں روس اور ایران کی مدد سے بشارالاسد اپنے مخالفین کو کچلنے میں کامیاب رہے۔

لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوا۔

اپنے اپنے تنازعات میں گھڑے بشارالاسد کے اتحادیوں نے انھیں اس بار اکیلا چھوڑ دیا۔ اتحادیوں کی مدد بغیر ان کی فوج باغیوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ کئی مقامات پر تو ایسا لگا جیسے وہ باغیوں روکنا چاہتے بھی نہیں ہیں۔

گذشتہ ہفتے باغیوں نے حلب پر قبضہ کیا، اس کے بعد حماۃ اور کچھ ہی دنوں میں حمص کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اگلے چند گھنٹوں میں ہی باغی دمشق میں داخل ہو رہے تھے۔

بہت سے لوگ بشارالاسد کے جانے سے خوش ہیں۔ لیکن آگے کیا ہوگا؟

یہ ایک ایسی بغاوت ہے جس کی قیادت ہیئت تحریر الشام کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کی جڑیں القاعدہ سے ملتی ہیں اور اس کا ایک پر تشدد ماضی رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں انھوں نے خود کو ایک قومی فورس کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے حالیہ بیانات بھی کافی مفاہمتی دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن ہر کوئی اس سے قائل نہیں۔ بہت سے لوگوں کو ڈر ہے کہ شاید وہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں۔

جب خوشی میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ تھمے گی اور بشارالاسد کی جیلوں میں قید تمام افراد رہا ہو جائیں گے تو شام اپنے آپ کو ایک دوراہے پر کھڑا پائے گا۔

یہاں سے آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

اگر ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولونی اپنے وعدے پر قائم رہے تو ہوسکتا ہے کہ شام ایک جمہوریت پسند ملک بن جائے جسے اقوامِ متحدہ اور دیگر کی حمایت حاصل ہو۔

لیکن ہیئت تحریر الشام اور اس کے اتحادیوں کا ایک تشدد پسند ماضی رہا ہے جس میں انسانی حقوق کی پامالی عام بات تھی۔اقوام متحدہ اور کئی حکومتوں نے اسے کالعدم تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

القاعدہ ابھی سے ہی باغیوں کو ’یہودیوں اور صلیبیوں‘ کے خلاف کارروائیوں کے لیے اکسا رہی ہے۔

شام میں بہت سے اقلیتیں مقیم ہیں اور جن لوگوں کا مسلک باغیوں کی طرح سنی نہیں، انھیں مستقبل کا خوف ہے۔

اگرچہ ایسے کچھ حوصلہ افزا علامات موجود ہیں کہ اقتدار کی پرامن منتقلی ممکن ہے لیکن اس بات کا خطرہ ابھی ٹلا نہییں کہ شام بھی لیبیا کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے اور مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی، لوٹ مار اور تباہی کی دلدل میں اتر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین