Wednesday, February 5, 2025
homeاہم خبریںعام بجٹ فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہیں

عام بجٹ فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہیں

عام انسانوں کے بنیادی سوالات غائب، تعلیم اور صحت کے شعبے پر عدم توجہ۔مختلف محکموں کیلئے مختص فنڈ کا استعمال نہیں کرنے کی روش۔اقلیتی طلبا کے اسکالر شپ پروگرام میں بڑے پیمانے پر کٹوتی۔وزارت اقلیتی امور نظرثانی شدہ بجٹ کا بھی استعمال کرنے میں ناکام۔تعلیم، صحت اور دیہی سطح پر روزگار کو نظرانداز کردیا گیا۔ملک کے متوسط طبقے کو خوش کرنے کے نام پرٹیکس میں چھوٹ۔ماہرین کے مطابق یہ چھوٹ لالی پا پ ثابت ہوسکتا اسکول اور اسپتالوں کے بنیادی ڈھانچہ پر توجہ نہیں

نوراللہ جاوید

ملک کا عام بجٹ کسی قوم کی ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔ بجٹ بتاتا ہے کہ حکومت کن شعبوں پر اپنی توجہ مرکوز کررہی ہے اور ملک کس سمت جا رہا ہے؟۔تعلیم، صحت اور روزگار جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے ک بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں۔اس لئے کسی بھی ملک کا عام بجٹ صرف معاشی فیصلے نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ حکومت کے وژن کی علامت ہوتی ہے۔یہ محض حساب کتاب کی مشق نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومتو ں کیلئے اپنے معاشی وژن پیش کرنے کا واحد پلیٹ فارم ہوتا ہے۔چناں چہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں سرمایے اور محنت کش طبقے کے درمیان بڑھتے ہوئے معاشی عدم توازن انتہائی خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے کے خاتمے کیلئے حکومت نے کیا وژن پیش کیا ہے۔مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن جو لگاتار 8برس بجٹ پیش کرنے کا ریکارڈ قائم کررہی ہیں کے بجٹ میں بنیادی چیلنجز مرکزی سوالات پر توجہ دئیے بغیر بہار جہاں اگلے 6مہینے میں اسمبلی نتخابات ہونے ہیں کیلئے کئی اسکیموں ا علان کرکے اپنی ترجیحات کو واضح کردیا ہے کہ مودی حکومت کی دلچسپی انتخابا ت جیتنے میں ہیں۔اس سوال کا جواب اگلے سال معلوم ہوگا کہ بہار کیلئے جو اسکیموں کا اعلان کیا گیا ہے اس کا حشر کیا ہوا؟۔اس وقت پوری دنیا معاشی استحکا م کیلئے جوجھ رہی ہے چناں چہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک”معاشی قوم پرستی“کی راہ پر گامزن ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ ”امریکہ سب سے پہلے“ کے نعرے کے ساتھ دوسری مرتبہ اقتدار میں پہنچے ہیں اور انہوں نے امریکہ کی معاشی مفادات کے تحفظ اپنے پڑوسی ممالک کینیڈا، میکسیکو کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔یورپ امریکہ کی دیرینہ حلیف رہا ہے اس کے باوجود ٹرمپ یورپی ممالک پر زور ڈال رہے ہیں اس سے زیادہ سے ہتھیار خریدے۔فرانس نے اپنے ملک کے مفادات کیلئے امریکہ سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا ہے اوراسی طرح دباؤ کم و بیش بھارت پر بھی ہے۔بھارت سے کہا جارہا ہے کہ دفاعی ساز و سامان زیادہ سے زیادہ امریکہ سے خریدے۔ان حالات میں امید تھی کہ بھارت اپنے معاشی مفادات کو ترجیح دے گی مگر بجٹ کے ماہرین بتاتے ہیں کہ بھارت نے امریکہ کے دباؤ کو مسترد کرنے کے بجائے امریکہ اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔

مودی کو اقتدار میں آئے 11برس مکمل ہوچکے ہیں، کسی بھی حکومت کیلئے یہ مدت کم نہیں ہوتی ہے اور اس کے پاس اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کیلئے کسی اور کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔اسے بہر صورت جواب دینا ہوگا کہ ان کی معاشی پالیسیاں کیوں ناکام رہیں اور انہوں نے جو عام لوگوں سے جووعدے کئے تھے اس کی تکمیل کیوں نہیں ہوئی، کسانوں کی آمدنی میں دوگنا اضافہ کیوں نہیں ہوا؟ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کا کیا ہوا؟ آخر ملک میں معاشی عدم توازن میں اضافہ کیو ں ہوا، خاتمے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت کے 12ویں بجٹ میں ان بنیادی سوالو ں کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ بجٹ پیش ہونے کے اگلے دن دہلی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ”بی جے پی ہی ملک کے متوسط طبقے کی سب سے زیادہ فکر کرتی ہے“۔دراصل ان کا اشارہ انکم ٹیکس چھوٹ کی حد میں 12 لاکھ روپے تک اضافے کرنے کی طرف تھا۔ماہرین کے مطابق انکم ٹیکس میں اس چھوٹ کا 1.5ملین افراد کو فائدہ پہنچے گا۔تگہم بنیادی سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کتنی تعداد منظم سیکٹر میں کام کرتی ہے۔ اس سے تنخواہ یافتہ طبقہ ضرور خوش ہوگا۔تاہم سوال ملک کے ان 30فیصد نوجوانوں کا ہے جو غیر منظم سیکٹرمیں کام کرتے ہیں۔ان کی کم سے کم اجرت میں اضافہ، ان کی معاشی استحکام کیلئے نرملاسیتارمن کے پاس کچھ بھی ہے؟۔


المیہ یہی ہے کہ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کیلئے حکومت کی بنیادی سرمایہ کاری اپنے اہداف کافی پیچھے ہے۔ان تمام شعبوں میں عوامی اخراجات ہندوستان میں عالمی معیارات کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے اپنے مقرر کردہ اہداف کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔مختلف حکومت نے صحت 3فیصد اور تعلیم کیلئے 6فیصد خرچ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ کو پیش کرتے ہوئے کئی اہم دعوے کئے ہیں۔انہوں نے 10کلیدی شعبوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعت کو فروع دینے کیلئے روزگار اور اختراعات کو اضافہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں متوازن علاقائی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے غریبوں، نوجوانوں، کسانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی طرف توجہ دی گئی ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ نرملا سیتارمن کے بجٹ میں سب سے زیادہ ان ہی تینو ں کو سب سے زیادہ نظرانداز کردیا ہے۔مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شہری بے روزگاری میں 6.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔مگر ماہر اقتصادیات اروند سبرامنیم نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ زیادہ تر نئی ملازمتیں کم اجرت والے اور غیر رسمی شعبوں میں پیدا ہورہی ہے۔ملک میں معاشی استحکام کیلئے افرادی قوت کے استعمال کیلئے 78.5 نئی ملازمتیں پیدا کرنا ضروری ہے۔تاہم بجٹ میں اس کیلئے کوئی واضح روڈ میپ نہیں ہے۔
یہ ملازمتیں کہاں سے پیدا ہوں گی۔اس وقت ملک میں چھوٹے اور درمیان درجے کی صنعت سے 23.24کروڑ سے زیادہ کارکنان وابستہ ہیں۔مگر چھوٹے کاروباریوں کے تئیں عدم توجہ، بے چیدہ ٹیکس نظام ی وجہ سے ادائیگیوں اور کریڈٹ میں تاخیر کی وجہ سے یہ صنعتیں ڈوب رہے ہیں اور چھوٹی صنعتوں پر بھی کارپوریٹ گھرانے قبضہ کررہے ہیں۔
تیسری مدت میں اقتدار آنے کے بعد مودی حکومت کے پہلے بجٹ میں بہت ہی زور و شور سے ”انٹرن شپ اسکیم“ کا اعلان کیا تھامگر اس اسکیم کا کیا ہوا؟،کتنے نوجوانوں نے تربیت حاصل کی؟ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں اس ”فلیگ شپ“پروگرام کے لیے2,000 کروڑ روپے مختص کئے تھے مگر گزشتہ سال محض380کروڑ روپے ہی خرچ کیا گیا۔اسی طرح گزشتہ بجٹ میں پروڈکشن لنکڈ انسی نٹیو اسکیم کی تکمیل کے لیے ایک ایمپلائمنٹ لنکڈ انسینٹیو اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا۔اس کا مقصد تھا کہ کارپوریٹ کیلئے تربیت یافتہ نوجوانوں کی تربیت کرنا تھا۔ معیشت میں سرمایہ اور مزدور کے عدم توازن کے خاتمے کیلئے یہ بہت ہی اہم تھا۔لیکن اس سال کے بجٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔تاہم اس مرتبہ ایک نیا نعرہ دیا گیا وہ بہار کے مکھانہ کے کاشتکاروں کے لیے مکھانہ بورڈ کا قیام تھا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ مودی حکومت جملہ بازی، نعرے بازی پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔

’میک ان انڈیا، اسمارٹ سٹی جیسی اسکیموں کا اب ذکر تک نہیں ہوتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے 2014میں اقتدار میں آنے سے قبل وعدہ کیا تھا کہ ملک کی جی ڈی پی کا 6فیصد تعلیم کے شعبے پر خر چ کرنے کاان ہدف ہے۔انہوں نے اس کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے مگر 11برس بعد بھی مودی حکومت کل بجٹ کا ایک فیصد بھی تعلیم کے شعبے پر خرچ نہیں کرسکے ہیں۔وزارت تعلیم کو 1.28 لاکھ کروڑ روپے کا تخمینہ بجٹ ملا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال 2024-25 سے 6.65 فیصد زیادہ ہے۔مالی سال 26 میں، حکومت کو اعلیٰ تعلیم پر 50,077.95 کروڑ روپے خرچ کرنے کی توقع ہے۔ مجموعی بجٹ کے حصے کے طور پر اعلیٰ تعلیم پر خرچ جمود کا شکار ہے۔ مجموعی بجٹ کا صرف 0.99فیصد تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں تعلیم تیزی سے پرائیوٹائزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔حکومت کے ذریعہ چلائے جارہے اداروں کے اخراجات کے فنڈ میں کٹوتی کی جارہی ہے۔تحقیقاتی اداروں کو حکومت نے نظر انداز کردیا ہے۔اسکولی تعلیم کا بجٹ 2024-25 کے بجٹ تخمینوں (BE) میں تقریباً 73,000 کروڑ روپے سے بڑھ کر 2025-26 میں تقریباً 78,600 کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ 7.6 فیصد کا یہ اضافہ ملک میں اضافہ ہوئی مہنگائی سے میل نہیں کھا تا ہے۔ انسانی وسائل اور بنیادی ڈھانچے میں بڑے خلا کو پر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔وزیر خزانہ کی تقریر میں بنیادی مسائل کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔جیسے کہ اساتذہ کی مطلوبہ تعداد یا کلاس رومز دستیاب کرنا، اور صرف ڈیجیٹلائزیشن جیسے سنہرے الفاظ کا استعمال کرکے ہیڈ لائن بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن ان تمام سہولیات کا متبادل نہیں ہے جن کی ایک اسکول کو ضرورت ہوتی ہے۔یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ سال بہ سال اسکولی تعلیم کے لیے مختص رقم بھی خرچ نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر 2024-25 کے لیے اسکولی تعلیم کے لیے نظرثانی شدہ بجٹ تقریباً 68,000 کروڑ روپے ہے، جو ابتدائی طور پر مختص کیے گئے بجٹ سے تقریباً 5,000 کروڑ روپے کم ہے۔محکمہ اسکولی تعلیم کے اہم پروگراموں میں سے ایک ”پی ایم پوشن“ یا مڈ ڈے میل اسکیم ہے۔جب اس اسکیم کی شروعات ہوئی تھی اس کی وجہ سے اسکولوں میں اندارج کی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔پسماندہ طبقات کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتھا۔یہ کلاس روم کی بھوک کو دور کرنے اور بچوں کو روزانہ کم از کم ایک غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرنے میں معاون ہے۔ اسکولوں میں گرم، پکا ہوا کھانا قومی سطح پر متعارف ہوئے 20 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ موجودہ منظر نامے میں اس کا از سر نو تصور کیا جائے۔ہائی اسکولوں میں زیادہ بچے داخل ہونے کے ساتھ، مڈ ڈے میل کو کم از کم دسویں جماعت تک بڑھانے کا مطالبہ کافی پراناہے۔(اس وقت آٹھویں کلاس تک کے بچے شامل ہیں)۔ بہت سی فیلڈ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس عمر کے زیادہ تر بچے خالی پیٹ اسکول آتے ہیں اور اکثر دوپہر کا کھانا گھر سے لے کر آنے سے قاصر ہیں۔ وہ یا تو بھوکے رہتے ہیں یا جو کچھ دستیاب اور سستی ہو کھاتے ہیں، عام طور پر نمکین یا بسکٹ کا ایک پیکٹ۔جو کہ ناکافی ہے۔2024-25 میں مڈ ڈے میل کیلئے 12,467 کروڑ روپے تھا، جو اس سال بڑھ کر 12,500 کروڑ ہو گیا۔ تاہم، 2024-25 کے لیے نظر ثانی شدہ تخمینہ (RE) 10,000 کروڑ روپے سے بھی کم ہے۔ آنگن واڑی اور پوشن کے بجٹ میں شاید ہی کوئی اضافہ کیا گیا ہے۔ 2024-25 کے لیے مختص رقم 21,200 کروڑ روپے تھی، جونظرثانی بجٹ میں گھٹ کر 20,070 کروڑ روپے ہو گئی اور 2025-26 کے تخمینہ بجٹ میں میں بڑھ کر 21,960 روپے ہو گیا ہے۔

مودی حکومت کا سب سے دل کش نعرہ تھا سب کا ساتھ سب کا وکاس مگر بجٹ میں اس کا کوئی نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا۔یہ واضح ہے کہ مودی حکومت کو اقلیتوں سے کوئی زیادہ سروکار نہیں ہے اور ان کا پالیسیاں اقلیت مخالف ہیں۔بجٹ میں بھی جس طریقے سے اقلیتی طلبا کے اسکالر شپ میں کٹوتی کی گئی ہے وہ اس بات کا بین ثبوت ہے۔اقلیتی اور قبائلی طلباء کے لیے کئی اسکالرشپس نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ان کی مختص رقم کو سختی سے روک دیا گیاہے۔ اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ میں 39.9 فیصد کی کمی کردی گئی ہے۔2025-26 کے بجٹ میں صرف 197.50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اقلیتوں کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ (پی ایم ایس) کے بجٹ میں 731.39 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی ہے، جو کہ 63.8 فیصد کی کمی ہے۔پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز (یو جی، پی جی) یا اقلیتوں کے لیے میرٹ-کم-مینز اسکالرشپ (MCM) اسکالرشپس میں بھی 26.46 کروڑ روپے کی کمی کردی گئی ہے۔ 2025-26 کے بجٹ میں صرف 7.34 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔اقلیتی طلباء کے لیے اسکالرشپ کے بجٹ میں گزشتہ کئی برسوں سے کمی کی جارہی ہے، موجودہ مالی سال میں، اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کے لیے بجٹ پر نظر ثانی کر کے صرف 90 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، جو کہ تخمینہ سے 236.16 کروڑ روپے کی کٹوتی ہے۔

پھر 2023-24 میں خرچ کی گئی اصل رقم 337.17 کروڑ روپے تھی خود اس سال کے بجٹ کی رقم سے کم ہے۔اقلیتوں کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں کٹوتی موجودہ سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ میں اس کے اصل بجٹ مختص سے 801.09 کروڑ روپے کی بڑی کٹوتی دیکھی گئی۔ موجودہ اور اگلے مالی سال کے بجٹ تخمینوں میں فرق 63 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کا مقصد 10ویں جماعت (میٹرک) کے بعد طلباء کی مدد کرنا ہے۔کہ مدارس اور اقلیتوں کے لیے تعلیمی اسکیم میں بھی 1.99 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی ہے۔دلت اور قبائلی اور اوبی سی طلباء کے لیے اسکالرشپ میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔تاہم شیڈول ٹرائب کے لئے کئی اسکیموں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ایس ٹی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشنل فیلوشپ اور اسکالرشپ کو 2025-26 میں اسکیم کے لیے صرف ایک لاکھ روپے مختص کرنے کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔نیشنل اوورسیز اسکالرشپ (NOS) میں 5.99 کروڑ روپے کی کٹوتی دیکھی گئی جس میں صرف 0.01 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔

فنڈ میں کٹوتی اور اضافہ سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ مختلف شعبوں کیلئے مختص فنڈ کا عدم استعمال ہے۔حالیہ دنوں میں یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ سال بہ سال ان وزارتوں کے اصل اخراجات بجٹ کے تخمینے سے کم ہورہے ہیں۔ رواں سال (2024-25) کے دوران بھی اہم وزارتوں اور محکموں جن کا تعلق عوامی فلاح بہہبود ہے سے کے بجٹ پر نظرثانی کی گئی ہے جو بجٹ تخمینوں سے کم ہے۔ 2022۔23 اور 2023-24 کے دوران اقلیتی امور کی وزارت کے حقیقی اخراجات بالترتیب مختص بجٹ سے 16 فیصد اور 5 فیصد کم ہے۔2024-25میں وزارت اقلیتی امور کیلئے 3,138کرور روپے مختص کئے گئے مگر نظرثانی بجٹ میں کم کرکے1868کرور کردیا گیا۔وزارت کی بہت سی اسکیموں کے بند ہونے اور بجٹ کے اس طرح کے نچلے استعمال کے ساتھ، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ حکومت اقلیتی برادریوں کے لیے کیا پالیسی اختیار کر رہی ہے۔

آئین سب کو برابری کا حق فراہم کرتا ہے اور ریاست کو خواتین اور سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کی ترقی اور بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت بھی کرتا ہے۔نرملا سیتارمن کے بجٹ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔جہاں انہوں نے اقلیتوں کو مکمل طور پرنظر انداز کردیا ہے وہیں خواتین اور پسماندہ معاشروں پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی ہے۔کچھ اعلانا ت ہیں مگر وہ اعلانات صرف اعلانات ہی رہ جاتے ہیں۔۔ حکومت نے 2025-26 کے بجٹ میں ریاستوں کے ساتھ شراکت داری میں ایک ”جامع کثیر شعبہ جاتی ‘دیہی خوشحالی اور لچک’ پروگرام” شروع کرنے کا اعلان کیا، جس میں 5 لاکھ دیہی خواتین، نوجوان کسانوں، دیہی نوجوانوں، پسماندہ اور چھوٹے کسانوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ بے زمین خاندان. تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس پروگرام کا بجٹ کیا ہوگا اور اسے کس وزارت کے ذریعے لنگر انداز کیا جائے گا۔لیبر بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق مردوں اور عورتوں کے لیے دیہی حقیقی اجرتوں کی وجہ سے خواتین اور معاشرے کے پسماندہ طبقوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور اقتصادی سروے کے مطابق اجرت/تنخواہ پر کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کی حقیقی ماہانہ آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2025. خواتین اور پسماندہ طبقات نہ صرف معاشی طور پر پسماندہ ہیں بلکہ انہیں صنفی اور سماجی طور پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ملک میں صحت اور تعلیم کی قیمت پر دفاعی بجٹ کے اخراجات میں اضافہ جاری ہے۔ملک کا دفاعی بجٹ صرف پچھلی دہائی میں دوگنی سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، جو حال ہی میں اعلان کردہ بجٹ میں 6.8 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ اس حیران کن اعداد و شمار کے باوجود، مسلح افواج مطمئن نہیں ہیں۔ خریدے گئے ہتھیار دیر سے پہنچتے ہیں، جدید کاری کے اہم منصوبے برسوں سے رکے ہوئے ہیں، اور بجٹ کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ پنشن میں ختم ہو جاتا ہے۔ ریکارڈ زیادہ اخراجات کے باوجود، فوج کے پاس اب بھی طاقت کی کمی ہے جس کی وہ شدت سے تلاش کر رہی ہے۔

ملک میں نوجوانوں کی خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جہاں 2020 میں ہر 42 منٹ میں ایک طالب علم اپنی جان لے لیتا ہے۔ اس سال 11,396 طالب علموں کی خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں، جن کی سب سے زیادہ وجہ تعلیمی دباؤ، والدین کی توقعات اور بے چینی تھی۔ صحت کا بجٹ بہتر ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اگرچہ یہ جزوی طور پر درست ہے 2015-16 میں مختص رقم 33,152 کروڑ روپے سے بڑھ کر 2025-26 میں 95,957 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ 100 فیصد سے زالد کا اضافہ ہے۔اس اضافے کے باوجودملک میں کے اسپتالوں میں بستروں کی دستیابی انتہائی کم ہے، فی 1,000 افراد کے لیے صرف 1.4 بسترہیں، جو کہ عالمی ہیلتھ ارگنائزیشن کی تجویز کردہ 3.5 فی 1,000 سے بہت کم ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں اس سے بھی زیادہ خطرناک تناسب ہے – صرف 0.79 بستر فی 1,000افراد ہے یعنی ملک میں 2.4 ملین بستروں کی کمی ہے۔ ڈاکٹر سے مریض کا تناسب 1:1,511 ہے۔دیہی شہری تقسیم نظام میں دراڑ کو مزید بے نقاب کرتی ہے۔ 70 فیصدبھارتی شہری دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، پھر بھی ان کے لیے اسپتال کے صر ف 40فید بستر دستیاب ہیں۔ نرس سے مریض کا تناسب 1:670 ہے، جو تجویز کردہ 1:300 سے ایک واضح کمی ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کے لیے فنڈز کی کمی ہے، بلکہ حکومت جو کچھ بھی مختص کرتی ہے اس کا مکمل استعمال بھی نہیں کرتی۔ جیسا کہ گراف میں دیکھا گیا ہے، اصل اخراجات اکثر بجٹ کے تخمینوں سے کم ہوتے ہیں۔

گرچہ اس سال حکومت نے میڈیکل سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کا اعلان کیا ہے مگر ایک دن قبل ہی پیش ہوئے اقتصادی سروے میں محکمہ صحت کی جن خامیوں کی طرف نشاندہی کی گئی تھی اس کے حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔مجموعی طور پر یہ بجٹ انسانی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنے کے عزم سے خالی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عام شہری حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔صرف توازن برقرار رکھنے کیلئے کچھ چھینٹے اس جانب برسادیاجاتا ہے۔عالمی اداروں کے ایجنڈے پر حکومت گامزن ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین