کلکتہ15اپریل (انصاف نیوز آن لائن)
ترنمول کانگریس گرچہ بالی گنج اسمبلی انتخابات میں جیت کیلئے بڑے بڑے دعوے کررہی تھی۔اور یہ سیٹ جیت بھی گئی ہے مگر یہ جیت ترنمول کانگریس کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔اب دیکھنا ہوگا ترنمول کانگریس اس نوشتہ دیوار کو پڑھے گی یا نہیں۔دراصل مسلمانوں میں ترنمول کانگریس کی جو نمائندگی کرتے ہیں انہوں نے پارٹی قیادت کو گمراہ کررکھا ہے۔انہوں نے اپنے عہدہ اور روپے کی خاطر پارٹی قیادت کو یقین دلارکھا ہے مسلمان ممتا بنرجی سے خوش ہیں۔کیوں کہ ممتا بنرجی شیرنی ہیں جو مودی کو للکارتی ہے۔
دراصل ترنمول کانگریس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمانوں کا مسئلہ صرف مودی ہے اس لئے صرف مودی کے للکارنے سے ہی مسلمان خوش ہیں۔جب کہ مسلمانوں کا مسئلہ نہ مودی ہے اور نہ ہی آر ایس ایس ہے۔اگر مودی اور آر ایس ایس کا عروج ہوتا ہے تو اس کی قیمت صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ملک کو چکانی ہوگی۔بس فرق ہے کسی کوزیادہ چکانی اور کسی کو کم۔فرقہ واریت ملک کو کھوکھلا کررہا ہے۔ملک میں سرمایہ کاری نہیں آرہی ہے اس کے نقصانات سبھوں کو برداشت کرنا ہوگا۔صرف مسلمانوں کو نہیں۔
دراصل مسلمانوں کا مسئلہ انصاف، سماجی برابری اور تعلیمی ترقی ہے۔گزشتہ دس سالوں میں اگر مودی مسلمانوں کے ان ایشوز کو پیچھے ڈھکیل دیا تو کیا ممتا بنرجی نے ایشوز پر بات کی ہے۔بلکہ ممتا بنرجی اقتدار میں رہنے کے لئے ہر وہ اقدامات کررہی ہے جو مودی اور بی جے پی کرتی ہے۔وہ ہندتو کی راہ ہے۔ممتا بنرجی صرف مذہبی جذبات کے سہارے بنگال اور پھر ہندوستان کے اقتدار پر پہنچنا چاہتی ہیں۔
بابل سپریہ کی امیدوار ی بھی ہندتو کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا تھا۔دراصل یہ مسلمانوں کے صبر کا امتحان تھا۔اس امتحان میں ترنمولی مسلمانوں نے اپنی وفاداری کی خاطر مسلمانوں کے مستقبل کے ایجنڈے کو ناکام کردیا۔اگر غنڈہ گردی، خوف و ہراس کا ماحول پیدا نہیں کرتے اور یہاں سے بابل کی ہار ہوجاتی تو ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی مسلمانوں سے متعلق اپنی سوچ تبدیل کرنے میں مجبور ہوتی کہ مسلمان غلام نہیں ہے۔مگر ان ترنمولی مسلمانوں نے ہر طرح کے حربے آزماکر مسلمانوں کے غلام ہونے کے تصور کو برقرار رکھا۔
تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلم اکثریتی وارڈوں میں ایک بڑی تعداد نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور دو وارڈوں میں ترنمول کانگریس کو سبقت بھی نہیں ملی باقی دو وارڈوں میں 60اور 61میں بھی ترنمول مخالف امیدوار نے سبقت بنائی۔اطلاعات ہے کہ ایک کونسلر نے وارڈ نمبر 60میں بڑحے پیمانے پر غنڈہ گردی اور حامیوں کے ساتھ محلہ میں گھوم کر ووٹروں کو ڈرایا اور دھمکایا کہ اگر ووٹ نہیں دیا تو خیر نہیں ہے۔اس کے باوجوود ووٹروں نے کھل کر اپنی بات رکھی۔
2021 میں سبرتو مکھرجی نے بالی گنج میں بی جے پی سے 75,339 ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ 80 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ بی جے پی کو 20.8 فیصد اور متحدہ محاذ کے سی پی ایم امیدوار کو 5.61 فیصد ووٹ ملے تھے۔مگر اس مرتبہ سی پی آئی ایم کی امیدوار سائرہ شاہ حلیم نے 30فیصد ووٹ حاصل کی ہے۔جب کہ بابل سپریہ کو 47فیصد ووٹ ملے ہیں اور بی جے پی 22فیصد ووٹ حاصل کیا ہے۔
گرچہ کلکتہ کارپوریشن اور میونسپلٹی انتخابات وضمنی انتخابات میں سی پی آئی ایم نے بہتر کارکردگی کامظاہرہ کررہی ہے۔اس مرتبہ بھی اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ترنمول کانگریس کو ووٹ کم ملنے کی وجہ بتاتے ہوئے جنوبی کلکتہ کے صدر دیباسیش کمار نے بتایا کہ ووٹنگ کم ہوئی اس کی وجہ سے جیت کا مارجن کم تھاانہوں نے کہا کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بالی گنج حلقہ میں 74 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس بار صرف 41 فیصد ہے۔ ضمنی انتخابات کے حوالے سے عوام کا جوش و خروش کم ہے۔ گرمی کی وجہ سے لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔ بالی گنج کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس لیے شاید ہمارے امیدواروں کے درمیان فاصلہ کم ہو گیا ہے۔
ترنمول کانگریس کیلئے سب سے زیادہ پریشانی کا یہ سبب ہے کہ مسلم علاقوں سے بڑی تعداد میں سی پی آئی ایم کی امیدوار سائرہ شاہ حلیم کو ووٹ ملے ہیں۔بائیں بازو کے امیدوار نے بالی گنج اسمبلی میں اقلیتی اکثریت والی چار وارڈوں میں ترنمول کے ووٹ بینک میں سیندھ لگائی ہے۔ یہاں تک کہ ان وارڈوں کے اقلیتی رائے دہندوں کی حمایت اس بار کانگریس کی طرف نمایاں ہے۔
دراصل انیس خان قتل کیس۔اس کے بعد بیر بھوم کے بوگتوئی میں پارٹی سیاست میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں شدید ناراضگی تھی۔اس کے علاوہ بابل سپریہ کو امیدوار بنائے جانے کی وجہ سے مایوسی آئی ہے۔بابل سپریہ پر آسنسول میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزام ہیے۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سوشل میڈیا پرگردش کررہے ہیں۔چناں چہ ”’سیٹیزن اگینسٹ پولیٹیکل وائلنس“ کی جانب سے نوووٹ بابل سپریہ کی حمایت میں مہم بھی چلائی گئی۔اس نعرے کی مقبولیت اور سائرہ شاہ کے اثرات کا ہی نتیجہ ہے کہ سائرہ شاہ اور اس تنظیم کے ایک درجن سے زاید ریلیوں اور جلوس کو رد کردیا
ریاستی وزیر زراعت شوبھندو چٹوپادھیائے نے کہا کہ میں کئی سالوں سے جنوبی کلکتہ میں سیاست کر رہا ہوں۔ اس نقطہ نظر سے میں نے دیکھا کہ سبرتو ایک سیاست دان کے طور پر بہت مقبول تھے۔ یہاں تک کہ ایک انسان کے طور پر بھی مقبول تپے۔ اس لیے ان کی جیت کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ تاہم، مجھے لگتا ہے کہ حالیہ کچھ واقعات بالی گنج میں ہمارے فرق کو کم کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ان واقعات کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ لیکن ان واقعات کا اثر اس الیکشن میں محسوس ہوا ہو گا۔
بالی گنج اسمبلی کو وارڈ نمبر 60، 61، 64، 65، 68، 69 اور 85پرمشتمل ہے۔ وارڈ 60، 61، 64 اور 65 میں اقلیتی ووٹرز کی اکثریت ہے۔ اور بائیں بازو ں نے اقلیتی آبادی والے دو وارڈوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی زیادہ دنوں تک اقلیتی ووٹوں کی دعویدار نہیں رہ سکتی ہیں۔انیس خان قتل کیس اور بیر بھوم میں سیاسی چپقلش میں 10مسلمانوں کے قتل عام نے ترنمول کانگریس کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔بالی گنج کے حلقے میں رہنے والے جادو پور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بتایا کہ کم ووٹنگ بھی مسلم ووٹروں کی ناراضگی کا مظہر ہے۔گزشتہ انتخابات میں ترنمول کانگریس کے امیدوار ان ہی مسلم حلقوں سے بہت ہی زیادہ ووٹوں سے لیڈ کرتے تھے۔
دراصل بابل سپریہ کے آسنسول میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں کردار موضوع بحث رہا ہے۔سنجیدہ مسلم سول سوسائٹی نے ممتا بنرجی کو خط لکھ کر بابل سپریہ کی امیدواری واپس لینے کی اپیل کی تھی کہ بابل سپریہ ماضی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزبیانات دیتے رہے ہیں۔ایسے میں مسلمان انہیں قبول نہیں کرسکتے ہیں۔مسلم سول سوسائٹی نے نو ووٹ بابل سپریہ کی مہم بھی چلائی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ترنمول کانگریس کے تمام مسلم لیڈروں کو یہاں کیمپ کردیا تھا۔بابل سپریہ کی شبیہ کو درست کرنے کیلئے دو بڑی افطار پارٹی بھی کی گئی۔
سی پی ایم کی کولکاتا ضلع کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ ووٹر ترنمول حکومت کی گمراہ کن اقلیتی پالیسی کو سمجھنے لگے ہیں۔ بوگتوئی کے حالیہ واقعہ نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے اس بار نہ صرف بالی گنج کے دو وارڈوں میں کامیابی حاصل کی بلکہ دیگر دو اقلیتی وارڈوں میں بھی انہیں اچھے خاصے ووٹ ملے ہیں۔ معلومات کے ساتھ، سی پی ایم قیادت نے دعوی کیا کہ 2021 کے اسمبلی انتخابات میں، سی پی ایم کو 8,484 ووٹ ملے تھے۔ دسمبر میں ہوئے کارپوریشن انتخاب میں یہ تعداد بڑھ کر 11,242 ہو گئی۔ اور بالی گنج کے ضمنی انتخاب میں ووٹ بڑھ کر 30,618 ہو گئی۔
کلکتہ کے میئر فرہاد حکیم نے سی پی ایم کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”بالی گنج میں شدید گرمی میں اقلیتیں ووٹنگ میں نہیں گئیں، یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس لیے اقلیتی ووٹروں نے ووٹ ڈالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی ہوگی۔” انہوں نے مزید کہا، ”آسنسول کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں کے اقلیتی ووٹروں نے ہمیں ووٹ دیا ہے۔ نتائج کی بنیاد پر اقلیتوں کا تجزیہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
فرہاد حکیم کی اس وضاحت کو ایک پروفیسرنے کہا کہ فرہاد حکیم خوابوں کی دنیا میں ہے۔دراصل مسلم نوجوانوں میں ترنمول کانگریس کے تئیں بیزاری تھی۔اور یہ اسی کا نتیجہ ہے۔