Thursday, November 21, 2024
homeاہم خبریںاسکولی طلبا کیلئے ٹیپ کی رقم میں گھوٹالہ کا دائرہ کار وسیع...

اسکولی طلبا کیلئے ٹیپ کی رقم میں گھوٹالہ کا دائرہ کار وسیع ۔۔ بنگال حکومت سوالو ں کی زد میں ۔ اتنے بڑے پیمانے غلط اکائونٹ میں رقم کی منتقلی کا ذمہ دار کون ؟

کلکتہ : انصاف نیوز آن لائن

اساتذہ تقرری گھوٹالہ کے بعد اب بارہویں اور گیارہویں جماعت کے طلبا کو ٹیپ کی خریداری کیلئے جاری ہونے والی رقم میں رقم میں گھوٹالہ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔یہ رقم طلبا کے اکائونٹ میں آنے کے بعد دوسرے اکائونٹ میں منتقل ہوگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک دو اکائونٹ میں غلطی کی شکایت تو درست ہوسکتی ہے مگر بنگال کے مختلف علاقوں سے یہ شکایتیں سامنے آئی ہیں ۔

گرچہ حکومت نے کارروائی شروع کردی ہے ۔اس کیلئے حکومت نے اسکول انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کو کوشش کی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کی غلطی ایک دو اسکول سے ہوسکتی ہے ایک ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر یہ غلطی کیسے ہوسکتی ہے ؟ جن طلبا کے بینک اکائونٹ اور آئی ایف ایس سی کوٹ درست تھے ان کی رقم کیوں نہیں آئی ؟ اس کے ساتھ ہی آن لائن سسٹم بھی سوالوں کی زد میں ہے۔

خیال رہے کہ مغربی بنگا ل حکومت کے ذریعہ گیارہوں اور بارہویں جماعت کے طلبا کو پڑھائی کیلئے ٹیپ کی رقم 10ہزار روپے دی جاتی ہے مگر بڑی تعداد میں یہ شکایتیں سامنے آئی طلبا کے اکائونٹ میں یہ رقم نہیں آئی ہے جب کہ حکومت کی فہرست میں دیکھا یاجارہا ہے کہ رقم منتقل کردی گئی ہے۔اسکول کے طلبا کی شکایت ہے کہ بینک اکاؤنٹ نمبر یا IFSC میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ اس کے باوجود ٹیب خریدنے کی رقم اکاؤنٹ میں نہیں آئی۔

کلکتہ میں بھی ایسی شکایتیں سامنے آئی ہیں ۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ڈسٹرکٹ اسکول انسپکٹرز نے مختلف اسکولوں میں طلباء کے ڈیٹا کی دوبارہ تصدیق کا عمل شروع کردیا ہے۔ڈیٹا کی تصدیق کے دوران کئی اہم شکایتیں سامنے آئی ہے ۔کلکتہ شہر میں پانچ سو کے قریب بینک اکاؤنٹس کی جانچ کی جارہی ہے۔ مبینہ طور پر کلکتہ کے تقریباً 80 اسکولوں میں اس طرح کے مسائل ہیں۔

ان میں سے کچھ معاملات میں بینک اکاؤنٹ نمبر لکھتے وقت ہندسوں کی غلطی تھی۔ کئی اکائونٹ کے IFSC میں غلطی پائی گئی ہے۔ کچھ اکائونٹ میں KYC کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک بار پھر ایسے اکاؤنٹس ہیں، جن میں اکاؤنٹ نمبر یا IFSC میں کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود رقم داخل نہیں ہوئی ہے۔ ریاستی حکومت نے ’’ترونر سپنا‘‘ اسکیم کے تحت 11 ویں اور 12 ویں جماعت کے طلباء کے لیے ٹیب خریدنے کے لیے فی طالب علم 10ہزار روپے دیے ہیں۔ لیکن اکاؤنٹ میں جمع رقم کو لے کر بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔

پہلے مشرقی بردوان ضلع میں یہ شکایت سامنے آئی تھی ۔تاہم اب بنگال کے مختلف اضلاع سے اس طرح کی شکایتیں سامنے آرہی ہیں ۔کلکتہ میں بہت سے طلباء یہ بھی شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں ٹیب خریدنے کے پیسے نہیں مل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے معاملات میں اسکول انتظامیہ کے خلاف شکایات کی گئی ہیں۔ والدین کا ایک گروپ سوال کررہے ہیں کہ اسکول انتظامیہ صحیح معلومات فراہم کی ہے یا نہیں ۔تاہم شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ کچھ معاملات میں بینک اکاؤنٹ کی معلومات درست ہونے کے بعد بھی ٹیب کی رقم نہیں ملی ہے۔

ٹیب تنازع کو لے کر کلکتہ کے کئی تھانوں میں پہلے ہی شکایت درج کرائی جاچکی ہے۔ سب سے پہلے شکایت جادو پور اور ٹھاکر پوکر کے دو اسکولوں سے آئی۔ بدھ کی رات کو معلوم ہوا ہے کہ کلکتہ میں مزید تین نئی شکایتیں درج کی گئی ہیں۔ واٹ گنج پولس تھانہ، مانیک تلہ پولس اسٹیشن اور بناپوکھر پولیس اسٹیشن میں شکایتیں درج کی گئی ہیں۔ کلکتہ کے کل 6 پولیس اسٹیشنوں کو اس کی اطلاع دی گئی ہے۔ جادو پور تھانے میں 12، ٹھاکر پوکر تھانے میں 31، قصبہ تھانے میں 10، واٹ گنج تھانے میں 2، مانک تلہ تھانے میں 2 اور بنیا پوکھر تھانے میں 5 شکایتیں درج کی گئی ہیں۔

یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ ریاستی حکومت کے ’’ترونر سپنا کے استفادہ کنندگان کو بھیجی گئی رقم کو دوسرے بینک کھاتوں میں کیسے منتقل کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی خود اس معاملے کو لے کر ناراض ہیں۔ ان کی ہدایت پر پیر کی سہ پہر نوبنو میں ایک خصوصی میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ چیف سکریٹری کے ساتھ میٹنگ میں ریاستی پولیس کے ڈی جی راجیو کمار اور مختلف اضلاع کے انتظامی افسران موجود تھے۔ میٹنگ کے دوران یہ الزامات سامنے آئے کہ تقریباً 309 طلبہ کے ٹیب کی رقم دوسرے بینک کھاتوں میں ڈال دی گئی ہے۔ ریاستی حکومت نے اس رقم کی واپسی کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق ان 309 اکاؤنٹس میں سے کم از کم 70 اکاؤنٹس میں رقم واپس کردی گئی ہے۔
بنگالی ٹیچرس اینڈ ایجوکیشن ورکرز ایسوسی ایشن نے ٹیب کی رقم سے متعلق اس تنازعہ کے لیے ریاستی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرا یا ہے۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری سوپن منڈل کے نے کہا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کتنےناکام لین دین ہوئے ہیں۔ اسکول یا ڈسٹرکٹ اسکول انسپکٹر کے دفتر کو اس کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ محکمہ خزانہ اور محکمہ تعلیم اس کے ذمہ دار ہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین