Saturday, November 15, 2025
homeاہم خبریںسیمانچل میں دراندازی کا پروپیگنڈہ کرنے والے بے نقاب

سیمانچل میں دراندازی کا پروپیگنڈہ کرنے والے بے نقاب

ایس آئی آر کے دوران سرحدی اضلاع کشن گنج اور ارریہ میں ایک بھی بنگلہ دیشی درانداز نہیں ملے۔دونوں اضلاع کے کلکٹروں کی تصدیق۔20برس سے حکومت کرنے والے سیمانچل کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے یہاں کے لوگوں کو درانداز کے ایشو میں الجھارہے ہیں؟

انصاف نیوز آن لائن

”دراندازی“ کے ایشو کو بی جے پی انتخابی ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے۔جھاڑ کھنڈ، آسام،بنگال اور بہار میں ووٹروں کو پولرائز کرنے کیلئے ”دراندازی“ کے ایشو شدت سے اٹھاتی ہے مگر 12برسوں سے مرکز میں حکمرانی کی وجہ سے سرحد کی نگرانی کیلئے جواب دہ ہونے کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں دے پاتی ہے کہ آخر وہ روکنے میں ناکام کیوں ہے۔چند دن قبل امیت شاہ نے اعتراف کیا کہ ”سرحدی پیچیدگی اس طرح ہے کہ دراندازی روکنا ممکن ہے۔

بہار انتخابات میں دراندازی کے ایشو کو بھی خوب اٹھایا گیا۔سیمانچل کے چار اضلاع جہاں مسلمانوں کی آبادی اوسطاً 44فیصد ہے کو دراندازی کے حوالے سے خوب اچھالیا گیا۔الزام لگایا گیا کہ یہاں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی دراندز آباد ہیں۔یہ سوال لگ ہے کہ جب سیمانچل کی سرحد براہ راست بنگلہ دیش سے متصل نہیں ہے تو پھر دراندازی کیلئے کون ذمہ دار ہے۔ایس آئی آر جب ہورہا تھا اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا اس کا مقصد غیر ملکیوں کی شناخت ہے۔

ان پروپیگنڈوں کے دوران انگریزی اخبار ”ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ آئی ہے جس میں کشن گنج اور ارریہ ضلع کے کلکٹرس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایس آئی آر میں ان دونوں اضلاع میں ایک بھی غیر ملکی کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی فہرستوں کی انتہائی نظرثانی کے دوران بہار کے کشن گنج یا ارریہ میں کوئی بھی ”غیر ملکی ووٹر“نہیں ملا۔

کشن گنج کے ضلع مجسٹریٹ وشال راج نے کہا کہ SIR کے دوران کوئی مشتبہ غیر ملکی نژاد ووٹر نہیں ملا۔ ”ہم نے مشکوک ڈومیسائل کے تحت کچھ ووٹروں کو نوٹس جاری کیے تھے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے درست دستاویزات پیش کریں، اپنی شہریت ثابت کریں اور انہوں نے اپنے کاغذات متعلقہ حکام کے سامنے پیش کئے اور وہ بھارت کے شہری نکلے۔

ارریہ کے ضلع مجسٹریٹ انیل کمار نے بھی کہا کہ ایس آئی آر میں کوئی بھی غیر ملکی نژاد نہیں ہے۔ ہم نے غیر حاضر، نقل مکانی، انتقال کرگئے (ASD) کالم کے تحت تقریباً 1.4 لاکھ ووٹرز کے نام حذف کیے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

مقامی عہدیداروں نے بتایا کہ بہار میں انتخابی فہرستوں کے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے خصوصی نظر ثانی (SIR) کو کشن گنج یا ارریہ میں ایک بھی ”غیر ملکی ووٹر” نہیں ملا۔

کشن گنج کے ایک طرف نیپال ہے، اور دوسری طرف شمالی بنگال کی چائے کی پٹی ہے، اور ارریہ نیپال کے ساتھ سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔یہ پروپیگنڈہ کیا جاتارہا ہے کہ ان دونوں اضلاع میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی، روہنگیائی درانداز آباد ہیں اور مسلمانوں کی کثیر آبادی کو دراندازی سے جوڑکر مشکوک بنایا جاتا رہا ہے۔

ہندو ووٹوں کو بی جے پی کے لیے پولرائز کرنے کے لیے فرقہ وارانہ کارڈ، ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال، مودی کے حامی لیپ ڈاگ مین اسٹریم نیوز چینلز بے شرمی سے بہار میں دراندازی کے ایشو اٹھاتی ہے مگر یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد ان میں خاموشی ہے۔

کشن گنج ضلع کے گلگلیہ بلاک میں ایک گاؤں کی سربراہ، انوپما ٹھاکر کہتے ہیں کہ اس علاقے میں غیر ضروری طور پر دراندازی کے مسئلے کو اٹھایا جاتی ہے۔نیپال سے آنے والی کچھ نوبیاہتا دلہنوں کو چھوڑ کر، اس کے علاقے میں ہر ایک کے پاس شناختی ثبوت تھے۔

کل میں ٹھاکر گنج میں تھا اور تیجسوی یادو کی کی کوریج کررہا تھا۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقامی ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید نے کہا کہ کشن گنج کے ضلع کلکٹر کی جورپورٹ آئی ہے وہ بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو بے نقاب کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دراندازی کو ایشو بناکر یہاں کے مقامی لوگوں کے مسائل کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔یہاں ہرسال مہانندا اور کوسی کی تباہ کاری کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوجاتے ہیں مگر حکومت کوئی بڑا پروجیکٹ بنانا تو دور باند ھ بنانے کو تیار نہیں ہے۔

ٹھاکر گنج کے رہنے والے بچ راج (35) نے کہا کہ لوگوں کا مطالبہ سادہ ہے: سیکیورٹی کو کارکردگی کے ساتھ میچ کریں۔ ”جب بھی باڑ کے آر پار کوئی خوف ہو تجارت کو مت روکیں۔ اور، غیر ضروری فرقہ وارانہ خوف و ہراس پیدا نہ کریں۔ SIR کے بارے میں ایک ہائپ پیدا کی گئی تھی۔

مسئلہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ کشن گنج کے بہت سے لوگ شمالی بنگال میں چائے کے باغات میں کام کرتے ہیں۔کشن گنج میں ایک چائے کی دکان کے مالک محمد حفیظ (45) نے کہا، ”نوجوانوں، خاص طور پر ڈپلومہ ہولڈرز اور انٹرمیڈیٹ پاس لڑکوں کے لیے، مقامی لیبر مارکیٹ پہاڑیوں کے ساتھ سکڑتی جا رہی ہے۔ یہاں نوکری کوئی نعرہ نہیں ہے۔ نوکری لفظی طور پر سرحد کے کھلے یا بند ہونے کے درمیان فاصلہ ہے۔”

”یہ ایک ایسا ضلع ہے جہاں بہت سے خاندان تین حقیقتوں کو گھیرے ہوئے ہیں – نیپال کے رشتے دار، بنگال کی نوکریاں، اور بہار کے پتے۔ دستاویزات اکثر بکھری پڑی ہیں۔ جب اس سال BLOs اور اہلکاروں نے اضافی تصدیق شروع کی تو تیزی سے پھیلیں۔مگر ایس آئی آر نے حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔

ممبر پارلیمنٹ محمد جاوید نے کہا کہ ”مہانندا اور کنکئی (دریاؤں) نے بار بار ہماری چھوٹی سڑکوں کو نقصان پہنچایا ہے، پشتوں کوتوڑ دیا ہے۔ ہر مون سون، ٹھاکر گنج اور پوتھیا بلاکس میں ہرسال تباہی آتی ہے۔

کشن گنج میں زیادہ ترمسلمانوں کا تعلق سرجا پوری سے ہے۔ان کے لہجے میں بنگلہ ہے مگر ان کی ز بان میں بنگالی، ہندی اور اردو کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس علاقے میں تقریبا اکثریت سرجاپوری مسلمانوں کی ہے۔

گزشتہ انتخاب میں یہاں کی 24سیٹوں میں سے 12پر این ڈی اے جس میں بی جے پی سات، جنتادل یو نے چار سیٹوں پر کامیاب حاصل کی جب کہ کانگریس نے پانچ، راشٹریہ جنتادل ایک اور سی پی آئی ایم ایل نے ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔مگر ایم آئی ایم نے پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے پورے سیمانچل کی سیاست کا ہی رخ بدل دیا تھا۔
ایم آئی ایم کی موجودگی نے سیمانچل کی سیاسی گفتگو پر اثرانداز اس طرح ہے کہ اب یہاں مقامی لوگوں کے مسائل پر بات چیت ہونے کے بجائے مسلم قیادت کا چر خوب زور شور سے کیا جارہا ہے۔اس مرتبہ ایم آئی ایم نے پوری قوت جھونک دی ہے۔ایسے تو مکمل بہار میں تاہم سیمانچل میں مسلمانوں کی سیاسی جماعت اور پارٹی کا موضوع چھاگیا ہے۔گرچہ علاقے کے تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد میں اب ایم آئی ایم کو لے کر پہلی والی مقبولیت نہیں ہے۔نوجوانوں میں بہت ہی کریز ہے مگر یہ نوجوان کہاں تک انداز ہوں گے یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین