Thursday, December 26, 2024
homeاہم خبریںسپریم کورٹ تری پورہ میں صحافیوں کے خلاف یوپی اے لگائے جانے...

سپریم کورٹ تری پورہ میں صحافیوں کے خلاف یوپی اے لگائے جانے پر نوٹس لے:ایڈیٹر گلڈس—— تشدد اور اشتعال انگیزی کے باوجود مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا:مسلم مجلس مشاورت

نئی دہلی (انصاف نیوز آن لائن)
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے تریپورہ میں اکتوبر میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ اور تحریر کرنے پر صحافیوں سمیت 102 افراد کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کئے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے ۔
انگریزی اخبارہندوستان ٹائمز کے مطابق، تریپورہ پولس نے مبینہ طور پر مسخ شدہ خبریں پوسٹ کرنے پر سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
دی وائر کے مطابق، 68 ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈرز کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں سے اکثر صحافی ہیں، 32 فیس بک صارفین اور یوٹیوب پر دو اکاؤنٹس ہیں۔تری پورہ میں 26 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مکانات اور مسجدوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے اس مہینے کے شروع میں بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے دوران شمالی تریپورہ میں مسلمانوں کی ایک مسجد اور املاک کی مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی تھی۔لیکن پولیس نے دعویٰ کیا کہ ضلع میں کوئی مسجد نہیں جلائی گئی۔
یو اے پی اے کے تحت درج کیے گئے افراد میں سے ایک نیوز کلک کے صحافی شیام میرا سنگھ نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھی ایک ٹویٹ پوسٹ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ’’تریپورہ جل رہا ہے‘‘۔
صحافیوں کی ایسوسی ایشن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اتوار کے روز صحافیوں کے خلاف UAPA کے مقدمات درج کرنے کو’’انتہائی پریشان کن رجحان‘‘ قرار دیا۔ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ “ایسا سخت قانون، جہاں تفتیش اور ضمانت کی درخواستوں کا عمل میں انتہائی سخت اور مشکل ہے، اسے محض رپورٹنگ اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔

ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ حکومتیں پرتشدد واقعات کی رپورٹنگ کو دبانے کے لیے یو اے پی اے کا استعمال نہیں کر سکتی ہیں۔گلڈ کی رائے ہے کہ یہ ریاستی حکومت کی طرف سے اکثریتی تشدد پر قابو پانے میں اپنی ناکامی سے توجہ ہٹانے کے ساتھ ساتھ اس کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش ہے۔ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ صحافیوں اور کارکنوں کو سزا دینے کے بجائے تریپورہ حکومت کو تشدد کی منصفانہ تحقیقات کرنی چاہیے۔
تنظیم نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اس بات کا نوٹس لے کہ جس طرح سے آزادی اظہار کو دبانے کے لیے سخت قوانین کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ایڈیٹرز گلڈ نے کہا کہ “صحافیوں کو ان کے تحت چارج کرنے کے بارے میں سخت رہنما خطوط جاری کریں، تاکہ یہ قوانین آزادی صحافت کو دبانے کا آسان ذریعہ نہ بنیں۔”صحافیوں کے علاوہ تریپورہ پولیس نے ریاست میں مسلم مخالف تشدد کو اجاگر کرنے والے دو وکلاء کے خلاف بھی یو اے پی اے کیس درج کیا ہے۔
مکیش کمار، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے دہلی میں مقیم وکیل اور نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس کے انصار اندوری اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا حصہ ہیں جس نے فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کے لیے تریپورہ کا دورہ کیا تھا۔فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تریپورہ میں تشدد “انتظامیہ کے ساتھ ساتھ انتہا پسند تنظیموں اور پرجوش سیاست دانوں کے مفادات کی غیر ذمہ داری” کا نتیجہ تھا۔پی یو سی ایل، انسانی حقوق کی ایک تنظیم، نے الزام لگایا کہ وکلاء کے خلاف مقدمات صرف اس لیے درج کیے گئے تھے کہ ان کی رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ ہندو اکثریتی گروہوں کی طرف سے مسلمانوں پر تشدد پولیس کی طرف سے “غلط ملی بھگت اور شعوری طور پر فرائض سے دستبرداری” کے ساتھ کیا گیا تھا۔
ا س سے قبل تری پورہ کا دورہ کرنے والےمسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے تریپورہ فساد کے پس منظر میں گفتگو کے دوران ہندوتوا وادی طاقتوں پر الزام لگایا کہ اس وقت ملک میں ہندوؤں کو خاص طبقہ کے خلاف اکسانے کی مقصد یہ ہے وہ ایک خانہ جنگی چاہتی ہیں ۔ فساد زدہ تریپورہ کا دورہ کرنے کے بعد وفد میں شامل مسلم جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ تریپورہ اور گروگرام کے حالیہ واقعات کے مطابق یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے گروگرام میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے نشانہ بنائے جانے کاموازانہ کرتےہوئے الزام لگایا کہ جس طرح ہندو تنظیموں کے احتجاج کےبعد گروگرام میں نماز کے لیے مقررہ جگہوں کو بند کردیا گیا اسی طرح تریپورہ میں مساجد کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دونوں واقعات ہندوتوا وادیوں کے دو بنیادی ایجنڈے کا نتیجہ ہیں۔ نوید حامد کے مطابق جہاں اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے ہندو مسلم تنازعات کو ابھارنا اور صف بندی کرنا ہے ۔ وہیں بڑا ایجنڈا ہندوؤں کے دل میں یہ بات بٹھانا دینا ہے کہ مسلمانوں کے کسی بھی مذہبی مقام کو برداشت نہ کیا جائے اوراس اکساوے واشتعال کے پس پشت ایجنڈا یہ ہے کہ وہ ایک خانہ جنگی چاہتے ہیں ۔

انہوں نے تریپورہ کے فساد کو سیاسی سازش بتایا اور کہا کہ اس ایجنڈے کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بناتھا۔ پولیس نے نہ صرف تشدد کی نگرانی کی بلکہ فسادیوں کے ساتھ مل کر ان کی کارروائیوں کی پشت پناہی کی۔ مسلم وفد جس کا کلیدی حصہ جماعت اسلامی تھی تریپورہ فسادمیں پولیس کے رول کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات کا وقت مانگا تھا مگر ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔تب سی ایم کو خط لکھ کر مانگ کی ہے کہ فساد کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائیں۔ انجینئر محمد سلیم نے الزام لگایاکہ نہ صرف قصورواروں کو کھلا چھوڑ دیا بلکہ ان آوازوں کو نشانہ بنارہے ہیں جو تشدد کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کررہی تھیں ۔ خیال رہے تریپورہ پولیس نے ایسے 101 افراد اور دویوٹیوب چینل کےخلاف یو اے پی اے کی سنگین دفعات کے تحت معاملہ درج کیاہے ۔

نوید حامد نے کہاکہ جس ایجنڈے پر سنگھ ، بی جے پی کام کررہے ہیں اس کامقصد ہی مسلمانوں کے تعلق سے برادران وطن کے دل میں نفرت شکوک وشبہات پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے بارے میں ہر مثبت تصور ختم ہو جائے ، پھر وہ قوم جو چھوٹی باتوں کو بھی برداشت نہیں کرپاتی ۔ سنگھ کو معلوم ہے کہ مسلمان آنحضورؐ ،قرآن پاک اورمساجد کے تعلق سے کتنا خاموش اور جذباتی ہے وہ اسے مشتعل کر نا چاہتے ہیں مگر مسلمان صبر وتحمل سے برداشت کررہاہے ۔ جب آئین میں دی گئی مذہبی آزادی ختم کرنے کی کوشش ہو اور کمیونٹی کو دیوار سے لگادیا جائے تو وہی نتائج ہو ں گے جس کا خدشہ ظاہر کیا گیاہے ۔ حکومت سازش کاروں کی پشت پناہی نہیں بلکہ ساتھ بھی کھڑی ہوئی ہے ۔ بہرحال جس پر نظر یاتی حملے ہو رہے ہیں اس پر زیادہ ذمہ داری ہے ۔ برادران وطن سے تعلقات بہتر بنانے ،ان کی غلط فہمیاں دور کرنے اور صدیوں پرانے تعلقات کو بچانے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین