Sunday, May 18, 2025
homeاہم خبریںانسانیت سوز ظلم کے شکار باشندگان غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کا...

انسانیت سوز ظلم کے شکار باشندگان غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کا ٹرمپ کا ناپاک منصوبہ

ٹرمپ انتظامیہ غزہ کے 10 لاکھ لوگوں کو لیبیا منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، لیبیا کی رضامندی پر امریکہ ایک دہائی سے رکا ہوا اربوں ڈالر کا امدادی فنڈ جاری کر سکتا ہے ڈونالڈ ٹرمپ،

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے لیے ایک بڑا منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر ان کی انتظامیہ تیز رفتاری کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ’این بی سی نیوز‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ پٹی کے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو لیبیا میں مستقل طور پر آباد کرنے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ واضح ہو کہ رپورٹ میں اس منصوبے کا علم رکھنے والے 5 مختلف ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’ٹرمپ انتظامیہ نے اس تجویز کو اتنی سنجیدگی سے لیا کہ اسے لیبیا کی قیادت کے سامنے بھی رکھ دیا گیا۔ اس میں 2 موجودہ افسران اور امریکی انتظامیہ کے ایک سابق افسر بھی شامل تھے، جن کے مطابق یہ بات چیت سفارتی سطح پر ہو چکی ہے۔‘‘

اس منصوبہ کے تحت اگر لیبیا غزہ کے شہریوں کو اپنے یہاں آباد کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو امریکہ اسے اربوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کرے گا۔ یہ وہ فنڈ ہے، جسے واشنگٹن نے ایک دہائی قبل روک دیا تھا اور اسے اب دوبارہ جاری کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تجویز نہ صرف انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے انتہائی متنازعہ ہوگی، بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی امیدوں پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ غزہ کے لوگوں کو ان کے آبائی وطن سے ہٹا کر کسی تیسرے ملک میں آباد کرنے کا منصوبہ حساس سیاسی اور اخلاقی سوالات کھڑے کرتے ہیں۔

حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ لیبیا نے اس تجویز پر رضامندی کا اظہار کیا تھا یا نہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اس منصوبہ کے حوالے سے بات چیت سنجیدہ مرحلہ تک پہنچ چکی تھی۔ ایک طرف جہاں لیبیا داخلی عدم استحکام سے نبرد آزما ہے، ایسی صورت میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو وہاں آباد کرنا ملک کی معاشرتی اور اقتصادی حالات پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ لیبیا کے عوام اور علاقائی رہنماؤں کا اس طرح کی تجویز پر منفی رد عمل آ سکتا ہے۔ بہت سارے ماہرین کا خیال ہے کہ فلسطینی شہریوں کو لیبیا میں جبراً آباد کرنا نہ کوئی منصفانہ عمل ہے اور نہ ہی سفارت کاری کی کوئی اعلیٰ مثال ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس سے قبل بھی اپنی اسرائیل نواز پالیسی اور فلسطینی مسائل پر جارحانہ موقف اختیار کرنے کی وجہ سے تنازعات کا شکار رہی ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر درجہ دینے اور مغربی کنارے کی بستیوں پر نرم رویہ اختیار کرنے جیسے فیصلوں کی وجہ سے ہی انہیں عرب دنیا میں کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ واضح ہو کہ غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی کا یہ خفیہ منصوبہ اگر نافذ کیا گیا تو نہ صرف انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ اس سے امریکہ کا عالمی امیج اور مشرق وسطیٰ میں اس کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین