Tuesday, December 2, 2025
homeاہم خبریںسپریم کورٹ میں عمر خالدکی تقریر کا ویڈیو چلایا گیا۔یہ طالب علم...

سپریم کورٹ میں عمر خالدکی تقریر کا ویڈیو چلایا گیا۔یہ طالب علم ہیں جنہوں نے کچھ مسائل پر احتجاج کیاتھا:۔ کپل سبل

نئی دہلی : انصاف نیوز آن لائن
عمر خالد کی امراوتی والی تقریر کو آج کھلی عدالت میں چلایا گیا۔ سینئر وکیل کپل سبل نے ریمارکس دیے کہ گاندھی جی کے طریقہ احتجاج (سول نافرمانی) کی وکالت کرنا سازش کے زمرے میں نہیں آ سکتا، اور کسی طالب علم کو سالہا سال قید میں رکھنے سے عوامی مفاد کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، خواہ اس احتجاج نے کچھ مسائل اٹھائے ہوں، درست ہوں یا غلط۔ ”میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ ایک تعلیمی ادارے کا طالب علم کیا کر سکتا ہے جو ملک یا ریاست کا تختہ الٹ دے گا؟-

ہائی کورٹ نے بھی اسی تقریر پر انحصار کیا اور پرائما فیشی یہ نتیجہ نکالا کہ ’فرقہ وارانہ بنیاد پر اشتعال انگیز تقریر کی گئی‘۔ پوری تقریر پڑھ لی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہائی کورٹ یہ نتیجہ کیسے نکال سکتی ہے؟… دیگر شریک ملزمان جن پر اشتعال انگیز تقریر کا الزام ہے، وہ ضمانت پر باہر ہیں۔“ سبل نے کہا کہ اگر ایسی تقریر پر یو اے پی اے لگ جائے تو ”ہم میں سے بہت سے لوگ جیل جانے کے مستحق ہو جائیں گے“۔ ویڈیو کلپ میں عمر خالد کہتے سنائی دیے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج آزادی کی جدوجہد میں گاندھی جی کے طریقوں پر عمل کریں گے۔ ”ہم تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیں گے۔ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیں گے۔ تشدد کا مقابلہ عدم تشدد سے کریں گے اور نفرت کا جواب محبت سے دیں گے۔“

جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجریا پر مشتمل بنچ دہلی فسادات کی بڑی سازش کیس میں عمر خالد سمیت دیگر ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی۔ کپل سبل نے کہاکہ ’عوامی مفاد کیا ہے؟ پہلا یہ کہ اگر میں باہر آو¿ں تو ایسی سرگرمیاں نہ کروں جو ریاست کے لیے خطرہ بن سکیں۔ یقیناً ایک فرد اکیلا یہ نہیں کر سکتا، اور آپ کی عدالت کے پاس اتنا اختیار ہے کہ ایسا نہ ہونے دے۔ دوسرا عوامی مفاد یہ ہے کہ اس شخص کو مزید تین سال یا مقدمے کے ختم ہونے تک کیوں جیل میں سڑایا جائے؟ یعنی یہ سزا دینے جیسا ہو گیا ہے۔ میں ثابت ہونے تک بے گناہ ہوں۔ یہ ریاست کی طرف سے سزا دینے والا عمل ہے تاکہ یونیورسٹی کے دیگر طلبا کو سبق سکھایا جائے کہ ایسا مت کرو۔“ سبل نے نشاندہی کی کہ چکا جام اور ریل روکو ملک میں احتجاج کے عام طریقے ہیں۔

”پورے ملک میں چکا جام ہوتے رہے ہیں۔ جارج فرنانڈیز کے دور میں ریلوے کو چلنے نہیں دیا جاتا تھا۔ راجستھان میں گوجر تحریک کے دوران لوگ ریلوے ٹریک پر لیٹ جاتے تھے۔ کسان تحریک میں کوئی یو اے پی اے نہیں لگا… ان بچوں نے کیا کیا ہے؟ یہ جائز احتجاج تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حد سے زیادہ ہو گیا، لیکن یہ دہشت گردی تو نہیں کہہ سکتے! اس کا دوسرا طریقہ ہے، پانچ سال جیل نہیں۔ ہم اتنی لمبی بحث کر رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے… یہ طالب علم ہیں، جنہوں نے کچھ مسائل پر، درست یا غلط، احتجاج کیا۔ ہمارے زمانے میں بھی ہم احتجاج کرتے تھے۔ میرے سینٹ سٹیفنز کے کچھ دوست نکسل تحریک میں چلے گئے تھے، ہم نہیں گئے، لیکن احتجاج کرتے تھے۔

اگر احتجاج کیا تو جیل میں ڈالنے کا کیا فائدہ؟ اگر کیس ہے تو مقدمہ چلاو، سزا دو، جیل بھیجو۔ احتجاج کی سزا کے طور پر قید نہیں رکھ سکتے۔ یہ ہمارے ملک کا قانون نہیں ہو سکتا۔“ یہ درخواستیں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، میرا حیدر، شفا الرحمٰن، محمد سلیم خان اور شاداب احمد نے دائر کی ہیں جو دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کر رہی ہیں جس میں ان کی ضمانت مسترد کی گئی تھی۔ برابری کی بنیاد پر دلائل دیتے ہوئے سبل نے کہا کہ دیگر شریک ملزمان دیوانگنا کلیتا، ناتاشا نرول اور آصف اقبال تنہا کو 2021 میں ہی ضمانت مل چکی ہے۔ عمر خالد کے خلاف کوئی واضح یا خفیہ عمل منسوب نہیں، صرف یہی ”اشتعال انگیز تقریر“ اور دہلی پروٹیسٹ سپورٹ گروپ (DPSG) کی رکنیت، جہاں وہ صرف ممبر تھے اور صرف ایڈمن پیغام بھیج سکتے تھے۔ پانچ سال سے زیادہ قید کاٹ چکے ہیں، اب تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین