نور اللہ جاوید
بنگال اسمبلی انتخابات کے نتائج اوردعوئوں کے مطابق بی جے پی کی شکست کے بعد سیکولر پسند عوام میں جشن کا ماحول ہے ،گزشتہ تین مہینے سے جاری میڈیا کی ہنگامہ آرائی نے بنگال اسمبلی انتخابات کوایک اعصابی جنگ میں تبدیل کردیا تھا۔ہر طرف بنگال اسمبلی انتخابات اور بی جے پی کے ہی تذکرے تھے، گزشتہ تین مہینوں میںہردن کسی نہ کسی مرکزی لیڈر کابنگال میں جلسہ وجلوس اور روڈ شوہوتا تھا اور 24×7نیوز چینلوں پر اس کی لائیو کوریج ہوتی تھی۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام ریلیوں ،جلسوں اورروڈ شو میںکی جانے والی تقریرو ں میں یکسانیت تھیں۔یہی وجہ ہے کہ تنوع پسند بنگالیوںکوباہری لیڈروں کی جارحانہ تقریر پسند نہیں آئی۔بنگال انتخابی تشدد کےلئے بدنام ضرور ہے، پارٹی کی وفاداری کے نام پر مرنے اور مارنے پر آمادہ ہوجاناعام بات ہے ۔مگر یہ سب مخصوص طبقے و طبقات کے ذریعہ کرائے جاتے ہیں ۔یہ طبقہ بے روزگاروں اور غربت کی زندگی گزارنے والوں کا ہے۔مجموعی طور پر بنگالی عوام امن پسند ہیں ۔اس لئے بی جے پی کی جارحانہ ہندتو کوبنگال کے پرامن عوام نے مسترد کردیا ۔ہندی بیلٹ کی طرح بنگال کے عوام کی اکثریت’’ جارحانہ ہندتو ‘‘میں یقین نہیں رکھتے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا بنگال کے عوام نے ہندتو کے ایجنڈے کو یکسر مسترد کردیا۔یا پہلے مقابلے بنگال میں ہندتو کی جڑیں مزید مضبوط ہوئی ہیں؟ ۔
2019میں شاندار جیت حاصل کرنے کے بعد توقع تھی کہ بی جے پی پی بنگال اسمبلی انتخابات میں بہتر کارکردگی کامظاہرہ کرے گی۔مگر دو تہائی کیا ایک تہائی سیٹیں بھی بی جے پی جیت نہیں سکی۔دراصل بی جے پی کی شکست کا مقدر خود وزیرا عظم مودی اور امیت شاہ نے لکھی ہے۔ان دونوں نے وہی غلطیاں دہرائی ہیں جو بہار میں 2015میں اور دہلی اسمبلی انتخابات میں کی تھی۔حد سے زیادہ جارحانہ انداز، زمینی حقائق سے بے خبری،مرکزی لیڈر شپ پرمکمل انحصار،مقامی لیڈروں کو نظرانداز کیا جانا ، ترقیاتی ایجنڈے کے بجائے ممتا بنرجی کی کردار کشی یہ وہ اسباب ہیں جو بی جے پی کی امیدوں کی ہوا نکال دی اور امیت شاہ کے چانکیہ بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ صرف بی جے پی کی ہی شکست ہے۔بلکہ ممتا بنرجی کی بھی جیت ہوئی ہے ۔ اپنے دس سالہ دور اقتدار میں ممتا بنرجی کی فلاحی اسکیمیں بالخصوص انتخابات سے عین قبل ’’دوار سرکار‘‘ جس میں بڑے پیمانے پر لاکھوں خاندان کو ہیلتھ کارڈ دئیے گئے۔ کنیا شری، روپاشری اسکیم اور اسکالر شپ ریاست کےذریعہ نوجوانوں اور خواتین میں ممتا بنرجی مقبول بنی رہیں ۔بی جے پی مرکزی اسکیموں کو لے کر واویلا مچاتی رہی مگرممتا حکومت کسانوں اور شہریوں کو اپنے کسان اسکیم اور ہیلتھ کارڈ کو متبادل کے طور پر پیش کرکے عوام کو مطمئن کر نے کی بھر پور کوشش کی ۔سب سے بڑی بات یہ کہ بی جے پی کی جارحانہ فرقہ وارنہ مہم نے مسلم ووٹروں کو متحد کردیا ۔ دوسری طرف ممتا بنرجی 2019سے قبل سے ہی ’’مسلم خوشامد پسندی ‘‘کے داغ کو دھونے کا آغاز کرتے ہوئے مسلمانوں سے دوری بنانے کی پالیسی پر گامزن رہیں۔چناں چہ اقلیتی محکمہ کی کارکردگی کو رپورٹ کارڈ میں ذکر نہیں کیا گیا، انتخابی منشور میں اقلیتی مسائل پر بات چیت نہیں کی اور گزشتہ انتخابات کے مقابلے اس مرتبہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیاگیا۔
بنگال اسمبلی انتخابات کے نتائج کا یہ ایک پہلو ہے۔تاہم جیسا ہم جانتے ہیں ہر ایک چیز کا دو پہلو ہوتا ہے ۔کوئی بھی تجزیہ دونوں پہلوئوں کا جائزہ لئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پہلو پر میڈیا بالخصوص اردو میڈیا میں بات چیت نہیں ہورہی ہے ۔جب کہ اس پہلو کا تعلق بنگال کے مستقبل سے ہے ۔دراصل اس پہلو پر اس لئے بھی بات نہیں ہوتی ہے کہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کا واحد ایجنڈا بی جے پی کی شکست ہے۔جن ریاستوں میں بی جے پی شکست سے دو چار ہوتی ہے تو اس کا جشن پورے ہندوستان میں منایا جانے لگتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کسی کی جیت اور ہارہی ہمارے لئے خوشی کا ذریعہ کیسے ہوسکتا ہے۔
آر ایس ایس کے بنیادی مقاصد میں ہندو راشٹر کا قیام اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں اچھوت بناناہے۔اگر اس نقطہ نظر سے بنگال انتخابات کے نتائج کا تجزئیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنگال میں بی جے پی بھلے ہی شکست سے دو چار ہوگئی ہے مگر آر ایس ایس ملک بھر میں جس بیانیہ کو عوام میں مقبول بنانا چاہتی ہے اس میں وہ کامیاب ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔آر ایس ایس کے طریقے کار اور منصوبے و عزائم کو جاننے والے جانتے ہیں ہیں کہ وہ وقتی فائدے کے بجائے دوراندیشی کے ساتھ مستقبل میں دیرپا نتائج کے حصول میں یقین رکھتی ہے ۔بی جے پی لیڈرا ن بھلے ہی دو سو سے زاید سیٹیں اور حکومت قائم کرنے کے دعوے کررہے تھے مگر آر ایس ایس کا کوئی بھی سینئر عہدیدار اس طرح کے دعوے نہیں کررہا تھا۔بلکہ آر ایس ایس کے لیڈران اور عام کارکن اپنی زمین مستحکم کرنے میںلگے ہوئے تھے۔چناں چہ 2016میں محض تین سیٹیں جیتنے والی بی جے پی بنگال اسمبلی انتخابات میںنہ صرف 77سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے بلکہ جن سیٹوں پر بی جے پی کی شکست ہوئی ہے ان میں سے 99فیصد سیٹوں پر بی جے پی دوسری پوزیشن پر رہی ہے۔100کے قریب ایسی سیٹیں ہیں جہاںپر جیت اور ہار کا فرق محض چند ہزار کے قریب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔
بی جے پی کو شکست دینے کےلئے ممتا بنرجی اور ان کے سیاسی صلاح کار پرشانت کشور نے کون سے طریقے اختیار کئے اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے ۔بی جے پی کے جارحانہ ہندتو کے مقابلے ممتا بنرجی نے سیکولر نظریہ کو پیش کرنے کے بجائے نرم ہندتو کو پیش کیا جو بنگال کے عوام کی ذہنیت کے قریب بھی ہے۔2011اور اس کے چند سال تک اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں کی ترقی پر بات کرنے والی ممتا بنرجی نے اس مرتبہ مسلم مسائل سے بالکل خاموشی اختیار کرلی۔بلکہ آبادی کے لحاظ سے مسلم امیدوار نہیں اتارے گئے۔ہوڑہ، بیر بھوم، ندیا ، کوچ بہار ، شمالی 24پرگنہ اور جنوبی 24پرگنہ جیسے اضلاع جہاں مسلم آبادی 25فیصد سے 35فیصد کے درمیان ہے وہاں آبادی کے لحاظ سے مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔بلکہ پارٹی کے منتخب مسلم نمائندوں کے ٹکٹ کو کاٹ پر کر ان سیٹوں پر غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ۔چناں چہ اس مرتبہ بنگال میں مسلم نمائندگی میں کمی آئی ہے اور محض 44سیٹوں پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ۔جب کہ گزشتہ انتخاب میں 59مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 2011سے ممتا بنرجی کے عروج کے ساتھ ہی بنگال میں مسلم نمائندگی کی شرح میں کمی آتی جارہی ہے ۔
ترنمو ل کانگریس یہ کہہ کر مطمئن نہیں کرسکتی ہے کہ گزشتہ مرتبہ ان کی پارٹی سے 32مسلم امیدوار کامیاب ہوئےتھے اور اس مرتبہ 43امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ۔ دراصل مالدہ ، مرشدآباد اورشمالی دیناج پورمیں مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ سے کانگریس اور بائیں محاذ کا صفایا ہوگیا اس کی وجہ سے ان اضلاع میں تو ترنمول کانگریس کے مسلم امیدوار زیادہ کامیاب ہوئے ہیں مگر 17ایسی سیٹیں ہیں جہاں گزشتہ انتخابات میں کانگریس ، بائیں محاذ اور خود ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔مگر اس مرتبہ ان میں سے 14سیٹوں پر ترنمول کانگریس کے غیر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں تین پر بی جے پی کی کامیابی ہوئی ہے ۔ 17سیٹوں میں 7ایسی سیٹیں ہیں جہاں گزشتہ انتخاب میں ترنمو ل کانگریس کے مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔اس مرتبہ مالدہ کی دو اور مرشدآباد کی ایک سیٹ جہاں مسلم آبادی زیادہ وہاں پر بھی کانگریس کے مسلم امیدوار کی شکست ہوئی ہے اور ترنمول کانگریس کے غیر مسلم امیدوار کی جیت ہوئی ہے۔
ہگلی ضلع میں گزشتہ انتخاب میں چار مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے مگر اس مرتبہ ان چاروں پر ترنمول کانگریس کامیابی ملی ہے مگر چاروں غیر مسلم ہے۔ہگلی ضلع کے کھانا کول کی سیٹ پر ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر لگاتار دو مرتبہ سے اقبال احمد کامیاب ہوتے تھے مگر اس مرتبہ ترنمو ل کانگریس نے غیر مسلم کو ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب ہوگئے۔اسی طرح سے ہگلی کے پرسورہ سے ترنمول کانگریس کے ٹکٹ پر گزشتہ انتخاب میں مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے مگر اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے غیر مسلم کو ٹکٹ دیا اور وہ کامیاب ہوئے۔بیر بھوم جہاں مسلم ووٹروں کی شرح 35فیصد ہے ۔وہا چار ایسی سیٹیں ہیں جہاں گزشتہ انتخاب میں مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے مگر اس مرتبہ غیر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ۔جب کہ بیر بھوم ان اضلاع میں سے ایک ہےجہاں ترنمول کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 11میں سے ۱10سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ کیسی ایسے اضلاع ہیں جہاں سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوئے ہیں جب کہ وہاں مسلم آبادی 20فیصد سے زاید ہے ۔
انتخابی تجزیہ نگار یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن ہوا ہے اور ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن کا نہیں ہوا اس لئے ممتا بنرجی کامیاب ہوئی ہیں۔ دراصل یہ نصف سچائی ہے۔مالدہ ، مرشدآباد ، شمالی دیناج پور اضلاع کے نتائج بتاتے ہیں کہ جہاں مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن ہوا ہے وہیں ہندوووٹوں کا بھی ریورس پولرائزیشن ہوا ہے ۔چناں چہ مرشدآباد جیسے 70فیصد آبادی والے ضلع میں 21سیٹوں میں5سیٹوں پر بی جے پی جیت حاصل کی ہے۔مالدہ کی 9سیٹوں میں سے چار سیٹوں پر بی جے پی کامیاب ہوگئی ہے۔ظاہر ہے یہ پولرائزیشن کا ہی نتیجہ ہے۔
بی جے پی کے جارحانہ ہندتو کے مقابلہ ممتا بنرجی کا’’ نرم ہندتو‘‘ کو پیش کیا جو بنگالی کلچر ،تہذیب و تمدن سے زیادہ قریب تھی۔اس ہندتو میں مسلمانوں کے تئیں کے کھلم کھلا نفرت اور بیزاری کا اظہار نہیں ہوتا ہے مگر اقلیتوں کو ہرشعبے میں نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ممتا بنرجی ہرانتخابی ریلی میں خود کو برہمن کی بیٹی اور سلوگ و منتر پڑھتے ہوئے چیلنج کرتی رہیں کہ اصل ہندو وہی ہیں ،انہو ں نے شمالی ہندوستان کے جارحانہ ہندتو کے مقابلہ بنگالی قوم پرستی جو ہندتو کے بطن سے ہی پیدا ہوا ہے ۔کے نعرے بلند کی ۔ممتا بنرجی کے بنگالی برہمن کارڈ کتنا کارآمد ہوا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترنمو ل کانگریس کے 213ممبران اسمبلی میں 112ممبران کا تعلق بڑی ذات برہمن اور کائستہ سے ہے۔بنگال اسمبلی کا ذات کے اعتبار سے مواز نہ کیا جائے تواس مرتبہ 43فیصد بڑی ذات کے افراد کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس مرتبہ مسلم ممبران کی تعداد میں 5فیصد کمی آئی ہے جب کہ شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب کی نمائندگی کی شرح میں 24فیصد سے اضافہ ہوکر 27.4ہ فیصد وگیا ہے۔یہ ایسا اس لئے بھی ہوا ہے کہ اس مرتبہ ترنمول کانگریس نے جنرل سیٹوں پر بھی ایس سی اور ایس ٹی کے امیدوارو کو ٹکٹ دیا تھا۔چناں چہ بی جے پی ان علاقوں میں سبقت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جہاں مسلم آبادی اور برہمن اور کائستھ کی آبادی کم ہے۔مذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں اگر غور کیا جائے جونتائج سامنے آتے ہیں کہ ممتا بنرجی کو مسلم ووٹ کے اتحادکے ساتھ بنگالی ہندوقوم پرستی اور برہمن کی بیٹی ہونے کا فائدہ ملا ہے ۔
آر ایس ایس کا بنیادی مقصد ملک میں ہندتو کا قیام اور اس کے لئے ماحول سازگار کرنا ہے ۔وہ بی جے پی کے ذریعہ اپنے ایجنڈے کو نافذ کرتی ہے۔اگر یہی ایجنڈے دوسری پارٹیاں چاہے وہ سیکولرہونے کا دعویدار ہی کیوں نہیں ہے نافذ کررہی ہیں تو آر ایس ایس کےلئے اس سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے ۔چناں چہ اس انتخاب میں جہاں بی جے پی نے منافرانہ انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا وہیں ممتا بنرجی مسلمانوں کے مسائل اور حقوق پربات کرنے سے گریز کرتی رہی۔پارٹی میں عام تصور یہ تھا کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ۔وہ جائیں کہاں۔جہاں تک سوال مسلمانوں کے ترقیاتی ایجنڈے کی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک نیوز چینل کے ڈیبیٹ میں جب میں نےمسلم اکثریتی اضلاع کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی تو ترنمول کانگریس کے حامی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ ملک چلانے کےلئے پنکچر بنانے اور مزدوری کرنے والوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔میں نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا اس کےلئے صرف مسلمان ہی پیدا ہوئے ہیں ؟۔
بنگال میں کانگریس اور بائیں محاذ کا صفایا (گرچہ اس میں خود ان دونوں جماعتوں کی اپنی کوتاہیاں زیادہ ہیں)بھی آر ایس ایس کے ایجنڈے کا ہی نفاذہے ۔اس مرتبہ آر ایس ایس نے گرچہ صد فیصد اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں کرپائی ہے مگر یہ طے ہے کہ وہ اپنے منزل سے ایک قدم اور قریب پہنچ گئی ہے۔
ممتا بنرجی کا یہ کہنا کہ وہ بی جے پی کے خلاف ہےاور آر ایس ایس سے کوئی تکلیف نہیں ہےاورشیاما پرساد مکھرجی جیسی شخصیت کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا حد درجہ خطرناک ہے۔کیرالہ اور بنگال دونوں میں بی جے پی کی شکست ہوئی ہے مگر فرق یہ ہے کہ کیرالہ کے عوام نے بی جے پی کو یکسر مسترد کردیا ہے۔یہ اس وقت ہوا ہے جب کیرالہ کے وزیرا علیٰ سبری مالا کے ایشو پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کے حق میں تھے۔انہیں ہندو ووٹوں کا کوئی ڈر و خوف نہیں تھا۔کیرالہ میں ایل ڈی ایف پر ہندئوں کی پارٹی ہونے کا لیبل لگتا رہا ہے مگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس داغ دھونے کی کوشش کی اور بڑی تعداد میں مسلمانوں وعیسائیوں کو پارٹی کا ممبر اور نمائندگی دی ہے۔جب کہ بنگال میں اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کےلئےگزشتہ سال درگا پوجا، کالی پوجا اور چھٹ پوجا پر عدالت کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔مسلمانوں کو آبادی کے مطابق نمائندگی دینے کے بجائے مسلمانوں سے تعلق ہونے کےداغ کو دھونے کی کوشش کی گئی۔
ان حالات میں ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ کیا ہمارے لئے صرف بی جے پی کی شکست ہی کافی ہے ؟یا پھر بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو بھی شکست دینا ہے؟۔کیا فرقہ پرستی اور جارحانہ ہندتو کو نرم ہندتو سے شکست دینے کی پالیسی ملک کے اقلیتوں اور مسلمانوں کےلئے کس حدتک درست ہے۔کیا بی جے پی کو شکست دینے کےلئے مسلمانوں کو اپنی نمائندگی، حقوق اور مسائل سے چشم پوشی کردینا بڑی قربانی نہیں ہے؟ کیا اس کی وجہ سے ملک کی اقلیت بالخصوص ہندوستانی سیاست کے حاشیہ پر نہیں پہنچ رہی ہے۔اس سے بھی بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اگر بی جے پی وزارت اعلیٰ کے عہدہ کےلئے کسی چٹرجی ، بنرجی کو امیدوار بنانے کا اعلان کردیتی توکیا وہی نتائج ہوتے جوا ٓج ہیں ۔بنگالی بھدرلوگ کے کردار کواوربنگال میں قوم پرستی کی تحریک کی تاریخ کو جاننےو سمجھنے والے ان سوالوں کا جواب آسانی سے دے سکتے ہیں ۔