اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کو اپنے ملک کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ہمیشہ امریکا کی غیر مشروط حمایت پر بھروسہ رہا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اگرچہ کبھی کبھار غزہ میں اپنے پیدا کردہ بحرانوں پر بیزاری کا اظہار کیا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایسی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ اس نے فروری میں یہاں تک کہہ دیا کہ غزہ کی پوری آبادی کو نسلی طور پر صاف کر دینا چاہیے۔
امریکی حمایت اسرائیل کی جنگی مشین کے لیے نہایت اہم رہی ہے، کیوں کہ امریکا نے وہ ہتھیار فراہم کیے، جن سے اسرائیل نے غزہ میں 63 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا، سفارتی طور پر بھی امریکا نے سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو طاقت استعمال کرکے جنگ بندی کے مطالبات کو روک دیا، حالاں کہ غزہ میں اموات کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی تھی۔
اسی طرح امریکا نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی اسرائیل کا ساتھ دیا، جہاں اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات ہیں، اور اس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اُن اراکین پر پابندیاں عائد کیں، جنہوں نے نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
امریکا کے ممکنہ طور پر نسل کشی میں شریک ہونے کو کئی ریاستوں اور تنظیموں نے نشانہ بنایا، اور انسانی حقوق کے ادارے اس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی حمایت روک دے، لیکن اگر ایسا ہو جائے تو؟
اگر امریکا اسرائیل کی حمایت ختم کر دے تو کیا ہوگا؟
الجزیرہ نے 4 ماہرین، دفاعی تجزیہ کار حمزہ عطار ، اسرائیل کے سیاسی سائنسدان اوری گولڈبرگ، سینئر فیلو، رائل یونائیٹڈ سروس انسٹیٹیوٹ اور سینٹر فار امریکن پروگریس ایچ اے ہیلیئر ، اور اسرائیلی حکومت کے سابق مشیر ڈینیئل لیوی سے بات کی۔
بین الاقوامی سطح پر کیا ہوگا؟
اوری گولڈ برگ کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ کئی مغربی ریاستیں جو شروع میں اسرائیل کی حمایت کرتی تھیں، اب بے بس محسوس کر رہی ہیں اور دراصل اسرائیل کے زوال کی خواہش مند ہیں، کئی ممالک، حتیٰ کہ جرمنی کے لیے بھی جنگ کے بعد کا وہ رشتہ جو اسرائیل سے بندھا ہوا تھا، اب اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ امریکا کے بغیر شاید برقرار نہ رہے۔
میرا اندازہ ہے کہ (اگر امریکا نے کل اسرائیل کی حمایت ختم کر دی) تو سب فوری طور پر اسرائیل کے خلاف ہو جائیں گے، حالاں کہ کوئی پہلا قدم اٹھانے والا نہیں بننا چاہے گا۔
یہ کس شکل میں ہوگا، چاہے وہ پابندیاں ہوں یا اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب ہفتم کے تحت کارروائی، یہ کہنا مشکل ہے، لیکن یہ سب جلد ہوگا۔
کیا اسرائیل پر حملہ کیا جائے گا؟
ایچ اے ہیلیئر کا ماننا ہے کہ اگر آپ اچانک امریکا کو راستے سے ہٹا دیں، تو آپ اس سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹا دیں گے جو کسی حل کے سامنے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت نے اسرائیل کو ہمیشہ کھلی چھٹی دی ہے، جیسا کہ ہم نے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ دیکھا، اس لیے اسرائیل کی یہ مجبوری کہ وہ خطے میں سنجیدگی سے ضم ہو جائے، یہ کبھی بھی اولین ترجیح نہیں رہی۔
ایچ اے ہیلیئر کہتے ہیں کہ یہ خیال کہ اسرائیل پر حملے کا خطرہ ہے، حقیقت میں درست نہیں ہے اور کئی دہائیوں سے ایسا نہیں رہا، شامی فوج امریکا کی وجہ سے اسرائیل پر حملہ نہیں کر رہی، بلکہ اس لیے کہ وہ مزید جنگوں میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور جانتے ہیں کہ انہیں سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ دوسروں کا بھی یہی حال ہے۔
مالی طور پر کیا ہوگا؟
اوری گولڈبرگ نے کہا کہ اسرائیل مالی طور پر امریکا پر بہت انحصار کرتا ہے، لیکن وہ مکمل طور پر نہیں ٹوٹے گا، اسرائیل نے تیزی سے ہائی ٹیک ہتھیاروں کی صنعت پر انحصار بڑھایا ہے، جسے امریکا امداد اور تحقیق و ترقی کے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے سابق مشیر کا ماننا ہے کہ اسرائیل معاشی طور پر بھی اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ امریکا ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، جیسے ایک کوچ پسِ پردہ موجود ہو (جو قرضوں کی ضمانتیں اور دیگر سہولتیں فراہم کرتا ہے)۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حمایت کے اچانک خاتمے سے مشکلات ضرور پیدا ہوں گی، لیکن فوراً نہیں، کچھ وقت لگے گا، جب تک بڑی ٹیک کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر برطرفیاں نہ ہوں اور فوج لڑکھڑانا شروع نہ کر دے۔
اسرائیلی سیاست میں کیا ہوگا؟
اوری گولڈ برگ کے مطابق اتنا زیادہ نہیں جتنا آپ سوچتے ہیں، اسرائیل کی آبادکار برادری پہلے ہی اپنے یقین میں مست ہے، وہ اپنے خیال میں خدا کے دیے گئے مشن کو جاری رکھیں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔
نیتن یاہو بھی شاید اسی طرح چلتے رہیں، وہ کوئی جادوگر نہیں ہیں، ان کی زیادہ تر باتیں اور اقدامات اسرائیلی معاشرے کے عمومی خیالات کا عکس ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً نیتن یاہو اسے نئے انداز میں پیش کریں گے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے غزہ پر حملہ اس لیے کیا تھا، تاکہ ہمیں کبھی کسی اور ملک پر انحصار نہ کرنا پڑے، لیکن غالب امکان ہے کہ وہ بچ نکلیں گے۔
ڈینیئل لیوی نے کہا کہ امریکا ہمیشہ اسرائیلی دائیں بازو کے لیے ایک تحفہ رہا ہے، اگر ڈیموکریٹ اقتدار میں ہیں تو وہ کہتے ہیں ‘دیکھو، ہم انہیں کیسے قابو میں رکھے ہوئے ہیں’، اور اگر کوئی ٹرمپ جیسا ہو تو وہ کہتے ہیں ‘دیکھو، ہم نے کچھ ایسا کیا ہے کہ امریکا ہم سے اتفاق کرتا ہے’، دونوں صورتوں میں انہیں جواز ملتا ہے، امریکا کے بغیر یہ جواز ختم ہو جائے گا۔
فلسطینیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور اندرونی سیاست میں بھی امریکا اسرائیل کو مکمل استثنیٰ دیتا ہے، اسرائیلی سیاست دان نسل کشی پر مبنی جنگ لڑ سکتے ہیں یا آباد کاری کی حمایت کر سکتے ہیں، اور اس کا کوئی خمیازہ نہیں بھگتنا پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی اور معاشرے میں، یہ خمیازہ دوسرے ممالک یا اپنے ہی سماجی ضمیر کی طرف سے آتا، ہمارے یہاں دونوں چیزیں موجود نہیں ہیں۔
فوجی لحاظ سے کیا ہوگا؟
حمزہ عطار کا کہنا ہے کہ اگر امریکا کل ہی غائب ہو جائے، تو اسرائیل شاید غزہ میں اپنی جنگ کو تقریباً ایک سال تک چلا سکتا ہے، لیکن اس کی ترجیحات فوراً بدل جائیں گی، کیوں کہ وہ زیادہ کمزور ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، اسرائیل جان لے گا کہ غزہ میں استعمال ہونے والی ہر گولی یا بم ان کے اپنے دفاع کے لیے کم ہوجائے گا، امریکا کے بغیر وہ تجارتی سیٹلائٹس کی رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی، جس سے اسرائیل اپنی سرزمین کو چھپاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ دشمن فوراً اسرائیل کے اندر جھانک سکیں گے۔
اسی طرح دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم اور ایرو سسٹمز، جو جزوی طور پر امریکی فنڈ سے چلتے ہیں، ختم ہو جائیں گے اور اسرائیل زیادہ کھلے حملوں کے لیے کمزور ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے بغیر اسرائیل کو دوسرے فوجی سپلائرز تلاش کرنے پڑیں گے، شاید یورپی نیٹو ممالک سے، کیوں کہ زیادہ تر ہتھیار ہم آہنگ ہیں لیکن یورپ پہلے ہی روس کے خطرے کے مقابلے میں اسلحے کی کمی کا شکار ہے، اس لیے یہ جلدی ممکن نہیں ہوگا۔
مزید یہ کہ یورپ اسرائیل سے ہتھیاروں کی قیمت وصول کرے گا، جب کہ موجودہ امریکی امدادی پروگرام کے تحت امریکا یہ مفت دیتا ہے، اس لیے اگر کوئی اور ملک مدد کرے بھی تو اسرائیل اتنی بڑی مقدار میں ہتھیار خریدنے کے قابل نہیں ہوگا۔
غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں کیا ہوگا؟
اوری گولڈبرگ کو لگتا ہے کہ جیسے ہی فوجی قیادت کو صورتحال کا اندازہ ہوگا، وہ فوری طور پر جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے، مرکزی بینک اور فوج تقریباً فوراً یہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے پاس جنگ جاری رکھنے کے لیے ہتھیار ہیں نہ پیسہ۔
ڈینیئل لیوی نے کہا کہ اس کے بعد یہ اس پر منحصر ہوگا کہ دوسری ریاستیں کیا کرتی ہیں، چاہے خطے میں ہوں یا مغرب میں، جنگ سیاسی اور معاشی طور پر ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا اندازہ ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں ایک عارضی حکمتِ عملی اختیار کریں گے تاکہ وقت حاصل کر سکیں۔
بین الاقوامی عوامی رائے میں اسرائیل کی ساکھ پہلے ہی زمیں بوس ہوچکی ہے، لیکن امریکی حمایت نے اسے عملی طور پر عالمی جوابدہی سے بچا رکھا ہے۔
ایچ اے ہیلیئر سمجھتے ہیں کہ بنیادی طور پر امریکا کے بغیر اسرائیل کو ایک عالمی پُرتعصب ریاست کی طرح سمجھا جائے گا، جیسے نسل پرست جنوبی افریقہ کو سمجھا جاتا تھا۔
بالآخر اس وقت کے جنوبی افریقہ کے رہنماؤں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ انہیں بدلنا ہوگا، اس لیے نہیں کہ وہ اچھے انسان تھے بلکہ اس لیے کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا، اور انہوں نے جو بچ سکتا تھا اسے بچانے کا فیصلہ کیا۔