گزشتہ 36گھنٹوں سے مرشدآباد میں حالات پرامن ہیں، کہیں بھی تشدد کے واقعات پیش نہیں آئے ہیں۔مرشدآباد ضلع کے جنگی پور سب ڈویژن اور شمشیر گنج پولس اسٹیشن علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی فورسیس اور بنگال پولس کے سینئر افسران ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔اس واقعے میں اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے واے با پ بیٹے کی ہلاکت کئی سوالات کھڑے کرتے ہیں۔اب تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ان دونوں کی موت کیسے ہوئی ہے کئی طرح کی تھیوری چل رہی ہے۔جب کہ پولس فائرنگ میں مظاہرہ میں شریک ایک نوجوان کی مو ت ہوئی ہے۔ایک اہم دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی بڑی مسلم تنظیم نے اس احتجاج کا اعلان کیا تھا۔یہ مقامی نوجوانوں کے اعلان پر احتجاج کیا جارہا تھا۔
مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی نے انتظامیہ کی چوکسی اور احتجاج کی کال دینے والے مسلم تنظیم بھی سوالوں کی زد میں ہے؟۔پہلاسوال یہ ہے کہ مرشدآباد میں متنازع نئے وقف قوانین کے خلاف احتجاج دراصل مرکزی حکومت کے خلاف احتجا ج ہے۔تو پھر مظاہرین کے غصے کے نشانے پر بنگال پولس، ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی کیوں آئیاور ان پر کیوں حملہ کیا گیا؟۔دوسرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جب پہلے دن مرشدآباد میں حالات خراب ہوگئے تو دوسرے دن احتجاج کے پیش نظر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیوں نہیں کئے گئے۔سوال یہ بھی ہے کہ جب مظاہرین نیشنل ہائی وے کا گھیراؤ پہلے دن کیا تھااور اس کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوی تو دوسرے اور تیسرے دن کے احتجاج کے دوران مظاہرین کو نیشنل ہائی وے تک آنے سے روکنے کیلئے بڑے پیمانے سیکورٹی اہلکار کو تعینات کیوں نہیں کیا گیا۔
مرشدآباد مسلم اکثریتی ضلع ہے۔جہاں 70فیصد مسلم آبادی ہے اور بنگلہ دیش کے سرحد کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ہے۔ایسے میں اگر احتجاج ہورہے تھے پولس انتظامیہ اور خفیہ محکمہ نے چوکسی کیوں نہیں برتی۔بی جے پی لیڈران کامرشدآباد کے واقعات کو لے کر اشتعال انگیزی اور جعلی فوٹوں کے ذریعہ عوام گمراہ کئے جانے بعد شک کی سوئی جاتی ہے کہ کہیں بھیڑ کا حصہ بن کر بی جے پی کے لوگ سیاسی مقاصدتو حاصل نہیں کررہے ہیں؟۔
رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر ہندتو کے حامیوں کے ذریعہ جلوس میں اسلحہ اور ہتھیاروں کی جس طرح سے نمائش اور اشتعال انگیز نعرے بلند کئے جاتے ہیں اور پولس خاموش تماشائی رہتی ہے۔گھنٹوں رام نومی اورہنومان جینتی کے جلوس کے نام پر سڑکوں کو جام کیا گیا تھا مگر وقف قوانین کے خلاف احتجاج کررہے مظاہرین نے چند گھنٹوں کیلئے مرشدآباد میں نیشنل ہائی وے جام کیا تو پولس نے لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔پولس نے افہام و تفہیم اور مظاہرین سے بات کرکے جام ختم کرانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی و ریاستی وزیر مولانا صدیق اللہ چودھری اورمرشدآباد سے ممبر اسمبلی ہمایوں کبیر نے پولس کے چوکسی پرسوالات کھڑے کئے ہیں۔مولانا صدیق اللہ چودھری نے واضح طور پر کہا کہ پولس کو لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور لاٹھی چارج نہیں کیا جاتاتو حالات خراب نہیں ہوتے۔
آج ہی جنوبی 24پرگنہ سے کلکتہ آنے والے مظاہرین کے ساتھ بنگال پولس نے بسنتی ہائی وے پرمظاہرین کو روکنے کیلئے جس طریقے لاٹھی چارج کیا وہ یہ بتاتا ہے کہ پولس کا رویہ ظالمانہ تھا۔
مقامی لوگوں کادعویٰ ہے کہ جب جلوس جنگی پور کے دھولیا علاقے سے گزررہا تھا اچانک چندنقاب پوش احتجاج کا حصہ بن گئے اور انہوں نے اشتعال انگیزی شروع کردی اس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے اور کچھ مقامات میں دوکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔سوال یہ ہے کہ یہ نقاب پوش کون تھے؟ پولس کی رپورٹ میں بھی کہا جارہا ہے کہ کچھ باہری عناصر تھے جنہوں نے حالات خراب کرنے کوشش کی اور انہوں نے مقامی مسلم نوجوانوں کو بھڑکاکر ہائی وے پرلے گئے۔سوال یہی ہے کہ کیا نقاب پوشوں کی شناخت ہوگی۔
سرحد سے پچاس کلومیٹر تک بی ایس ایف کو کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔عام زندگی میں بی ایس ایف دخل اندازی عام ہے۔دوسری جانب اس علاقے میں حالیہ برسوں میں ہندتو تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔مالدہ اور مرشدآباد میں آرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے جو سرحدی علاقے میں ہندؤں کو زمین خریدنے کیلئے تیار کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں آپسی اعتماد اور بھروسے کو نقصان پہنچادیا ہے۔جواس احتجاج کے دوران بھی دیکھنے کو ملا۔سورش زدہ علاقے کچھ گھرانے نقل مکانی ہے اور پڑوس کے ضلع مالدہ میں پناہ لی۔پولس انہیں جلد سے جلد اپنے گھر واپس لانے کی کوشش کررہی ہے۔مگر جس طرح بی جے پی نے اپنے سوشل میڈیا پر جو تصاویرشائع کئے اور بی جے پی لیڈران جس طرح سے لگاتار اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی ریاست میں امن وامان نہیں چاہتی ہے اور اس کا مقصد واضح ہے کہ وہ مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔کلکتہ پولس نے واضح کیا کہ بی جے پی نے مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی سے متعلق جو تصاویر شائع کئے ہیں وہ فیک ہیں۔اس کا تعلق مرشدآباد سے متعلق نہیں ہے۔بی جے پی نے جعلی تصاویر شائع کئے ہیں۔بی جے پی نے اس طرح کی حرکت کوئی پہلی مرتبہ نہیں کیا ہے اس سے قبل بشیر ہاٹ اور دیگرفسادات سے متعلق بھی اس طرح کی جعلی تصاویر شائع کئے ہیں۔مرشدآباد کے کئی مقامی لیڈروں نے بتایا کہ باہری عناصر مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی کے پیچھے ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر اس باہری عناصروکی شناخت کیوں نہیں ہوتی ہے۔
ترنمول کانگریس کے سیکریٹری اور ترجمان کنال گھوش نے ایک وڈیو سوشل میڈیا ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا مرشدآباد میں تشدد کے واقعات کسی سازش کا حصہ ہے۔اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرایسایس کے لوگ بی ایس ایف کے جوانوں کا لباس پہن کر مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعما ل کیا۔تاہم سوال ترنمول کانگریس کا ہے کہ اگر اسے یقین ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش ہے تو پھر وہ اعلیٰ سطحی جانبچ کیوں نہیں کرائی جارہی ہے۔
گزشتہ سال پارلیمنٹ میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نشی کانب دوبے نے بنگال کے مسلم اکثریتی اضلاعکو مرکز کے زیرکنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔کئی ماہرین یہ سوال کھڑا کررہے ہیں کہیں مرشدآبادکوبدنام کرکے مرکز اپنے عزائم کی تکمیل کی طرف تو نہیں بڑھ رہی ہے۔
مرشدآباد میں ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا بے قابو ہوجانا مسلم تنظیموں اور جماعتوں کیلئے ایک سبق ہے۔احتجاج کی دعوت دینا بہت ہی آسان ہے مگر احتجاج کو کنٹرول کرنا بہت ہی مشکل تھا۔صرف بھیڑجمع کردینا کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ بھیڑ اکا بامقصد جمع ہونا اور پھرایک مقصد لیکر بھیڑکو اپنے اپنے گھروں میں بھیجنا اسی وقت ممکن ہے کہ جب قیادت مضبوط اور مستحکم ہو۔مالدہ اور مرشدآباد میں حالیہ برسوں میں اس طرح کے کئی احتجاج ہوئے ہیں جو بے قابو ہوئے ہیں۔آخرکیوں؟ میں نے اس سوال کو سمجھنے کیلئے مرشدآباد اور مالدہ سے کے کئی سینئر افراد سے میں نے بات کی۔دراصل بنگال کے یہ اضلاع پورے ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں۔مگرحالیہ برسوں میں ان اضلاع میں ایک ایسی نسل تیار ہوئی ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کی اورترقی کے خواہش مندہیں مگر بدعنوانی، ملازمت سے محرومی اوربے روزگاری نے تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو مایوس کردیا ہے۔یہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے آبادو اجداد کی طرح ملک بھر میں رکشتہ اور مزدوری نہیں کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ نوجوان آسانی پروپیگنڈے اور ہنگامہ آرائی کے نظر ہوجاتے ہیں۔