Sunday, September 8, 2024
homeاہم خبریںبنگال میں ذات پات کی بنیاد پرسروے سے ممتا بنرجی...

بنگال میں ذات پات کی بنیاد پرسروے سے ممتا بنرجی خوف زدہ کیوں ہیں؟—نوراللہ جاوید

کرناٹک کی سدارمیاحکومت اور کیرالہ میں کمیونسٹ حکومت بھی مخمصے میں

3؍ اکتوبر کو بہار میں ذات پات کی بنیاد پر کی جانے والی مردم شماری کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد سے ہی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آبادی کے لحاظ سے نمائندگی کا مطالبہ تیز ہوتا گیا ہے۔ پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے قومی سطح پر ذات پات کی مردم شماری، آبادی کے اعتبار سے نمائندگی اور ریزرویشن کی 50 فیصد حد کو ختم کرنےکا وعدہ کیا ہے۔ دراصل حالیہ برسوں میں بی جے پی نے ہندوتوا کے نام پر طبقاتی شناخت کو مٹانے کے ساتھ پسماندہ اور ایس سی اور ایس ٹی کے ووٹوں میں سیندھ لگائی ہے۔ اس کی وجہ سے دو ہندی ریاستوں اتر پردیش اور بہار میں اپوزیشن اتحاد کے اہم عناصر سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل اور جنتادل متحدہ کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے روایتی ووٹرس کا رجحان بی جے پی کی طرف ہوا ہے۔ ہندی پٹی میں کانگریس کے روایتی ووٹرس یعنی اعلیٰ طبقات مکمل طور پر شفٹ کرچکے ہیں۔ چنانچہ طبقاتی شناخت کے احیا میں کانگریس سمیت اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتیں اپنی بقا دیکھ رہی ہیں۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر سروے کے مطالبات کیا ملک کی تمام ریاستوں میں کارگر ثابت ہوں گے؟ دراصل یہ سوال اس لیے ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے، کیرالا میں سی پی آئی ایم برسر اقتدار ہے اور ترنمول کانگریس بنگال میں برسر اقتدار ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں اپوزیشن اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے مگر اس کے باوجود ان ریاستوں کی حکمراں جماعتیں ذات پات کی بنیاد پر سروے سے کترا رہی ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ذات پات کی مردم شماری کرانے سے نئے سیاسی دھارے جنم لے سکتے ہیں جو ان کی بنیادوں کو ختم کر سکتے اور یہ ایکسرسائز بی جے پی کے لیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ میں اس مسئلے پر ویٹو کرچکی ہے۔ اس معاملے میں بنگال کی دیگر جماعتیں بایاں محاذ، کانگریس اور بی جے پی کی ریاستی یونٹ اور اس کے لیڈر خاموش ہیں۔ ترنمول کانگریس نے پہلے یہ واضح کر دیا تھا کہ ممتا بنرجی کے اسپین سے واپسی کے بعد اس پر واضح موقف پیش کر دیا جائے گا۔ وہ اسپین سے واپس ہو چکی ہیں اور مختلف سیاسی امور پر اپنی رائے رکھ بھی رہی ہیں لیکن اس معاملے میں خاموش ہیں۔

13؍ ستمبر کو دلی میں این سی پی کے سربراہ شرد پوار کی رہائش گاہ پر اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی رابطہ کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی، اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے بی جے پی کے ہندوتوا بیانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ذات پات کی مردم شماری کے مطالبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس میٹنگ میں ترنمول کانگریس کے نمائندہ ابھیشیک بنرجی شریک نہیں ہوسکے کیوں کہ اسی دن ای ڈی نے انہیں اساتذہ تقرری گھوٹالہ کیس میں پوچھ تاچھ کے لیے سمن جاری کر رکھا تھا۔اس سے قبل ممبئی میں منعقدہ 31؍ اگست سے یکم ستمبر کے دوران اپوزیشن اتحاد کی میٹنگ میں بھی ممتا بنرجی نے ذات پات کی بنیاد پر سروے کے مطالبہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ سوگتا رائے کہتے ہیں کہ ’’ہم ذات پات کی مردم شماری کے مخالف ہیں، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح کی مردم شماری لوگوں میں تقسیم پیدا کرے گی‘‘۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی کو خوف ہے کہ اس طرح کی ایکسرسائز سے بنگال میں ترنمول کانگریس کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے لیڈر کے مطابق بنگال میں سیاست ذات پات کے گرد نہیں گھومتی ہے۔ اگر ہم ذات پات کی مردم شماری کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ذات پات پر مبنی سیاست کی حمایت کر رہے ہیں، اس سے بنگال میں ہماری حیثیت اور امیج کو نقصان پہنچے گا۔ ترنمول کانگریس کے لیڈروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بی جے پی، او بی سی کی سیاست کرنے میں ماہر رہی ہے جسے ذات پات کی مردم شماری کے بعد تقویت ملے گی۔ لہٰذا ہم نہیں چاہتے کہ اس طرح کی مشق کی صورت سے بی جے پی کو فائدہ حاصل ہو۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی میں اسکول آف ڈیولپمنٹ کے پروفیسر عادل حسین کہتے ہیں کہ مغربی بنگال میں ذات پات کی مردم شماری سے ترنمول کانگریس کے اعلیٰ ذات کے ووٹروں کو مایوسی ہو سکتی ہے کیونکہ بنگال میں اوبی سی، ایس سی، ایس ٹی اور اقلیت کی مجموعی آبادی 80 فیصد سے زائد ہے مگر سرکاری ملازمت، ریاست کی معیشت اور پرائیوٹ سیکٹر میں ان کا غلبہ ہے۔ سی ایس ڈی ایس (CSDS) کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کو اعلیٰ ذات کے 42 فیصد ووٹ ملے جب کہ بی جے پی کو 46 فیصد ووٹ ملے۔ مغربی بنگال ملک کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی کو اعلیٰ ذات کے 50 فیصد سے بھی کم ووٹ ملتے ہیں۔ 2011 میں اقتدار میں آنے کے بعد ممتا بنرجی نے شناخت کی سیاست کو متعارف کرایا۔ انہوں نے کئیبرادریوں کو اوبی سی میں شامل کیا جبکہ سی پی آئی ایم کے 34 سالہ دور اقتدار میں طبقاتی سیاست عروج پر تھی۔ چونکہ بنگال میں او بی سی کو بی جے پی یقین دلانے میں کامیاب رہی ہے کہ ان کے کوٹے میں مسلم برادریوں کو شامل کرکے ان کے حقوق پر ترنمول کانگریس نے ڈاکہ ڈالا ہے۔

رابندرا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر بسواناتھ چکرورتی کہتے ہیں کہ مغربی بنگال کی سیاست میں ذات پات کا عنصر کبھی بھی نہیں تھا۔ ممتا بنرجی کے اقتدار میں آنے کے بعد ذات پات کی سیاست کو فروغ حاصل ہوا مگر اس کا فائدہ بی جے پی نے ہندو بنام مسلم کرکے فائدہ اٹھایا۔ پسماندگی کے شکار مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے کی تمام کوششوں کو بی جے پی نے خوشامدی کی سیاست قرار دے دیا۔ مغربی بنگال میں ذات پات جیسے امور پر ماہر اسکالر پراسکانو اسنہار کہتے ہیں کہ بنگال کی عوامی زندگی میں شہری اور اعلیٰ ذاتوں کے بھدرلوک کی بالادستی ہے۔ انہوں نے کمال ہوشیاری سے اس طرح کی تمام بحثوں کو خاموش کر دیا ہے۔ پراسکانوا سنہار لکھتے ہیں کہ بنگال میں ذات کا سوال تقسیم کے ساتھ ہی غیر ضروری ہوگیا تھا کیوں کہ دلت کی بڑی ناما سودر کی بڑی آبادی مشرقی پاکستان میں رہ گئی اور ان کی سیاسی قوت منقسم ہوگئی۔ کمیونسٹوں کےاثر و رسوخ نے اس پوری بحث کو کلاس کی تفرق سے جوڑ دیا جبکہ ان کے یہاں دو ہی کلاس تھے غریب اور امیر تھے۔ مؤرخ دویپایان سین نے بھی لکھا ہے کہ کس طرح بائیں محاذ اور بنگالی اشرافیہ کی سیاست نے ذات پات کو غیر مرئی بنایا۔ دی ڈیکلائن آف دی کاسٹ کا سوال:(منڈل اور دلت سیاست کی شکست) کے مصنف جوگیندر ناتھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگال میں بلاشبہ ذات پات اور عدم مساوات سے متعلق عوامی گفتگو نوآبادیاتی دور سے لے کر بائیں محاذ کی حکومت تک مختلف سیاسی وابستگیوں والے بنگالی ذات کے ہندوؤں میں ہوتی رہی ہے لیکن مغربی بنگال میں کاسٹ کے نظام اور سیاست پر کتاب لکھنے والے آیان گوہا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگال میں ایک غالب ذات کی عدم موجودگی، درمیانی ذاتوں کی تقسیم، نچلی اور درمیانی ذاتوں کا محدود جغرافیائی پھیلاؤ جیسے کئی عوامل ہیں جن کی وجہ سے بنگال کی سیاست میں ذات پات کی تفریق کا مسئلہ کبھی بھی موضوع بحث نہیں بن سکا۔

مگر اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بنگال کی سیاست اور زندگی کے تمام شعبوں بالخصوص تعلیم، میڈیا اور انٹرٹینمنٹ جیسے رائے عامہ ہموار کرنے والے میدانوں میں اعلیٰ ذات کا غلبہ رہا ہے۔ بنگالی سنیما میں آج بھی غیر اعلیٰ ذات کا کوئی ہیرو نہیں ہوتا۔ ممتا بنرجی آج اس کی مخالفت کر رہی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے مختلف قبائلی گروہوں اور دلتوں کے ثقافتی علامات کو نمایاں کرکے ان کی حمایت حاصل کی جس میں متوا، راج بنشی اور سنتھالی جیسی ذاتیں ہیں لیکن ممتا ان کی اس علامتی کا سیاست کا فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور اس نے بنگال کی قیادت کی ذمہ داری اعلیٰ ذات کے غلبہ والی سیاست میں 2016 کے بعد غیر برہمن اور دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے دلیپ گھوش کو دی۔ اس سیاسی تجربے کے ذریعہ بی جے پی نے دیہی علاقوں کے پسماندہ طبقات اور قبائلیوں و دلتوں کو پیغام دینے کی کوشش کی کہ شہری غلبے والی بنگالی سیاست میں وہ کچھ نیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 2016کے اسمبلی انتخابات میں محض تین سیٹیں جیتنے والی بی جے پی نے اپنے تجربے کی بدولت لوک سبھا کی 18وہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی جہاں مذکورہ برادریوں کا غلبہ ہے۔ اگرچہ 2021کے اسمبلی انتخابات میں ممتا بنرجی نے واپسی کی اور دلتوں و قبائلیوں کے علاقے ووٹ حاصل کیے۔ تاہم بی جے پی نےجو 77 سیٹیں حاصل کی ہیں ان میں سے بیشتر ایسے دیہی علاقوں کی ہیں جہاں غیر اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے۔

بنگال کے دیہی علاقے اور زراعت سے وابستہ بیک ورڈ کلاسیس، ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی محرومیاں کافی زیادہ ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی سروے ان طبقات میں بے چینی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کا خمیازہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والی جماعت کو ہی زیادہ اٹھانا پڑے گا۔ اگرچہ بنگال میں بی جے پی او بی سی دلت اور قبائلیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور سوشل انجینئرنگ کا سہار ا لیتی ہے لیکن وہ اس کو انتخابی سیاست تک ہی محدود رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ قومی سطح پر اس طرح کے سروے کی مخالفت کرتی ہے تو بنگال میں حمایت کرکے اپنے دوہرے کردار کو نمایاں نہیں کرے گی۔سی پی آئی ایم نے اس معاملے میں اپنے موقف کو تبدیل کیا ہے اور اس نے ذات کی بنیاد پر سروے کی حمایت کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا برہمنوں کے قبضے والا بنگالی میڈیا اس طرح کی کسی بھی مہم کی حمایت کرے گا؟ بنگال کی سیاست پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ اس کی امید بہت ہی کم ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) روز مرہ کی زندگی میں ذات پر مبنی تشدد کو الگ کالم میں شمار کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق 2018-2020 کے درمیان مغربی بنگال میں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کے خلاف جرائم کی تعداد اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور یہاں تک کہ تمل ناڈو سے بھی بہت کم ہے۔ 2020 میں جب کہ اتر پردیش میں رجسٹرڈ ذات پر مبنی جرائم کی تعداد 12774تھی، مغربی بنگال میں یہ 109 تھی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بنگال میں ذات پات کے نام پر تفریق اور بھید بھاو نہیں ہے؟کیا سرکاری ملازمت اور بنگال کی معیشت اور ادب و ثقافت پر ریاست کے تمام طبقات کو مساوی مواقع حاصل ہیں؟
کرناٹک میں لنگایت اور ووکلیگا گروپ بااثر طبقات ہیں۔ حکمراں کانگریس کو خدشہ ہے کہ ذات پات کے سروے کے نتائج اگر شائع کیے گئے تو ان دونوں ذاتوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے اپنے پہلے دور، 2015 میں ذات پات کے گروپوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت کا مطالعہ کا آغاز کیا تھا۔ 2018 میں رپورٹ تیار ہونے کے باوجود بی جے پی کے وزیر اعلیٰ یدی یوروپا اور جنتادل سیکولر کے ایچ ڈی کمارا سوامی کی قیادت والی حکومت نے رپورٹ جاری نہیں کی۔ کرناٹک کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ووکلیگا اور لنگایت برادریوں کی مخالفت کے بعد اس رپورٹ کو جاری نہیں کیا گیا۔ دراصل 1931 کے سروے کے مطابق کرناٹک میں لنگایت کی آبادی 17 فیصد تھی اور ووکلیگا کی آبادی 14 فیصد، مگر حالیہ سروے میں حقائق سامنے آئے ہیں کہ ان دونوں برادریوں کی آبادی میں کمی آئی ہے۔ لنگایت کی آبادی کم ہوکر 14 فیصد ہوگئی ہے اور ووکلیگا کی آبادی کم ہوکر 11 فیصد ہوگئی ہے جبکہ درج فہرست ذاتیں ریاست کی سب سے بڑی آبادی 19.5 فیصد ہیں، ان کے بعد مسلمانوں کی آبادی 16 فیصد ہے۔ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے ان دونوں برادریوں کے اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے جبکہ لنگائیت بی جے پی اور ووکلیگا برداری جنتال دل متحدہ کی روایتی ووٹرس رہی ہے۔ سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپمنٹ سوسائٹیز کے اعداد و شمار کے مطابق ووکلیگا برادری کے 49 فیصد ووٹ کانگریس کو ملے جبکہ51 فیصد ووٹ بی جے پی اور جنتا دل سیکولر کے درمیان تقسیم ہوئے۔

جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں صورت حال سب سے الگ ہے۔ یہاں کی دو اعلیٰ ذاتیں برہمن اور نیر کا دعویٰ ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی کافی کم ہے ۔ان دونوں برادریوں نے کیرالا ہائی کورٹ میں مناسب حصہ داری کے لیے عرضی بھی دائر کی تھی۔ عدالت نے اس پورے معاملے میں کوئی فیصلہ دیے بغیر کہا کہ جب تک مختلف ذاتوں کی حصہ داری کا معتبر ڈاٹا سامنے نہیں آتا اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایزوا کمیونیٹی بھی اپنی حصہ داری کی تحریک چلا رہی ہے۔ کیرالا میں ذات پات کی سیاست اس قدر پیچیدہ ہے کہ کانگریس بھی جو ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے وہ بھی سروے کرانے کے حق میں نہیں ہے-

متعلقہ خبریں

تازہ ترین