Wednesday, October 30, 2024
homeاہم خبریںبیرسٹر اسد الدین اویسی سے مخالفت کیوں؟

بیرسٹر اسد الدین اویسی سے مخالفت کیوں؟

محمد خالد اعظمي ( حال مقيم کویت )
شیر دکن ،نقیب ملت ،کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ، 55 سالہ بیرسٹر اسدالدین اویسی ایک ايسا شخص جو تعلیم یافتہ، دانش مند ، دور اندیش ، باریک بیں ، جری و بہادر، بے خوف و بے باک ، محلوں ، گلی کوچوں سے لیکر پارلیمنٹ تک اپنی بات کو مدلل اور جامعیت سے پیش کرنے اور حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا اگر کوئی شخص ہندوستان کی سر زمین پر کوئی نظر آتا ہے تو وہ صرف اور صرف اویسی ہی ہیں۔اسد الدين اویسی نے نظامیہ کالج، عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن، اور ایل ایل بی کی تعلیم لنکن ان لندن، Lincoln’s Inn in Londonانگلینڈ سے حاصل کی۔

الیکشن میں اویسی کی مخالفت کیوں؟
ماضی کے سیاسی صفحات کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ بیرسٹر اویسی نے بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کی مسلمانوں یا مظلوم عوام کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنے والوں پرآوازبلند ي جس سے پی جے پی کو تشويش لاحق ہوئی ،بالآخر اس نے اویسی کی طاقت کمزورکرنے کے لیے مسلمانوںکی چند بااثر شخصیاتکو منتخب کیا جس میں سر فہرست مولانا محمود اسعد مدنی حفظہ اللہ ہیں ۔

15اکتوبر2018 کو وہاٹس پر مولانا محمود مدنی کی ایک کلپ سامنے آیا جس میں وہ دوسروں کی باتیں اپنی زبان میں کہ رہے ہیں (مسلمان بہ حیثیت مسلم اپنا کوئی پولٹیکل لیڈر بنائے ، میں اس کا ورودھی ہوں اور اس کو میں مسلمانوں کی مخالفت سمجھتا ہوں ۔ میں ان کو بہت اچھا آدمی مانتا ہوں . اسد الدین اویسی صاحب کو، لیکن یہاں پر میں ان سے بالکل ڈس ایگری کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے انڈین مسلم کے پولٹیکل لیڈر بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کو ہم کامیاب ہونے نہیں دیں گے، کسی بھی قیمت پر ، بالکل نہیں ہونے دیں گے، آپ حیدر آباد کے پولٹیکل لیڈر بن جائیے وہ ٹھیک ہے ، مجھے وہاں تک بھی منظور ہے ، وہ آندھرا اور تلنگانہ کے بن جائیں، اس سے آگے نہیں جانا چاہیے، مہاراشٹرا میں نہیں آنا چاہیے، بالکل نہیں آنا چاہیے)
انگریزوں نے جس طرح لڑانے بانٹنے اور حکومت کرنی کی سازشیں کی تھیں وہی بات مولانا محمود مدنی میں پائی جاتی ہیں ۔
مولانا محمود مدنی بیرسٹر اسد الدین اویسی کی مخالفت صرف اس لیے کررہے ہیں کہ اگر اویسی یا اسی طرح کے دوسرے لوگ پورے ملک میں مشہور ہوگئے اور اعلی عہدوں پر فائز ہو جائیں گے تو ہمارا اثرورسوخ کم ہو جائے گا ۔مولانا محمود مدنی نے بغیر مانگے جہاں بہت سارے ایسے مشورے اویسی صاحب کو دیے ہیں جیسے محسوس ہوتا ہے کہ مدنی صاحب کو کہیں اور سے دباؤ ہے سے مجبور ہو کر مشورے دے رہے ہیں ۔
مولانا محمود مدنی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ بتائیں کہ:
1.مولانا اسعد مدنی نورہ اللہ مرقدہ کو امیر الھند ” لقب کس نے اور کیوں دیا۔
2.قاری محمد عثمان نورہ اللہ مرقدہ کو امیر الھند ” کا لقب کس نے دیا۔
3.مولانا ارشد مدنی حفظہ اللہ کو امیر الہند کا لقب کس نے دیا۔
کیا یہ سارے لوگ بیس کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں یا صرف دو فیصد ہی کی ۔
مولانا محمود مدنی کے والد محترم کانگریس کے لیے یکسو ہو کر کام کیا۔یہاں تک کہ بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعہ پر بھی جس نے ملک کے اندر فرقہ پرستوں کی جڑوں کو مضبوط کیا اور جس کی ذمہ دار کانگریس تھی اس وقت بھی مولانا اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کانگریس سے چپکے رہے۔جب محترمہ سونیا گاندھی کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں تو انھوں مدنی خاندان کو کنارے کرکے دوسرا اس کا متبادل تلاش تو مدنی خاندان بھی کانگریس کے بجائے دوسری پارٹیاں تلاش کی اور انہیں کی زبان میں باتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ سو بات کی ایک یہ ہے کہ مولانا محمود مدنی حفظہ اللہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی آباء و اجداد سے ملی جمعیت کے مولویوں کے سنچالک ہیں۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی، حیدرآباد 12جنوری2022 کے شمارہ میں لکھتے ہیں کہ “”
بیرسٹر اسدالدین اویسی نے اتر پردیش میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔”مجھے ایجنٹ اور دلال بولنے والے مسلمانوں قیامت کے اُس حساب کے دن سے ڈرو جس دن میں تمہارے سامنے خدا کے دربار میں انصاف کے لیے کھڑا ہوں گا“۔کی اس جذباتی اور رونگٹے کھڑا کردینے والی تقریر کے الفاظ سوشیل میڈیا پر کافی وائرل ہوئے ۔
اس وقت حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ بابری مسجد رابطہ کمیٹی اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی میں مسلم قیادت تقسیم ہوگئی تھی۔ مسجد کی شہادت اور اس کے بعد کی خاموشی کو میڈیا نے کچھ اس انداز سے پیش کیا تھا کہ مسلم قیادت بابری مسجد کی شہادت کے لئے ذمہ دار سمجھی جانے لگی۔
دہلی، علی گڑھ بلکہ شمالی ہند میں مسلم قائدین تقریباً گوشہ نشین ہوگئے تھے، یہاں تک مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ پر بھی الزامات عائد کئے گئے تھے۔
اگر آج لوگ اویسی کے ساتھ نہیں چل سکتے تو خدا را انھیں نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں اور نہ ہی ان کے خلاف الزامات کی بوچھار کریں۔
حقیقت یہ ہے آج ہم شکست کھاتے ہیں تو اپنے ہی لوگوں کی وجہ سے بس اس بات پر غور کریں ۔
اسد اویسی نے جس طرح اپنی تقریر میں الزام یا بہتان طرازی کرنے والوں کو لتاڑا ہے انہیں خدا کا خوف دلایا ہے،اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ الزامات کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا۔ اویسی کی اس تقریر کے ان الفاظ نے جانے کتنے دلوں پر کیا کیا اثر کیا ہوگا!۔
اب کوئی بے ضمیر ہی ہوگا جو اب بھی الزام اور بہتان تراشی کرتا رہے گا۔
پروفیسر اخترالواسع کے بقول مسلم قیادت بد نہیں ہے۔ اسے ایک سازش کے تحت بد نام کیا جارہا ہے۔
میڈیا کے ذریعہ ان کے خلاف اس طرح سے پروپگنڈہ کرکے مسلم ذہن سازی کی جاتی ہے کہ مسلمانوں اور قیادت کے درمیان دراڑ پیدا ہوجائے۔ مسلم قیادت مسلمانوں کے اعتماد سے محروم ہوجائے۔
بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے بعد ایک منظم طریقے سے ایسی ہی تحریک چلائی گئی تھی تاکہ مسلم قیادت کروڑوں مسلمانوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں کام یاب نہ ہوسکے ، اورمسلم قائدین کو عام مسلمانوں کی نظروں سے گرادیا گیا۔ جس کا فائدہ بابری مسجد کے قاتلوں کو ہوا۔
اویسی کی بعض خصوصيات و خوبیاں :
1.بیرسٹر اسدالدین اویسی کی لاکھ مخالفت سہی‘ ان کی صلاحیتوں سے انکار ان کا بدترین دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ یہ One Man Army ہیں۔
2.۔”ایک اکیلا 100 پربھاری “ کتنے نیشنل ٹی وی چیانلس نے کس کس طریقے سے کیسی کیسی دیوقامت سیاسی ہستیوں کے ساتھ ان کے مقابلے کروائے۔ اسد اویسی ہر مقابلے میں اپنے حریف پر حاوی رہے۔
3.غیر معمولی مطالعہ، اردو اور انگریزی میں ولولہ انگیز مگر مدلل خطابت کی خدا داد صلاحیت‘ کسی سے مرعوب نہ ہونے کی صفت نے اسد اویسی کو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا رہنما بنادیا جسے چیلنج کرنے کے لیے دو ر دور تک کوئی اور مسلم لیڈر نظر نہیں آتا۔
4.کچھ قائدین مقامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں،مگر قومی سطح پر انہیں کوئی نہیں جانتا۔
5. مقامی اور صوبائی قائدین مذہبی اور دینی معاملات میں غیر معمولی ہونگے مگر دستور ِہند اور دیگر قانونی امور سے ناواقف۔
6.بلکہ بعض جماعتوں کے قائدین کو مقامی الیکشن میں کھڑا کردیا جائے تو ان کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی ، گرچہ وہ اپنی جماعت یا تنظیم کے قومی سطح کے لیڈر یا ذمہ دار ہیں۔
7.اس کے برعکس اسد اویسی کسی بھی موضوع پر اپنے بات کو منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں بی جے پی یا کسی اور جماعت کا ایجنٹ یا دلال کہنا آسان ہے‘ ثابت کرنا آسان نہیں۔
8. جہاں جہاں ان پر ایسے الزامات عائد کیے گئے اویسی نے تاریخ اور اعداد و شمار کے حوالے سے یہ ثابت کیا کہ جب وہ مقابلہ میں نہیں تھے تب بھی بی جے پی طاقت ور تھی‘
9. اویسی کو 15ویں لوک سبھا میں مجموعی بہترین کارکردگی کے لیے پارلیمنٹ رتن ایوارڈ سے نوازا گیا–
جہاں تک سیکولر جماعتوں کا حال اچھا نہیں ہے، اپنے وطن عزیز ہندوستان میں کوئی بھی جماعت سیکولر نہیں ہے، اور اس سے بڑا فراڈ اور دھوکا م کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔
سیکولر تو وہ ہے چاہے وہ اپنے ماتھے پر کتنا بھی بڑا تلک لگائے اپنے لباس وضع قطع سے کتنا ہی کٹر کیوں نہ نظر آئے اس کے میں دوسرے مذہب سے نفرت نہ ہو۔آج تو ہر جماعت ایک دوسرے سے مقابلہ کررہی ہے۔
کانگریس، سماج وادی پارٹی، بی ایس پی نے بی جے پی کا خوف دلاکر مسلمانوں کا سیاسی استحصال کیا۔ بی جے پی تو کھلی دشمن ہے۔
نام ونہاد جماعتیں سیکولرزم کے نقاب اوڑھے چھپ کر وار کرتی ہے۔ بی جے پی کھل کر وار کرتی ہے۔ دہلی میں کیجریوال جیسا تعلیم یافتہ، مہذب چیف منسٹر ہیں مگر دہلی کے فسادات میں کون تباہ ہوئے‘ کون آزاد رہے۔
ممتابنرجی مسلمانوں کے طفیل اقتدار پر آئیں۔ مگر بنگال کے مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی حالت کیا ہے۔ وہاں کے عوام سے پوچھا جائے تو حقیقت معلوم ہوگی۔
اسد اویسی ایک طاقت کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم موجودہ حالات سے آپ کو کڑھن، کوفت ہوتی ہے اس کی بھڑاس اسد اویسی کی تقاریر سے نکل جاتی ہے۔
پارلیمنٹ میں آواز بلند کرنا:
اسد الدین اویسی پارلیمنٹ آف انڈیا میں مسلمانوں کے مسائل پر بہت مضبوطی سے آواز بلند کرتے ہیں,اور پارلیمنٹ میں ایک مسلم قیادت کا حق ادا کر دیتے ہیں،اور مودی، بھاجپا اور آر ایس ایس کی مسلم مخالف ذہنیت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ،
اسد اویسی صاحب نے مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ اور بلڈوزر کا مسئلہ بےباک انداز میں پیش کیا،
اویسی نے بھارت کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار کی فراہمی کا مدعا بھی اٹھایا،
اویسی نے پارلیمنٹ میں ٹیپو سلطان کی وکالت کی، جس ٹیپو سلطان کے نام کو ہندوتوادی برہمن مٹانا چاہتے
جے فلسطین کے ایک نعرے اثر :
2014 ء سے پارلیمنٹ میں جس طرح کے نعرے لگائے جارہے تھے اس کا اختتام اٹھارویں لوک سبھا میں اسد الدین اویسی کی ایک ہنکار نے وہ کارنامہ کر دکھایا جسے پارلیمانی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ حلف برداری کے وقت اویسی کےجے فلسطین کے ایک نعرے سے لوک سبھا قانون بدل گیا ہندو وادی نعروں پر بھی روک لگادی گئی سبحان اللہ۔
اویسی صاحب آپ کی جرأت اور بصیرت کو سلام ایک ایسے وقت میں جب کہ عالم عرب کے منبر و محراب “فلسطین کا نام لینے سےگریزاں ہیں؛ آپ نے اس اہم موقع پر اسے یاد رکھا اور خالص اسلامی لب ولہجہ میں حلف اٹھایا۔
لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے پارلیمانی قواعد میں ترمیم کی ہے تاکہ نومنتخب ارکان پارلیمنٹ کو حلف لینے یا رکنیت کی تصدیق سے پہلے یا بعد میں کسی بھی اضافی الفاظ یا تبصرے کے استعمال سے روکا جاسکے۔
اسپیکر نے لوک سبھا (سترہویں ایڈیشن) میں طریقہ کار اور کاروبار کے قواعد کے قاعدہ 389 میں ترمیم کی ہے۔
ترمیم کے مطابق، “ایک رکن حلف یا توثیق کرے گا اور اس کی رکنیت کرے گا، جیسا کہ معاملہ ہو، اس مقصد کے لیے وضع کردہ فارم کے مطابق، دستور ہند کے تیسرے شیڈول میں ہے اور کوئی لفظ یا اظہار استعمال نہیں کرے گا۔ یا حلف یا اثبات کی شکل میں سابقہ یا لاحقہ کے طور پر کوئی تبصرہ کریں۔
یہ ترمیم اس تنازعہ کے درمیان سامنے آئی ہے جب کچھ ممبران پارلیمنٹ نے حلف لینے کے دوران “جئے فلسطین”، “جئے ہندو راشٹر” جیسے نعرے لگائے تھے۔
حال ہی میں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد ایوان میں ’جئے بھیم، جئے میم، جئے تلنگانہ اور ’جئے فلسطین‘ کے نعرے لگائے۔ اویسی کے علاوہ کچھ دیگر ممبران اسمبلی بھی حلف لینے سے پہلے یا بعد میں نعرے لگاتے نظر آئے۔
اویسی کی حلف برداری کی تقریب کے دوران جے فلسطین کا نعرہ دیا تھا جس پر ادھو گروپ کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے حمایت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کیا فلسطین کا ذکر کرنا جرم ہے؟ فلسطین پر حکومت کا کیا موقف ہے ؟ حکومت اپنی پالیسی واضح کرے۔ فلسطین ایک ملک ہے۔ فلسطین میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رہنے کی طرف مبذول کرائی گئی ہے ۔ بقول شاعر :
کون کہتا ہے کہ آسمان میں سوراخ نہیں ہوسکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھا لو یارو
نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے:
مسلم تنظیموں اور جماعتوں کی بڑی بد بختی ہے کہ نہ وہ اپنے اندر صوبائی اور قومی سطح کی قیادت کرسکتے ہیں اور نہ ہی قیادت کرنے دینے ہیں ، ہر شخص اپنی جگہ ہم چوں دیگر نیست بنا بیٹھا ہے ، اگر ہماری قوم سے کوئی ایسا سامنے آتا ہے ، جس کے اندر قیادت کے اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں تو ہمارے ہی اس کی مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس طرح طرح کے الزامات کی بوچھار کر دیتے ہیں ، اگر کوئی کمزور صفت ہو تو میدان سے کنارہ کش ہو جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے ۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں میں قیادت :
جب ہندوؤں کو بیرسٹر ملا تو انھوں نے اسے مہاتما بنا دیا۔!
جب دلتوں کو بیرسٹر ملا تو انھوں نے اسے بابا صاحب امبیڈکر بنا دیا۔۔۔!
لیکن جب مسلمانوں کو بیرسٹر ملا تو ہم نے اسے بغیر کسی ثبوت اور دلیل کے ایجنٹ بنا دیا…!
اگر شک ہی کی بنیاد پر ایجنٹ بنانا ہے تو مسلم جماعتوں اور تنظیموں میں سے نچلی سطح سے لیکر اعلی قیادت میں سے کچھ افراد ایسے ضرور مل جائیں گے جن کے قریبی روابط بی جے پی یا اس طرح کی دیگر پارٹیوں سے ہے ، جس کا اظہار منظر عام پر ہوتا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین