تہران :
ایران کی وزارت داخلہ نے ہفتے کو کہا ہے کہ جمعے کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے رن آف مرحلے میں اصلاح پسند مسعود پزشکیان، قدامت پسند سعید جلیلی کو شکست دے کر ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق الیکٹورل اتھارٹی کے ترجمان محسن اسلامی نے کہا کہ مسعود پزشکیان نے ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے اور سعید جلیلی کو ڈالے گئے تقریباً تین کروڑ سے زائد ووٹوں میں سے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ 49.8 فیصد رہا۔
مسعود پزشکیان نے جیت کے بعد اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا: ’ہم سب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے، ہم سب اس ملک کے لوگ ہیں، ہمیں ملک کی ترقی کے لیے سب کو استعمال کرنا چاہیے۔‘
یہ صدارتی انتخابات 2025 میں ہونے تھے لیکن رواں برس مئی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں صدر ابراہیم رئیسی کی غیر متوقع موت کے بعد ان کا انعقاد قبل از وقت کروایا گیا۔
28 جون کو ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں تاریخی طور پر کم ووٹ ڈالے گئے تھے۔
ایران کی الیکشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے میں مسعود پزشکیان نے سب سے زیادہ 42 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ جلیلی تقریباً 39 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
پہلے مرحلے میں ایران کے چھ کروڑ 10 لاکھ اہل رائے دہندگان میں سے صرف 40 فیصد نے حصہ لیا تھا، جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد کسی بھی صدارتی انتخابات میں سب سے کم ٹرن آؤٹ تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انتخابات میں زیادہ ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح توقع سے کم رہی لیکن یہ ’نظام کے خلاف‘ اقدام نہیں ہے۔
دل کے سرجن 69 سالہ مسعود پزشکیان کو سابق صدر محمد خاتمی اور اعتدال پسند سابق صدر حسن روحانی سمیت ایران کے اہم اصلاح پسند اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔
مسعود پزشکیان کہہ چکے ہیں کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کے کسی ورژن کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کی ضرورت کو اقتصادی لحاظ سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ ان کے حریف 58 سالہ سعید جلیلی اپنے مغرب مخالف موقف کی وجہ سے مشہور ہیں، جنہیں سخت گیر حامیوں اور دیگر قدامت پسند شخصیات کی حمایت حاصل تھی۔
یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی، ایران کے جوہری پروگرام پر مغرب کے ساتھ تنازعے اور ایران کی پابندیوں سے متاثرہ معیشت پر عوامی عدم اطمینان کی صورت حال ہے۔