Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںمولانا ارشد مدنی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں تبلیغی جماعت معاملہ...

مولانا ارشد مدنی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں تبلیغی جماعت معاملہ میں حتمی بحث ستمبر میں

نئی دہلی: کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف مولانا سید ارشدمدنی، صدرجمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر گزشتہ کئی ماہ سے سماعت نہیں ہو رہی تھی، پٹیشن پر جلداز جلد سماعت ہونے کے لئے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی، جس پر جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس انیرودھ بوس نے اس معاملے کی حتمی بحث ماہ ستمبر میں کئے جانے کا حکم دیا۔

جمعیۃ علماء ہند نے جلد سماعت کی درخواست کی

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت سے جلد از جلد سماعت کئے جانے کی درخواست کی تھی۔ آج سپریم کورٹ کے آرڈر کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے بے لگام میڈیا پر شکنجہ کسنے کے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی، ہماراشروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ باہمی گفت وشنیدسے حل نہیں ہوتا تو سٹرکوں پر اترنے کے بجائے ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتا ہے، لیکن افسوس جب فرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہاررائے کی مکمل آزادی دی ہے، ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہاررائے کی مکمل آزادی دی ہے، ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا- ہر شہری کو اظہار رائے کی مکمل آزادی

اخیر میں مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ آئین نے ملک کے ہر شہری کو اظہاررائے کی مکمل آزادی دی ہے، ہم کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن اگر اظہار رائے کی اس آزادی سے دانستہ کسی کی بھی دلآزاری کی جاتی ہے، کسی فرقہ یا قوم کی کردارکشی کی کوشش ہوتی ہے یا اس کے ذریعہ اشتعال انگیزی پھیلائی جاتی ہے، تو ہم اس کے سخ ت خلاف ہیں، آزادی اظہاررائے کی آئین میں مکمل وضاحت موجودہے، لیکن اس کے باوجود میڈیا کا ایک بڑاحلقہ اقلیتوں اورکمزورطبقات کے معاملہ میں جج بن جاتاہے اور انہیں مجرم بناکر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی جیساکہ ماضی میں تبلیغی جماعت کو لیکر اسی طرح کا رویہ اختیارکیا گیا تھا، لیکن افسوس جب بعد میں عدالت انہیں بے قصورقراردیتی ہیں تو اسی میڈیا کو سانپ سونگھ جاتاہے، میڈیا کایہ دوہرارویہ ملک اوراقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا آزادی اظہاررائے کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے والے اور یکطرفہ رپورٹنگ کرنے والے ملک کے وفادار ہوسکتے ہیں؟

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست کی گئی، جس پر جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس انیرودھ بوس نے اس معاملے کی حتمی بحث ماہ ستمبر میں کئے جانے کا حکم دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست کی گئی، جس پر جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور جسٹس انیرودھ بوس نے اس معاملے کی حتمی بحث ماہ ستمبر میں کئے جانے کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے داخل پٹیشن پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظی مدعی بنے ہیں، جس پر اب تک متعدد سماعتیں ہوچکی ہیں، لیکن گزشتہ چند ماہ سے کرونا کی وجہ سے سماعت نہیں ہو سکی تھی اور اسی سابق چیف جسٹس آف انڈیا سبکدوش ہوگئے۔ اب جبکہ حالات میں سدھار ہورہا ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اپنا چارج لے لیا ہے، عدالت سے جلد از جلد سماعت کی درخواست کی گئی تھی، جس کو سپریم کورٹ نے منظورکرتے ہوئے ستمبر میں بحث کا حتمی وقت دیا ہے۔ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کوبد نام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا پٹیشن داخل کرنے کے بعد اور صارفین کی شکایت پر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی (NBSA) نے کچھ نیوز چینلوں پر ایک لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھا، اسی ضمن میں مختلف چینلوں نے معافی مانگی تھی۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین