Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںنواب میر عثمان : جنہیں مکہ ۔ مدینہ کو روشن کرنے کا...

نواب میر عثمان : جنہیں مکہ ۔ مدینہ کو روشن کرنے کا اعزاز ملا تھا

شیخ محمد یونس ۔ حیدرآباد

نواب میر عثمان علی خان کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں روشنی کے نظم کا اعزاز مکہ مکرمہ او رمدینہ منورہ عالم اسلام کیلئے روحانی اور قلبی سکون کے مراکز ہیں۔ہر مسلمان کیلئے یہ دونوں مقدس بابرکت شہر قابل احترام اور زیست سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔شہر حیدرآباد کے مسلمانوں کو ان دونوں شہروں سے خاص نسبت اور تعلق ہے۔کیونکہ ایک ایسا دور بھی تھا جب حرمین شریفین اور مدینہ منورہ کی دیکھ ریکھ کا حیدرآباد سے نظم کیا جاتا تھا۔

مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان کی جانب سے روشنی کا بھی نظم کیا گیا تھا۔مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف سے ہر مسلمان کو اٹوٹ وابستگی اور محبت ہوتی ہے۔ان دونوں مقدس شہروں کا سفر بابرکت ہر فرزند توحید کی دلی خواہش اور آرزو ہوتی ہے۔مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مسلمانوں کیلئے روحانیت کے روشن مینار اور منبع و محور ہیں۔

ان دونوں شہروں کا نام آتے ہی مسلمانوں کی آنکھیں اشتیاق اور محبت سے اشکبار ہوجاتی ہیں۔یہ دونوں متبرک اور قابل تعظیم شہر سارے عالم کے مسلمانوں کے متاع عزیز اور مقصد حیات ہیں۔ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ مکہ شریف اور مدینہ منورہ کا مبارک سفر کرے۔اللہ کے گھر کی زیارت سے مشرف ہو اور مدینہ شریف میں روضہ اقدس کی جالیوں کو پکڑ کر اپنے آقا حضور پرنور ۖ کو اپنے احوال سنائے اور مکہ اور مدینہ کو اپنا دائمی مسکن بنائے۔

جب سعودی عرب مالا مال نہیں تھا

ایک ایسے وقت جب سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال نہیں تھا اور وہاں کے حالات معاشی اعتبار سے بھی ساز گار نہیں تھے ۔اس وقت دکن کے حکمراں نواب میر عثمان علی خان نے مکہ شریف اور مدینہ منورہ کی دیکھ بھال اور انتظامات کیلئے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔نواب میر عثمان علی خان 19ویں عیسویں میں ساری دنیا کے سب سے دولت مند ترین حکمراں تھے۔آپ کی دولت ‘ شہرت’ آن بان اور شان کے ساری دنیا میں چرچے تھے ۔نواب میر عثمان علی خان کی جانب سے حرمین شریفین کی دیکھ بھال کیلئے خاطر خواہ رقم فراہم کی گئی تھی۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں برقی کا نظم بھی کیا گیا تھا۔

سال 1939میں برقی پلانٹس کی تنصیب

مدینہ منورہ میں پرانا برقی نظام غیر کارکرد ہوگیا تھا جس پر سال 1936میں نواب عثمان علی خان نے برقی پلانٹ کی تنصیب کی نہ صرف تجویز پیش کی بلکہ اس کام کی انجام دہی کیلئے چیف انجینئر نواب احسن یار جنگ کو سعودی عرب روانہ کیا۔میر عثمان علی خان کی جانب سے مدینہ شریف میں سال 1939میں برقی پلانٹس کی تنصیب عمل میں آئی۔ علاوہ ازیں جنت البقیع مدینہ شریف اور جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ میں مختلف صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے مزارات کے اقدس کی بھی مرمت انجام دی گئی۔نواب میر عثمان علی خان نے سال 1911تا 1954حرمین شریفین کی دیکھ بھال کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔نواب میر عثمان علی خان کے فراخدانہ مالی تعاون پر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود ابن عبدالعزیز نے 1954میں حیدرآباد کادورہ کیا اور نواب میر عثمان علی خان سے اظہار تشکر کیا۔نواب میر عثمان علی خان کی طرز حکمرانی مختلف لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔وہ حیدرآباد دکن کے ساتھ ساتھ سارے عالم کی بھلائی پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔انہوں نے انسانیت کی بنیادوں پر کئی ممالک کو کروڑ ہا روپے کے عطیات دیئے۔

نظام حیدرآباد کی خدمات

نواب میر عثمان علی خان کی زندگی اور کارناموں سے متعلق ان کے نبیرہ نواب میر نجف علی خان بہادر سے بات کی گئی۔نواب میر نجف علی خان بہادر نے بتایا کہ ان کے دادا جان حضور نظام نے نہ صرف مکہ شریف اور مدینہ منورہ میں برقی کا نظم کیا بلکہ تقریباً 50برسوں تک مقدس شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کیلئے فنڈس کی فراہمی عمل میں لائی۔ حیدرآباد کے عازمین حج و عمرہ کی سہولت کیلئے مکہ معظمہ اور مدینہ شریف میں 42رباطوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔انہوں نے بتایا کہ حضور نظام کے دور میں رعایا کی بھلائی کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ بلا لحاظ مذہب و ملت’ رنگ و نسل’ ذات پات ‘ عوام کی خدمت انجام دی۔انہوں نے بتایا کہ نواب میر عثمان علی خان کی جانب سے دیئے جانے والے عطیات فرمان کے طورپر جاری کئے جاتے تھے۔جو کہ تمام عطیہ جات کے قانونی ثبوت ہیں۔نواب نجف علی خان نے بتایا کہ تاریخ اور حقائق سے ناواقف افراد ہی حضور نظام کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نظام نواب میر عثمان علی خان کی مخالفت احمقانہ اور سنگین غلطی ہے۔کیونکہ مخالفین نہ ہی عوام کی بھلائی کیلئے کھڑے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ایک فرد کی مدد کرتے ہیں۔جبکہ اپنی رعایا کی بھلائی کیلئے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔

نظام عثمان علی خان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے ساری دنیا بشمول فلسطین ‘ شام’ برطانیہ’ سعودی عربیہ اور دیگر ممالک کی بھی مدد کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی فراخدلانہ عطیات دیئے۔وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی فروغ تعلیم کے نقیب ہیں۔ بلا لحاظ مذہب و ملت رعایا کی خدمت کی۔ کبھی بھی ممالک کے درمیان فرق نہیں کیا۔تمام ضرورت مندو ں کی دل کھول کر مدد کی۔وہ ایک عظیم شخصیت تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازہ میں بلا لحاظ مذہب و ملت لاکھوں افراد نے شرکت کی اور تاریخ میں یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی عظیم اجتماع کے طورپر جانا جاتا ہے۔٭٭٭

Previous article
وچی: لکشدیپ سے تعلق رکھنے والی فلمساز عائشہ سلطانہ کی پیشگی درخواست کی ضمانت جمعہ کے روز کیرالہ ہائی کورٹ سے منظور کر لی گئی۔ عدالت عالیہ نے پولیس کی جانب سے درج ملک سے غداری کے مقدمہ میں پیشگی ضمانت منظور کی۔ ماہ کے اوائل میں ہائی کورٹ سے ان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لی گئی تھی۔ خیال رہے کہ عائشہ سلطانہ نے 7 جون کو ایک ٹی وی چینل بحث میں کہا تھا کہ ’مرکز نے لکشدویپ میں کورونا کے پھیلاؤ کے لئے حیاتیاتی ہتھیار کا استعمال کیا ہے۔‘ لکشدیپ بی جے پی یونٹ کے صدر عبد القادر نے اس بیان کی بنا پر عائشہ کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تھی۔ شکایت کنندہ کے مطابق عائشہ سلطانہ کا بیان ملک کے خلاف تھا۔ کاوارتی پولیس نے عائشہ کے خلاف غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ان کو 20 جون کو پولیس کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے بعد عائشہ نے عبوری ضمانت کے لئے درخواست پیش کی تھی۔ عدالت نے ان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ اگر انہیں گرفتار کرنے کی بھی ضرورت پڑے تو بھی فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے۔ اس کے بعد عائشہ سلطانہ لکشدیپ پہنچی اور خود کو پولیس کے سامنے پیش کر دیا۔ پولیس نے ان سے تین دن تک پوچھ گچھ کی۔ عائشہ سلطانہ نے کہا، ’’میں پولیس کے سامنے پیش ہوئی ہوں۔ پولیس اہلکار نے میرے ساتھ حسن سلوک کیا اور مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے عدلیہ پر پورا اعتماد تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میں نے کیا کہہ دیا ہے، تو میں نے غلطی پر فوری طور پر معافی مانگ لی۔ یہ خبر سن کر میری پیشگی ضمانت کی درخواست منظور کر لی گئی۔‘‘ سب انسپکٹر عامر بن محمد کے ذریعے سلطانہ کو جو نوٹس دیا گیا ہے اس میں سی آر پی سی کی دفعہ 124 اے اور 153 بی کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں، یہ دونوں ناقابل ضمانت جرم ہیں۔ عبد القادر کے سلطانہ کے خلاف شکایت درج کرائے جانے کے بعد بی جے پی کے متعدد لیڈران اور کارکنان نے پارٹی سے استعفی دے دیا تھا۔ عائشہ سلطانہ لکشدیپ کے چیلتھ جزیرے سے تعلق رکھتی ہیں اور وہیں پر قیام پزیر ہیں۔ وہ فلمساز ہونے کے علاوہ ایک ماڈل ہیں اور ملیالم کی متعدد فلموں میں ادادکاری بھی کر چکی ہیں۔
المقالة القادمة
متعلقہ خبریں

تازہ ترین