Saturday, November 9, 2024
homeاہم خبریںکیا ملک میں ’’ارب پتیوں کا راج ‘‘چل رہا ہے ؟

کیا ملک میں ’’ارب پتیوں کا راج ‘‘چل رہا ہے ؟

!کارپوریٹ کلچر؛ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی خلیج ‘ارب پتی راج کے’ خاتمہ کے بغیر بھارت کی جامع ترقی ممکن نہیں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے دعویداربھارت کو معاشی انصاف نافذ کرنا ہوگا-فی کس آمدنی میں حقیر اضافہ، غربت و بے روزگاری کے چیلنج سے ترجیحی بنیاد پر نمٹنے کی ضرورت

نوراللہ جاوید
2014میں ’معاشی مصلح‘، بدعنوانی کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے ، بھارت کے متوسط طبقے کی امنگوں کو اشرافیہ کی چنگل سے نجات دلانے اور مہنگائی و بے روزگاری سے بھارت کو نجات دلانے والے لیڈر کے طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت کا ستارہ ملک کی قومی سیاست کے افق پراس طرح طلوع ہواکہ نہ صرف بھارت کے عوام بلکہ پوری دنیا کی سرمایہ پرست قوتیں اور ان کا ترجمان میڈیاان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوگیا ۔ ’دی ٹائمس‘ سے لے کر ’دی اکانومسٹ‘ جیسےبین الاقوامی معیارکے میگزینوں نے وزیر اعظم مودی کی تعریف میں صفحات کے صفحات وقف کردیے۔ٹائمس میگزین نے کبھی لکھا Naredra Modi:The New face of India تو کبھی لکھا کہ مودی کا مطلب بزنس ہےتو کبھی لکھا مودی کو کون روک سکے گا۔اسی طرح دی اکنامسٹ نے بھی کم سے کم نصف درجن شماروں کے سرورق مودی کی تعریف کے لیے وقف کیے ۔مگر اب ان دونوں عالمی میگزینوں کاعشق جنوں ختم ہوچکا ہے۔ٹائمس میگزین نےتو 2019میں ہی’ ’India’s divider in chief‘‘کے عنوان سے سرورق کو معنون کرکے مودی کی خطرناک پالیسیوں کو بے نقاب کردیا ۔تو دی اکانومسٹ نے بھی’عدم برداشت بھارت‘‘ کے عنوان سے سرورق کو مزین کرکے اپنی ماضی کی تعریفوں کا تدارک کرنے کی کوشش کی ہے۔دوسری طرف انتہا پسندی کے واقعات میں اضافہ، بھارت کو ہندو قوم پرست ریاست بنانے کی کوششوں کی وجہ سے مودی سے کیپیٹل ازم کی ترجمان میڈیا کا جہاں منھ بھنگ ہوا ہے وہیں زمینی اصلاحات ، زرعی بل جیسے قوانین جو سرمایہ دارانہ قوتوں کی امنگوں و خواہشات کی تکمیل کرنے والے تھے، کے نفاذ میں ناکامی اور اپوزیشن جماعتوں اورملک کی سیول سوسائٹی اور کسانوں کی تحریک کی وجہ سے جھک جانے کی وجہ سے مودی کے غیر مفتوح ہونے کی شبیہ کو شدید دھچکا پہنچا۔اصلاحات کے نام پر ان دونوں بلوں کے ذریعہ بھارت کو مکمل طور پر سرمایہ داروں کو کے ہاتھوں غلام بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2008 میں عالمی کساد بازاری نے پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کیا تاہم منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے بھارت کو معاشی تباہی سے بہت حد تک بچانے میں کامیاب رہی۔ جبکہ بدعنوانی کے پے درپے الزامات ، میڈیا میں منموہن سنگھ کے خلاف الزامات کے تسلسل نے ترقی کی رفتار کو سست اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچایاپ۔ایک درجن ہندوستانی ارب پتی دیوالیہ ہوگئے ۔بینکوں کے قرض میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ۔ان حالات میں مودی ’’بھارت کی امید بن کر اقتدار میں آئے اور انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سےصنعت پسند کی جو شبیہ بنائی تھی اس سے ملک کے عوام کو امید تھی کہ مودی نوجوانوں کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے اور ملک کی معیشت میں استحکام اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور دنیا بھر سے سرمایہ کاری آئے گی۔

گزشتہ دس برسوں میں مودی نے ملک کے عوام سے کیے گئے وعدے، معاشی اصلاحات اور ٹیکس نظام میں توازن لانے میں کس قدر کامیاب رہے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسٹاک مارکیٹ، جو اب دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے، اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔ معیشت کا حجم اور ترقی کے دائرہ کار کی دلچسپ کہانیوں کی مدد سے اس درمیان مودی اور ان کے حامی پوری قوت سے یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ کورونا وبا کی تباہی کے باوجود بھارت برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے میں کامیاب ہوگیا ہے اوراگلے دو سالوں میں جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑکر2027 تک دنیا کی تیسری سب سے معیشت بن جائے گا۔ مودی حکومت کے ذریعہ بڑے کاروباریوں کو سبسیڈی اور ٹیکس میں چھوٹ ،بڑی گھریلو فرموں کو’’قومی چیمپئن‘‘بنانے کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے دھنّا سیٹھوں کے پاس مودی کا شکرگزار ہونے کے لیے شاید بہت کچھ ہو مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے والے اس ملک میں غذائی قلت کا بحران ، یومیہ اجرت میں انجماد، ملک کے متوسط طبقے کی آمدنی میں عدم اضافہ اور بے روزگاری بلند ترین سطح پر کیوں ہے ؟ آخر عام لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کیوں نہیں ہورہا ہے؟چھوٹے اور درمیانی درجےکی صنعت جو بھارت کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے وہ کیوں کر تباہ و برباد ہوگئی ہے؟ اسٹارٹ اپ کے نام پر بہت کچھ لکھا اور بولا گیا مگر آج بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اسٹارٹ اپ کمپنیاں بند ہوئی ہیں ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت میں سال بہ سال عدم مساوات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے ۔آج ملک کی 40 فیصد دولت محض ایک فیصد دھنّا سیٹھوں کے ہاتھوں مرتکز ہوچکی ہے۔یہی وہ سوالات تھے جن سے وزیرا عظم نریندر مودی پورے انتخابی مہم کے دوران بچتے رہے اور پورے انتخابی بیانیہ کو فرقہ واریت پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتے رہے۔دولت کی مساویانہ تقسیم، ذات کی بنیاد پرسروے کے مطالبات کو ہندو خواتین کے منگل سوتر اور ہندوؤں کی دولت چھین کر مسلمانوں کو دینے کے جھوٹے پروپیگنڈے کے نذر کردیا گیا ۔مودی نے اپنی لمبی چوڑی پروپیگنڈہ ٹیم اور حامی میڈیا کے ذریعہ ان سوالات کو غائب کرنے کی بھر پور کوشش کی جس میں بڑی حد تک انہیں کامیابی بھی ملی مگر سوشل میڈیا پر منحصر اپوزیشن جماعتوں کے بنیادی سوالات نے مودی کی غیر مفتوح شبیہ اور بلند اقبال کو ختم کردیا ۔مودی اگرچہ تیسری مرتبہ وزارت عظمی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر ان کا وہ اقبال نظر نہیں آرہا ہے جو 2014اور 2019میں نظر آیا تھا ۔معاشی مصلح کی شبیہ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے اور ان سے متعلق صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے کہ وہ صنعت کاروں کے دوست ہیں اور ان کی پوری پالیسیاں صرف صنعت کاروں کو نفع پہنچانے تک مرکوز ہے۔معاشی اعتبار سے مودی کے اگلے پانچ سال کیسے رہیں گے؟ کیا مودی گزشتہ دس سالوں کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کا تدارک کرنے پر توجہ دیں گے۔اس کا اندازہ تیسری مدت کے پہلے بجٹ سے ہوجائے گا۔

نئی سڑکوں، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور میٹرو کی تعمیر مسٹر مودی کی اقتصادی پالیسی کا مرکز رہی ہے۔ اس نے پچھلے تین سالوں میں انفراسٹرکچر کے اخراجات (سرمایہ دارانہ اخراجات) میں سالانہ $100bn سے زیادہ خرچ کیا۔2014 اور 2024 کے درمیان تقریباً 54,000 کلومیٹر طویل قومی شاہراہیں تعمیر کی گئیں جو کہ پچھلے دس سالوں کی لمبائی سے دوگنی ہیں۔مگر کیا کوئی بھی ملک صرف انفراسٹرکچر کی بہتری کی بنیاد پر ترقی کرسکتا ہے؟ مودی کے دور حکومت میں انفراسٹرکچر کے نام پر جو گورکھ دھندہ انجام دیا گیا وہ ہمارے سامنے ہے۔معمولی بارش کے بعد دہلی ائیر پورٹ کاایک حصہ منہدم ہوگیا، ایودھیا جسے بھارت کی مذہبی و ثقافتی راجدھانی بنانے کی کوشش کی گئی تھی اس کی سڑکیں خستہ حال ہوگئیں ۔مگر دوسری طرف ہیومن ڈیولپمنٹ ، معاشی انصاف، متوسط طبقے کی امنگوں کو اشرافیہ کی چنگل سے نجات دلانے کی کوئی بھی کوشش ان دس سالوں میں نظر نہیں آئی ۔چناں چہ مودی کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں ۔ٹائمس میگزین اس سال اپریل میں How India’s Economy Has Really Fared Under Modiکے عنوان سے شائع ہونے والی ایک اسٹوری میں ملک کی معاشی ترقی کےدعوؤں پر سوالات کھڑا کرتے ہوئے کئی بنیادی باتوں کو اجاگر کیا ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

اس مضمون میں مودی کی معاشی ترقی کے اعدادو شمار پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے کہ ان کی حکومت جو دعویٰ کررہی ہے کہ ملک کی جی ڈی پی 8فیصد شرح سے ترقی کررہی ہے کیا واقعی یہ دعویٰ درست ہے؟ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے حوالےسے کہا گیا ہے کہ بھارت کی جی ڈی پی ترقی کی شرح 6فیصد سے زائد نہیں ہے۔اسٹوری میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ مودی کے دعوؤں پر خود ان کے سابق معاونین بھی سوالات کھڑے کررہے ہیں ۔مودی کے سابق چیف اکنامسٹ میں سے ایک کا خیال ہے کہ اگر صحیح طریقے سے پیمائش کی جائے تو ہندوستان کی معیشت درحقیقت تنزلی کا شکار نظر آئے گی۔دریں اثنا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے۔ ایف ڈی آئی کی سطح اب تقریباً دو دہائیوں میں سب سے کم ہے۔ یہاں تک کہ مقامی سرمایہ کار بھی اپنے بٹوے کھولنے سے کترارہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری درحقیقت 2012 سے جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر گر رہی ہے اور معیشت اب بڑی حد تک حکومتی سرمایہ کاری سے چل رہی ہے۔اشیائے خورد و نوش کی منڈی بدستور سست روی کا شکار ہے،جو معاشی تناؤ کی علامت ہے۔ نجی کھپت کی نمو بیس سالوں میں سب سے سست ہے۔ ٹریکٹرکی فروخت کو دیہات کی معاشی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر حالیہ برسوں میں اس میں گراوٹ آئی ہے۔ بینک دو دہائیوں میں ڈپازٹ کے بدترین بحران سے لڑ رہے ہیں کیونکہ گھریلو بچت 47 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جبکہ گھریلو قرضوں کی سطح ریکارڈ بلندی پر ہے۔گزشتہ مالی سال میں بھارت کی اشیا کی برآمدات میں 3 فیصد اور اس کی خام درآمدات میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی۔ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ترقی پذیر معیشت کے لیے اچھے آثار نہیں ہیں۔ بیس سالوں میں بے روزگار نوجوانوں میں ثانوی یا اعلیٰ تعلیم کے حامل نوجوانوں کا حصہ تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔ گریجویٹس کی ایک تہائی آبادی بے روزگار ہے۔

بے روزگار نوجوان اب اسرائیل اور یوکرین جیسے جنگ زدہ علاقوں میں روزگار کے مواقع کی تلاش کررہے ہیں ۔روس سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ اس نے یوکرین کی جنگ میں بھارت کے سیول مزدوروں کو میدان جنگ میں بھیج دیا ہے۔ان نوجوانوں کی دردناک کہانیاں سامنے آرہی ہیں ۔ایک طرف جہاں تیزی سے بھارت کے کروڑ پتی افراد ملک چھوڑ رہے ہیں وہیں بین الاقوامی سرمایہ کاری کی نقل مکانی کی مشاورتی فرم ’ہینلے اینڈ پارٹنرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں تقریباً 4,300کروڑ پتیوں کے بھارت چھوڑنے کا امکان ہے اور غالباً وہ متحدہ عرب امارات کو اپنی منزل کے طور پر منتخب کریں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں تقریباً 5,100بھارتی کروڑ پتی بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں ۔دوسری طرف بھارتی شہریوں کی بڑی تعداد غیر قانونی طور پر یورپ میں پناہ حاصل کررہی ہے ۔بھارتی شہری اس وقت امریکہ میں غیر دستاویزی تارکین وطن کا تیسرا سب سے بڑا گروپ ہے، ان کی تعداد میں کسی بھی دوسرے ملک سے آنے والوں کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔بھارت کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے پر مودی کے تمام تر ڈھول بجانے اور ’’میک ان انڈیا‘‘کے نام پر شورو شرابہ کے باوجود ملک کے جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ گر گیا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں معاشی اصلاحات کی شروعات کی گئی اور لبرل اکانومک کی شروعات ہوئی ۔اس کے بعد سے اب تک دس سالوں میں فی کس آمدنی میں سب سے کم اضافہ ہوا ہے۔ مودی کے پیشرو سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دس سالہ دور کے مقابلے میں نصف تیزی سے بڑھی ہے، جبکہ اسٹاک مارکیٹ کا منافع پچھلی دہائی کے مقابلے میں بھی کم ہے۔

بے روزگاری میں اضافہ اور اجرت میں انجماد معاشی نا انصافی کا مظہر

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق تمام بے روزگار لوگوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا حصہ 2000 میں 54.2 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں65.7 فیصد ہو گیا۔ نامور ماہر اقتصادیات جین ڈریز کے شمار کردہ اعداد کے مطابق 2014 کے بعد سے ہندوستان میں حقیقی اجرتوں میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔ورلڈ بینک کے علاقائی ماہر معاشیات نے حال ہی میں فائنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت میں’’ آبادیاتی منافع کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے‘‘۔ کام کرنے کی عمر کی بڑی آبادی کے لیے معاشی ترقی کے امکانات اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مودی ناکام رہے ہیں ۔ کسی بھی ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی کی اہم علامت ’حقیقی اجرتوں میں اضافہ ہے۔اگر ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) تیزی سے بڑھ رہی ہے تو حقیقی اجرتوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ لیبر بیورو اور نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار سے اندازہ لگاتے ہوئے آج ہندوستانی معیشت میں یہی کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ذرائع پچھلے دس سالوں میں حقیقی اجرت کے مجازی جمود کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔یہ اعداد و شمارگزشتہ بیس سالوں میں غربت میں مسلسل کمی کےدعوے کے متصادم ہیں ۔حقیقی اجرتوں کا جمود غیر رسمی شعبے میں ایک گہرے بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن 2023 کا علاقائی جائزہ: شماریات اور رجحانات کے عنوان سے گزشتہ سال دسمبر میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 74.1فیصد بھارتی شہری 2021 میں صحت مند غذا کے متحمل نہیں تھے۔ 2020 میں ، فیصد76.2تھا۔ پاکستان میں یہ تعداد82.2فیصد ہے اور بنگلہ دیش میں66.1فیصد آبادی کو صحت بخش خوراک کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ خوراک کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اگر بڑھتی ہوئی آمدنی سے مماثلت نہیں رکھتے تو اس سے زیادہ لوگ صحت مند غذا کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کھانے کی قیمتیں اسی وقت بڑھتی ہیں جب آمدنی میں کمی آتی ہے، تو ایک پیچیدہ اثر پیدا ہوتا ہے ۔اس کے نتیجے میں اور بھی زیادہ لوگ صحت مند غذا کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ FAO کی رپورٹ پائیدار ترقی کے اہداف اور ورلڈ ہیلتھ اسمبلی (WHA) کے عالمی غذائیت کے اہداف کو پورا کرنے میں پیش رفت کی ایک جھلک ہے۔

حکومت کی بنیادی ترجیحات ہیومن ڈیولپمنٹ میں ناکام
وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی پالیسی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔مودی کے اقتصادی مشیر کاروں کی حکمت عملی یہ ہے کہ انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری سے جہاں ترقی اور چمکتے بھارت کو دنیا کے سامنے پیش کرے گی وہیں روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گی اور اس سے ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی ہوگی ۔اس لیے حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ انفراسٹرکچرپر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔2014-15 میں پبلک کیپیکس جی ڈی پی کا 1.6فیصداور کل اخراجات کا 11.8 فیصدتھا۔ یہ 2023-24 میں جی ڈی پی کے تقریبا4 .3فیصد کل اخراجات (نظرثانی شدہ تخمینوں) کا28.3فیصد تک پہنچ گیا۔ اس سال فروری میں پیش کیے گئے 2024-25 کے عبوری بجٹ میں بھی سرمائے کے اخراجات کے لیے کافی زیادہ رقم مختص کی گئی ۔ دراصل یہ حکمت عملی نو لبرل مارکیٹ کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔جس میں دولت اور سرمایہ کاروں کو زیادہ سے زیادہ رعایت دی جاتی ہے۔اسی رجحان کے مدنظر مرکزی حکومت بالواسطہ ٹیکسوں اور مختلف چھوٹے اور درمیانی درجے کے صنعت کاروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کی کوشش میں رہی ہے۔ایک کروڑ روپے سے کم منافع والی کمپنیوں سے 24.82فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ جب کہ 500 کروڑ روپے سے زیادہ منافع (ٹیکس سے پہلے) والی کمپنیوں کے ٹیکس سے منافع کا تناسب19.14فیصد ہے۔

مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں میں عدم توازن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال بہ سال انفراسٹرکچرکے بجٹ میں اضافہ کیا گیا سماجی شعبے کی متعدد اسکیموں میں اخراجات میں کمی کی قیمت پر کیا گیا ہے۔ سنٹر فار گورننس اینڈ بجٹ اکاونٹیبلٹی (سی بی جی اے) کی طرف سے سامنے لائی گئی رپورٹوں کے مطابق یونین بجٹ میں صحت کا حصہ 2014-15 میں 4.1فیصد تھا جو اب کم ہو کر 2023-24 میں1 .9فیصد ہوگیا ہے (0.55 فیصد سے 0.29 فیصد تک) جی ڈی پی)۔ اسی عرصے کے دوران تعلیمی بجٹ کا حصہ3 .2فیصد سے کم ہو کر2 .5فیصد رہ گیا ہے۔اکاؤنٹیبلٹی انیشیٹو نےہندوستان کی فلاحی اسکیموں کے ارتقاء پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کس طرح آنگن واڑی اسکیم، دوپہر کے کھانے کی اسکیم اور نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام (NSAP) جیسے کئی اہم پروگراموں کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔بجٹ میں بچوں کے حصے 2014-15کے مقابلے میں 45فیصد کمی آئی ہے۔اسی طرح، کل بجٹ/جی ڈی پی میں منریگا کے بجٹ کے حصہ میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔2019کے بعد مودی نے عام شہریوں کے لیے کوئی بڑا سماج فلاح بہبود کی اسکیم کا اعلان نہیں کیا ہے ۔2019کے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل مودی حکومت نے پی ایم کسان یوجنا کے تحت تمام کسانوں کے لیے 6000روپے نقد منتقلی کا اعلان کیا تھا۔مودی حکومت کی ان پالیسیوں کا سب سے بڑا نقصان ملک کی دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے۔لوک سبھا انتخابات کے دوران ایک صحافی نے انٹرویو کے دوران مودی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ کیا تمام لوگوں کو غریب بنادیا جائے ۔ظاہر ہے کہ اس طرح کے جواب کی امیدوزیر اعظم سے نہیں کی جاسکتی ہے۔

مودی کے دس سالہ دور حکومت میں امیر اور غریب کے درمیان فرق2014کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگیا ہے۔عالمی عدم مساوات لیب (WIL) کے ایک نئے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی آمدنی اور دولت کی عدم مساوات دنیا میں سب سے زیادہ ہے، برازیل، جنوبی افریقہ اور امریکہ سے بھی بدترین صورت حال ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی ’’دی رائز آف دی بلینیئر راج ‘‘کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں آمدنی میں عدم مساوات درحقیقت اس سے بھی بدتر ہے جو کہ برطانوی نو آبادیاتی دور میں تھی۔یہ مطالعہ نیویارک یونیورسٹی کے ابوظبی کیمپس کے نتن کمار بھارتی نے کیا ہے اور ان کے شریک مصنف ہارورڈ کینیڈی اسکول سے لوکاس چنسل اور تھامس پیکیٹی کے ساتھ ساتھ پیرس اسکول آف اکنامکس کے انمول سومانچی ہیں۔ اندازوں کے مطابق، تقریباً دس لاکھ افراد جنہیں’’آکٹوپس کلاس‘‘ کہا جاتا ہے ملک کی 80 فیصد دولت پر قابض ہیں اور قومی خوشحالی کا بھرم پیدا کر نے میں اسی کلاس کا سب سے اہم رول ہے ۔’’عالمی عدم مساوات کی رپورٹ‘‘میں بھارت میں ’’ارب پتی راج‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔پچھلی دہائی میں ہندوستان کے انتہائی امیروں کی تعداد میں 11 گنا اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف ملک گلوبل ہنگر انڈیکس میں شمالی کوریا اور جنگ زدہ سوڈان سے بھی نیچے ہے۔ظاہر ہے کہ دو انتہائی کسی بھی ترقی پذیر معیشت کے لیے اچھے اشارے نہیں ہیں ۔مودی کی حکومت 60 فیصد آبادی کو مفت اناج دے رہی ہے۔عالمی میڈیا کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مودی کی دس سالہ حکمت عملی کی وضاحت کرنی ہو تو صرف ایک سطر میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک چھوٹے سے طبقے کے لیے ہیڈ لائن مینجمنٹ ،ان کی معاشی ترقی پر زور اور فزیکل انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کے علاوہ مودی کی کوئی اور اقتصادی پالیسی نہیں ہے۔

دنیا کی تمام تر مضبوط اور مستحکم اقتصادی صلاحیت کے حامل ملکوں نے اپنی تجارتی، صنعتی اور سماجی پالیسیوں کے درمیان زبردست ہم آہنگی قائم کرنے کے بعد اس مقام کو حاصل کیا ہے۔ زمینی اصلاحات، تعلیم اور صحت میں بہت زیادہ حکومتی سرمایہ کاری اور گھریلو طلب اور پیداوار کی صلاحت میں اضافہ پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ویتنام بھارت کی آبادی کے دسویں حصے سے بھی کم ہےمگر بھارت سے زیادہ برآمدات کرتا ہے۔ 1991 میں جب بھارت نے معاشی اصلاحات کا آغاز کیا تو اس وقت صرف ایک ہی ارب پتی تھا۔نئی تحقیق کے مطابق 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 52، پھر 2022 میں 162 ہو گئی اور اب 271 تک پہنچ گئی ہے جو صرف چین اور امریکہ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے ۔2014 اور 2022 کے درمیان ہندوستانی ارب پتیوں کی خالص دولت میں 280 فیصد سے زیادہ اضافہ ہواہے۔دوسری طرف، ہندوستان دنیا بھر میں غذائی قلت کا شکارافراد کی تعداد ملک کی ایک چوتھائی آبادی ہوگئی ہے۔ 2023 کے گلوبل ہیلتھ انڈیکس سیوریٹی آف ہنگر اسکیل کے مطابق 100 میں سے بھارت کا اسکور محض 28.7 ہے ۔2019 اور 2021 کے درمیان تقریباً 307 ملین بھارتیوں نے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کیا ہے جبکہ 224 ملین لوگ دائمی بھوک سے متاثر ہوئے۔WIL رپورٹ کے مطابق صرف ایک فیصد بھارتی ہوائی جہاز کی کل پروازوں میں سے 45فیصد حصہ سفر کرتے ہیں۔ صرف 2.6فیصد افراد میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور 6.4فیصد شہری تمام ڈیجیٹل ادائیگیوں کے 45 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں لگژری گاڑیوں کے فروخت میں اضافہ ہواہے مگر دوسری طرف اسکوٹر اور موٹر سائیکلوں کی فروخت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔

عدم مساوات کا علاج کیا ہے
آج یہ سوال سب سے اہم ہے کہ اس عدم مساوات سے کیا بھارت ابھر سکتا ہے؟یقینا مودی حکومت کی اقتصادی پالیسی میں عدم توازن اور صرف دس فیصد شہریوں کو فائدہ پہنچانے کی حکمت عملی نے عدم مساوات میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر اس کے لیے تن تنہامودی کو ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ماہرین مانتے ہیں کہ عدم مساوات میں اضافے کی جڑیں 1991میں معیشت کو آزاد کرنے کی پالیسی سے جڑی ہوئی ہے۔کیوں کہ بھارت کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اہم شعبوں زراعت ، درمیانی اور چھوٹے درجے کی صنعت اور غیر منظم سیکٹر کو استحکام بخشنے کی چار دہائیوں کے دوران کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی ۔ہرایک چیز کارپوریٹ کے حوالے کی حکمت عملی نے بلامعاوضہ اور کم اجرت پر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔مودی حکومت کی نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاون نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔گلوبل سلیوری انڈیکس 2023کی رپورٹ کے مطابق جی 20 ممالک میں بھارت میں 11 ملین افراد جبری مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔بھارت اس معاملے میں سرفہرست ہے، اس کے بعد چین، روس، انڈونیشیا، ترکی اور امریکہ ہیں۔اقتصادی ماہرین بتاتے ہیں کہ عدم مساوات کا حل تعلیم میں مضمر ہے۔ تعلیمی نظام کو مارکیٹ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے ورنہ ہندوستان بے روزگار گریجویٹس پیدا کرتا رہے گا۔ریزروبینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو ناتھ راجن کہتے ہیں کہ انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔معیاری تعلیم تک ہرایک شہری کی رسائی کو آسان بنانا ہوگا،بہتر اور بروقت علاج کی فراہمی کے لیے صحت کے شعبے پر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔آج صورت حال یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے سیکٹر کو مکمل طور پر پرائیوٹ ہاتھوں میں سونپنے کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔ اسی کانتیجہ ہے کہ بھارت کی صرف دس فیصد بچے ہی اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی اگلے پانچ سال کے لیے کونسی راہ اختیار کرتے ہیں۔ بجٹ 2024-25 اس کی طرف واضح اشارہ کرے گا۔مگر عام شہریوں بالخصوص سیول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی سوالا ت کھڑا کرتے رہیں تاکہ حکومتیں صحیح راہ پر آسکیں ۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین