کچھ روز قبل کلکتہ شہر کے کثیر مسلم آبادی والے علاقیہ کولوٹولہ میں ترنمول کانگریس کے دو حامی مسلم گروپ کے درمیان جس طریقے سے جھڑپیں اور تشدد کے واقعات ہوئے ہیں اس کی تصویریں اورویڈیو شاید ہی کلکتہ میں کوئی مسلمان ہوگا جس نے نہیں دیکھا ہوگا۔یہ تصویریں اور ویڈیوایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ہندوستان بھر مساجد ،مقابر اور خانقاہوں پر ہندو انتہا پسند جماعتیں حملہ آور ہیں ۔مسلمانوں کے گھروں کو نشانے بنائے جارہے ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کا اپس میں ہی دست و گریباں اس طرح سے ہونا کہ کوئی خون کے پیاسے ہیں ۔دونوں طرف کے لوگ ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ظاہر ہے کہ اس واقعہ پر کلکتہ شہر کے ہرایک مسلمان کو شرمندہ ہونا چاہیے۔
آج ایک بار پھر ایک تصویر اور ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔جس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے دونوں گروپ کے سرغنہ اور درمیان میں ایک امام محترم ہیں۔تصویر کے کیپشن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں گروپ کے درمیان صلح صفائی کرادی گئی ہے۔صلح و صفائی اپنے آپ میں ایک کار خیر ہے اور اس میں ثالثی کا کردار ادا کرنا اس سے بڑا کارخیر ہے۔مگر معاملہ صرف یہاں تک محدود ہوتا تو اس میں پر سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
میرے معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ یہ صلح صفائی کا بھی سیاسی پس منظر ہے۔آج کل ایک سیاسی لیڈر ہیں جو مسلمانوں میں ترنمول کانگریس کی طرف نامزد ’’امیرالمومنین‘‘ کے عہدہ پر فائز کئے گئے ہیں کے اشارے پر یہ تمام صلح و صفائی ہوئی ہے۔کیوں کہ ترنمول کانگریس ان دنوں آپسی تنازع کی وجہ سے مسلسل سرخیوں میں ہے۔ بوگتو ئی قتل عام سے لے کر انیس خان قتل کا قتل ترنمول کانگریس کیلئے گلی کی ہڈی بن گئی ہے۔بابل سپریا کو ٹکٹ دیا جانا اور اس پھر اسے جیتانے کیلئے ترنمولی مسلم لیڈروں کی رات دن کی محنت کے بعد مسلمانوں کا سنجیدہ طبقے سوچنے لگا ہے۔
سوال ان دونوں سرداروں کے صلح و صفائی کا نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ دونوں گروپ مسلمانوں سے معافی مانگیں گے کہ ان کی وجہ سے کلکتہ کے مسلمانوں کی شبیہ جو نقصان پہنچا ہے اس کی کا جواب کون دے گا۔آپ نے صلح صفائی کرلی مگر مقامی دوکانداروں کے سامان جو نقصانات پہنچے ہیں اس کی بھرپائی کون کرے گا۔کسی کے دوکان کی کرسی توڑ دی گئی تو کسی لچھے والے کا لچھا الٹ دیا گیا ۔کسی گوشت کے دوکان کا گوشت پھینک دیا گیا اس کا جواب کون دے گا۔آپ نے صلح صفائی کرلی مگر آپ کی وجہ سے مسلم نوجوان میں جو غنڈہ گردی کا جذبہ جو پیدا ہوا ہے اس کو کون ختم کرے گا۔
آج کل ترنمولی مسلمانوں کو ممتا بنرجی سے آگے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔پریس کانفرنس میں کررہے ہیں کہ ہم سب کو ممتا بنرجی کو وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے دعا کریں ۔ہندوستان کے مسلمان پریشان حال ہیں مگر انہیں اس کی فکر نہیں ہے۔بنگال میں ممتا بنرجی ہندتو کی راہ پر ہے۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے کو نافذ کررہی ہیں مگر انہیں اور ان کے امام کو اس کی فکر نہیں ہے۔مگر چوں کہ ان دونوں کے جھگڑے پارٹی کی شبیہ کو نقصان پہنچے گا اس لئے صلح و صفائی ہورہی ہے۔
اصل تو یہ ہونا چاہیے کہ پولس اس معاملے میں گرفتار ی کرتی ہے اور ایک دوسرے پر جان لیوا حملے کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دیتی مگر چوں کہ پولس بھی اس وقت ریاست کے زیر انتظام کام کرتی ہے اور اس کے اشارے کے بغیرکوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔جب کہ ڈیوٹی پر موجود پولس اہلکار پر حملے ہوئے اور اس کے باوجود کارروائی نہیں ہوئی یہ تعجب خیز ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے جوکوئی معاشرہ لاقانونیت کی طرف بڑھ جاتا ہے تو اس معاشرے کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔حکمراں جماعت مسلمانوں میں لاقانونیت کے مزاج کے پروان چڑھارہی ہے۔چناں چہ آج مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسہ ہے۔انیس خان کے قتل سے لے کر بوگتوئی قتل عام اس کا ثبوت ہے۔دونوں قتل کے محرکات مسلمان ہیں اور وہ سیاسی آقائوں کے اشارے۔مجرم زدہ معاشرے پر کنٹرول کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے حکمراں جماعت اس بات کی چھوٹ دے رکھی ہے۔کیا جسیم الدین کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے جس نے سیکڑوں افراد کے ساتھ کولوٹولہ میں مغرب سے عین قبل آتنگ مچائی۔اگر اس کے بھائی پر حملہ ہوا ہے تو اس کوپولس میں کارروائی کرنی چاہیے مگر اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور حملہ کردیا۔کیوں کہ لاقانونیت زدہ معاشرہ کا وہ نمائندہ ہے اس لئے اس پر کسی نے کارروائی نہیں کی۔