Monday, October 7, 2024
homeدنیاجہاں گیر پوری میں این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی پر...

جہاں گیر پوری میں این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی پر آیندہ شنوائی تک کے لیے روک کا حکم برقرار==

سپریم کورٹ نے فیصلے کے باوجود انہدامی کارروائی جاری رکھنے کو سنجیدگی سے لیا، عدالت میں جمعیۃ کے وکیل دشینت داوے کی عالمانہ بحث۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولامحمود مدنی نے عدالت عظمی سے امید ظاہر کی کہ وہ ملک کی عظیم وراثت کے تحفظ کے لیے ضروری احکامات جاری کریں گے، انھوں نے جمعیۃ کے وکیل کے اس موقف کی تائید کی کہ بلڈوز کے ذریعہ ایک قوم کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نئی دہلی ۲۱/اپریل: سپریم کورٹ نے جہاں گیر پوری میں این ڈی ایم سی کی انہدامی کارروائی روک لگانے کی بابت اپنے فیصلے کو آیندہ شنوائی تک کے لیے برقرار رکھا ہے۔جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور بی آر گوائی پر مشتمل بنچ نے جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے دائر کردہ عرضی پر این ڈی ایم سی کو نوٹس جاری کیا اور 2 ہفتوں کے اندر جوابی حلف نامہ طلب کیاہے۔واضح ہو کہ جہانگیر پوری دہلی میں این ڈی یم سی ڈی کی انہدامی کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کے نام سے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے سیئنر وکیل دشینت داوے اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد جمعیۃ کے وکیل ہیں۔ آج دشینت داوے نے عدالت سے کہا کہ آپ کے حکم کے باوجود این ڈی ایم سی نے انہدامی کارروائی جاری رکھی، ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا کی ہدایت ملک کے آئین سے بڑھ کر ہے۔اس پر عدالت نے صاف لفظوں میں کہا کہ ” وہ میئر کو اطلاع دیے جانے کے بعد بھی ہونے والے انہدام کا سنجیدگی سے جائزہ لے گی ”۔

سینئر ایڈوکیٹ دشینت داوے نے اپنی بات رکھتے ہوئے آگے کہا کہ جہانگیر پوری میں جو کچھ ہوا ہے وہ ”قومی اہمیت” سے متعلق معاملہ ہے۔جسٹس راؤ نے پوچھا کہ یہ کس طرح سے”قومی اہمیت” کا معاملہ ہے کیونکہ یہ صرف دہلی کے ایک علاقے تک محدود ہے۔ داوے نے کہا کہ اب یہ ”ریاستی پالیسی” بن چکی ہے کہ ہر فساد کے بعد بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے سماج کے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ جہانگیر پوری تک محدود مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو متاثر کرنے والا ایک افسوس نا ک باب ہے جس میں سماج کے خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس طرح کے عمل کی اجازت دی گئی تو قانون کی حکمرانی نہیں رہے گی، یہ کیسے ہوا کہ بی جے پی کے صدر انہدام شروع کرنے کے لیے میونسپل کمشنر کو خط لکھتے ہیں اور وہ اس کی اطاعت کرتے ہوئے این ڈی ایم سی اگلے دن بلڈوزر لے کر پہنچ جاتی ہے؟ اس سلسلے میں انھوں نے اوگلا تیلس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی تذکرہ کیا۔

دشینت داوے نے مزید کہا کہ”دہلی میں 731 غیر مجاز کالونیاں ہیں جن میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں اور آپ ایک کالونی کو نشانہ بناتے ہیں کیوں کہ آپ ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔”ہمارے مکانات 30 سال سے زیادہ پرانے ہیں… ہماری دکانیں 30 سال سے زیادہ پرانی ہیں… ہم جمہوریت میں رہتے ہیں، بھلا اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ اچانک کوئی صبح آئے اور میرا گھر یا میری دکان گرادے؟۔ داوے نے دہلی میونسپل کارپوریشن ایکٹ کی دفعہ 343 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہدام کا کوئی حکم، متاثرہ شخص کو معقول موقع دیے بغیر پاس نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے یہ بھی کہا یہ غریب لوگ ہیں، اگر آپ غیر مجاز تعمیرات کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو آپ سینک فارمز پر جائیں، گالف لنکس پر جائیں جہاں ہر دوسرا گھر تجاوزات کی علامت ہے۔ آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔” آپ صرف غریب لوگوں کو نشانہ بنائیں گے۔داوے نے مزید کہا، ”پولیس اور سول حکام آئین کے پابند ہیں نہ کہ بی جے پی لیڈر کے لکھے گئے خطوط کے تابع ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی صدر کی خواہش، حکم بن گئی ہے۔ یہ بحیثیت قوم ہمارے لیے بہت ا فسوسناک ہے۔

سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا، شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کی طرف سے پیش ہوئے، انھوں کہا کہ میونسپل کارپوریشن نے عوامی سڑکوں پر پڑی چیزوں کو ہٹانے کی کوشش کی ہے، یہ مہم جنوری میں شروع ہوئی، پھر فروری 2022 اور اپریل میں بھی چلی ہے۔ اسے سڑکوں کو صاف کرنے کے لیے شروع کیا گیا…”. انھوں نے کہا کہ کئی معاملات میں فٹ پاتھوں اور عوامی سڑکوں سے تجاوزات ہٹانے کے عدالتی احکامات موجود ہیں۔انھوں نے متاثرہ شخص کے بجائے تنظیم کی عرضی پر بھی اعتراض ظاہر کیا۔سالیسٹر جنرل، اسے ہندو مسلم معاملہ بنانے پر بھی معترض تھے، انھوں نے کہا کہ کھرگون کے انہدام میں، 88 متاثرہ فریق ہندو تھے اور 26 مسلمان تھے۔ مجھے یہ تفریق ظاہر کرنے والوں پر افسوس ہوتا ہے۔ایس جی نے عرض کیا کہ فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے اسٹالز، کرسیاں وغیرہ ہٹانے کے لیے نوٹس کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔جسٹس راؤ نے استفسار کیا کہ کل جو انہدام کیا گیا وہ صرف اسٹال، کرسیوں اور میزوں پر تھا؟”کیا اسٹال، کرسیوں اورمیزوں کو ہٹانے کے لیے بلڈوزر کی ضرورت ہے؟”، جسٹس گاوائی نے پوچھا۔جسٹس گاوائی نے اشارہ کیا، ”اگر قانون کسی چیز کو کسی خاص طریقے سے کرنے کا انتظام کرتا ہے، تو اسے اسی طریقے سے کیا جانا چاہے۔
ان تمام معاملات پر صدر جمعیۃ علما ہند مولانا محمود اسعدمدنی جمعیۃ علماکی طرف سے پیش ہوئے وکیلوں کی عمدہ بحث کی شتائس کی اور کہا کہ دشینت داوے جی نے عدالت کے سامنے جو یہ موقف رکھا ہے کہ اب یہ ”ریاستی پالیسی” بن چکی ہے کہ ہر فساد کے بعد بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے سماج کے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بالکل یہ ملک کے سبھی انصاف پسندوں کا احساس ہے۔ یہ عمل ملک میں جمہوریت، آئین اور قانون کو کمزور کرنے والا ہے اورآئین پر بھروسہ رکھنے والوں کے اعتماد کو توڑنے والا ہے۔انھوں نے کہا کہ فرقہ پرست عناصر اور ان کے سرپرستوں کو سمجھنا چاہئے کہ ان کے اس رویے سے ملک کی عظیم وراثت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے بدنام کرنے والے اور وطن عزیز کے دشمنوں کو موقع دیا جارہا ہے۔اس لیے سپریم کورٹ کی یہ ذمہ داری ہے وہ نہ صرف آئین کو بحال کرے بلکہ ملک کے وقار، سالمیت اورا س کی مشترکہ تہذیب و وراثت کی حفاظت کے لیے ضروری احکامات جاری کرے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین