Saturday, July 27, 2024
homeاہم خبریںکیا فلم ’اینیمل‘ کی باکس آفس کمائی تشدد کی قبولیت کی سند...

کیا فلم ’اینیمل‘ کی باکس آفس کمائی تشدد کی قبولیت کی سند ہے؟

نڈیا میں صرف 18 روز میں 517 کروڑ انڈین روپے کا بزنس کرنے والی بالی وڈ اداکار رنبیر کپور کی نئی فلم ’اینیمل‘ کسی سرکش جانور کی طرح دوڑے جا رہی ہے۔

مگر شاید شاہ رخ کی ’ڈنکی‘ اور تیلگو اداکار پربھاس کی ’سالار‘ بہت جلد اس کے قدم روک سکتی ہیں۔

اگر یہ ہوا تو ’اینیمل‘ کے ریکارڈ ’ڈنکی‘ روند دے گا، ہدایت کار اور ستارے نئی فلموں میں کھو جائیں گے، جبکہ اس میں دکھایا جانے والا گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف نفرت انگیز رویہ ہمارا منہ چڑاتا رہے گا۔

اکثریت کے نزدیک ’اتنا چلتا ہے‘ جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک ’یہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔‘ کیا باکس آفس پر کامیابی کا مطلب ہے لوگ تشدد پسند کرتے ہیں اور یہ سب ٹھیک ہے؟

یکم دسمبر کو بیک وقت ہندی، ملیالم، تیلگو، کنڑ اور تمل میں ریلیز ہونے والی فلم کو ایک طرف وسیع پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے تو دوسری طرف تنقید بھی برابر جاری ہے۔

28 ستمبر کو رنبیر کپور کے جنم دن پر فلم کا ٹیزر جاری ہوا جسے بعد میں دبئی کے معروف برج خلیفہ پر بھی پیش کیا گیا۔

ورلڈ کپ کے دوران کرکٹ گراؤنڈ میں اور مختلف ٹی وی شوز پر رنبیر کپور فلم کی مسلسل پرموشن کرتے نظر آئے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ارجیت سنگھ کے ساتھ چندی گڑھ میں ایک لائیو میوزک شو بھی کیا۔

اینیمل میں رنبیر کپور ’رن وجے‘ کا کردار ادا کرتے ہیں جس کا تعلق مالدار گھرانے سے ہے۔

وجے کا باپ اپنی کاروباری مصروفیات کے سبب بیٹے کو وقت نہیں دے پاتا اور یوں بچہ بگڑے دل شہزادے کے روپ میں جوان ہوتا ہے۔

رن وجے کی امریکہ میں محبت کی شادی اور بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ ایک دن اطلاع ملتی ہے کہ ان کے والد پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔

رن وجے سب کچھ راکھ کر ڈالنا چاہتا ہے اور اسی جذبے کے ساتھ امریکہ سے اپنے ملک واپس آتا ہے۔ یہ اس کے پرتشدد مزاج کے لیے من پسند مشغلہ ٹھہرتا ہے۔

انیمل میں رنبیر کپور کے مقابلے میں بوبی دیول نے ولن کا کردار ادا کیا جبکہ رشمیکا مندانا نے فلم میں خاتون اداکارہ کا مرکزی کردار نبھایا ہے۔ وجے کے باپ کے لیے انیل کپور کو زحمت دی گئی تھی۔

فلم میں سیکس اور تشدد کا تڑکہ اتنا زیادہ ہے کہ سینسر بورڈ نے اسے محض بالغوں کے لیے اجازت دی۔

فلم نے باکس آفس پر اپنا راج برقرار رکھتے ہوئے سنی دیول کی ’غدر ٹو‘ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جہاں تک پوری دنیا سے ہونے والی کمائی کا تعلق ہے تو اعداد و شمار کے مطابق یہ ’900 کروڑ‘ انڈین روپے کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔

فلم کی مزید کمائی کا فیصلہ 21 دسمبر کو ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی ’ڈنکی‘ اور ’پربھاس‘ کی سالار سے مشروط ہے۔ اگر ان دونوں کا جادو چلا تو ممکنہ طور پر ویک اینڈ تک اینیمل سینیما گھروں سے اتر جائے گی۔

یہ پہلی بار نہیں کہ ہدایت کار سندیپ ریڈی وانگا کو عورتوں کے خلاف نفرت انگیز مواد پیش کرنے پر تنقید کا سامنا ہو۔

اس سے پہلے 2019 میں ریلیز ہونے والی ’کبیر سنگھ‘ بھی پرتشدد مناظر سے لتھڑی ہوئی تھی۔

اس فلم میں اداکارہ کیارا ایڈوانی ایسی خاتون کا کردار ادا کرتی ہیں جو خاموشی سے تشدد سہتی ہے، ایک روایتی فرمانبردار بیوی۔

کیا یہ حقیقت کی عکاسی نہ تھی؟ کیا انڈیا اور پاکستان جیسے معاشروں میں گھریلو تشدد کا شکار بننے والی خواتین ایسا ہی نہیں کرتیں؟

مگر اینیمل ایسی حقیقی صورت حال سے کوسوں دور ہے۔ ایک سین میں بہادر بانکا جوان اپنی محبوبہ سے محبت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے اپنا جوتا چاٹنے کو کہتا ہے۔ کیا یہ بھی حقیقت کی عکاسی ہے؟

ہالی وڈ ہدایت کار کوئنٹن ٹارنٹینو کی ایک بھی فلم پرتشدد مناظر سے خالی نہیں۔ ایسے میں اینیمل کے خلاف اتنا شور کیوں ہے؟

اس کا سبب فلم کی کہانی ہے۔ فکشن اور فلم کی دنیا میں کسی بھی سین کا پس منظر بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اینیمل کی کہانی باپ بیٹے کے تعلق کی کہانی ہے جس میں صنفی امتیاز اور گھریلو تشدد بغیر کسی منطق کے اچانک ٹپک پڑتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے طاقتور کا اپنی طاقت استعمال کرنا غلط نہیں۔ گمان گزرتا ہے مرد ایسا کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ محبت نہیں کرتے۔ ظلم اور تشدد بھی محبت کا حصہ ہے اس لیے اس پہ ڈسٹرب ہونے کی ضرورت نہیں۔

اینیمل کی ریلیز کے بعد ’مسٹر پرفیکٹ‘ کے نام سے مشہور عامر خان کا ایک پرانا انٹرویو بہت سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے انہوں نے یہ باتیں اینیمل اور اس کے ہدایت کار سندیپ ریڈی وانگا کے حوالے سے ہی کی تھیں۔

وہ کہتے ہیں: ’جو ہدایت کار تخلیقی طور پر باصلاحیت نہیں ہوتے کہ وہ کوئی سٹوری تخلیق کریں، جذبات کی عکاسی کریں وہ بہت زیادہ تشدد اور سیکس پر انحصار کرتے ہیں۔ آپ کبھی کبھی اس طرح سے کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن یہ درست نہیں ہے، یہ سماج کے لیے اچھا نہیں ہے۔ یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم فلموں میں کوئی ایسی چیز نہ دکھائیں جس سے دیکھنے والوں پر برا اثر ہو۔‘

کمرشل سینیما ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جہاں ریلیز ہونے والی فلمیں کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں اور بار بار دیکھتے ہیں۔ لوگ متاثر ہو کر بہت سی چیزوں کو اپنی زندگی سے نکالتے اور بہت سی چیزوں سے جڑتے ہیں۔ دوسری طرف انواراگ کیشپ جیسے ہدایت کاروں کا موقف ہے: ’سینیما کا ٹکٹ خریدنا رائے دہی کے مترادف ہے۔ جو بِکے گا وہی بنے گا۔‘

انواراگ کشیپ کی ’گینگز آف واسے پور‘ سے مشہور ہونے والے منوج باجپائی کا بھی ایک نقطہ نظر ہے۔ جب ان سے اینیمل کی باکس آفس کمائی کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ’میں ہمیشہ سے باکس آفس کی جنونیت کے خلاف رہا ہوں۔

’اگر نئی فلم یا پروجیکٹ کی منصوبہ سازی کی جائے تو فلم بنانے اور اس میں کام کرنے والوں کے منہ پر باکس آفس کے اعداد و شمار مار دیے جاتے ہیں۔ اب یہی نمبرز بات چیت کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی فلم نے 100 کروڑ یا اس سے زائد کا بزنس کیا ہے تو وہ بہت اچھی فلم ہے۔‘

سندیپ ریڈی وانگا کے عہد میں منوج باجپائی کی طرح سوچنے والوں کے لیے یہ قابل رحم وقت ہے

متعلقہ خبریں

تازہ ترین