تاریخ کا مطالعہ ہمیں اِس قابل بناتا ہے کہ گردوپیش میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لے کر اُن کے پیچھے چھپی حقیقتوں تک پہنچا جائے اور پھر مستقبل کے حوالے سے ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے جِس کے نتیجے میں انسانی معاشرے پیش آمدہ ناکامیوں سے بچتے ہوئے کامیابی کی منازل طے کریں۔بٕ
مؤقر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون1 کے مطابق امریکہ نے بیالیس(42) سالہ سرد جنگ (1947 تا 1989) کے دوران کم از کم بہتّر(72) مرتبہ دوسرے ممالک کی حکومتیں تبدیل کرنے (Regime Change) کی کوشش کی۔چھیاسٹھ(66) مرتبہ یہ کام خفیہ طور پر جبکہ چھ (6) مرتبہ یہ کام اعلانیہ طور پر کیا گیا۔ ان چھیاسٹھ خفیہ آپریشنز میں سےچھبیس (26) کامیاب رہے جبکہ بقیہ چالیس (40) میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جاسکے۔ امریکی سرپرستی میں برپا ہونے والی بغاوتوں کے دوران بہت سے حکمرانوں کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان میں سےصرف دو(2) حکمرانوں (جنوبی ویتنام کے نگو ڈن ڈیام اور ڈومینکن ری پبلک کے رافیل ٹراجیلو ) کے قتل کی سازش کامیاب ہوسکی۔
باغی گروہوں کو مسلح کرکے اُن کے ذریعے ناپسندیدہ حکومتوں کی تبدیلی کا عمل اتنا کامیاب نہیں رہا اور چھتیس (36) کوششوں میں سے صرف پانچ(5) کوششیں کامیاب رہیں۔ اِس کے مقابلے میں فوجی جرنیلوں کے ذریعے منتخب مقامی حکومتیں تبدیل کرنے کی چودہ (14) کوششیں کی گئیں جن میں سے نو (9) کامیاب رہیں۔امریکہ کی طرف سے حکومتوں کی تبدیلی کا سب سے مؤثر طریقہ الیکشن کے دوران اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کی مالی وسائل، پراپیگنڈہ اور تکنیکی معاونت کے زریعے مدد کرکے اُنہیں کامیاب کروانے کا رہا ہے۔ ایسی سولہ (16) کوششوں میں سے بارہ (12) کوششیں کامیاب رہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جو سب سے آسان، نسبتاً پُرامن اور عوام کے لئے انتہائی پُرکشش ہے کیونکہ اِس عمل کے زریعے چہرے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں، عوام کے دل کی بَھڑاس بھی نکل جاتی ہے اور امریکہ کے وفادار لوگ بھی اقتدار میں آجاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہونے کی اِسی مہارت کے باعث امریکہ دوسرے ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت اورنمائشی الیکشن کا پرزور حامی ہے۔
اگرچہ پوری دنیا کے ملکوں کےمعاملات میں امریکی مداخلت ایک کھلا راز (Open Secret) ہےلیکن مغرب سے مرعوبیت کی وجہ سےسامراجی ممالک کے انسان دشمن کردار سے متعلق کوئی بات ہم تب تک نہیں مانتے اور اسے سازشی نظریہ (Conspiracy Theory) ہی سمجھتے ہیں جب تک کہ مغربی ممالک وہ خود قبول نہ کرلیں یا کوئی گورا، سانولا یا سیاہ فام اُسے انگریزی زبان میں بیان نہ کردے۔
2015ء میں پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ2، 3 لیاقت علی خان کے قتل میں امریکی کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔ 1947ء میں پاکستان کا قیام امریکہ کے ایک حلیف ملک کے طور پر عمل میں آیا تھا، جس نے کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف ہراول دستے (Front Line Partner) کا کردار ادا کرنا تھا۔جون 1949ء میں سوویت یونین کے سربراہ جوزف سٹالن نے پاکستانی وزیر اعظم کو باضابطہ طور پر روس کے دورے کی دعوت دی جسے پاکستان کی طرف سے قبول کرلیا گیا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر دورہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا۔ مئی 1950ء میں لیاقت علی خان امریکہ کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں اُن کا گرمجوشی سے استقبال کیا گيا اور غالب امکان یہی ہے کہ وہاں اُنہیں امریکی کیمپ کا حصہ بنے رہنے کے فوائد اور امریکی کیمپ سے نکلنے کے ممکنہ نقصانات کی یاددہانی کروائی گئی۔امریکی دورے سے واپسی پر جب لیاقت علی خان سے روس کے دورے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ دورے کی تاریخ طے کی جارہی ہے۔لیکن ان کےناگہانی قتل کی وجہ سے یہ دورہ کبھی حقیقت نہ بن سکا۔ لیاقت علی خان کے بعد پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔اگلے سات سال میں چھ وزرائے اعظم اندرونی اور بیرونی محلاتی سازشوں کا شکار ہوکر تبدیل ہوتے رہے اور کوئی لیڈر بھی خارجہ پالیسی میں امریکی بلاک سے نکلنے کی ہمت نہ کرسکا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ڈی کلاسیفائیڈ کی جانے والی دستاویزات کے مطابق ہندوستان کے سفارت خانے نے 30 اکتوبر 1951ء کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں بھوپال میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا ذکر کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو امریکہ نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کروایا کیونکہ اُنہوں نےایرانی تیل کے کنوؤں کے ٹھیکے لینے میں امریکہ کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔اُس زمانے میں پاکستان کے ایران کے ساتھ مثالی تعلقات تھے اور امریکی اِن تعلقات کواپنے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اِس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے اپنی دوستی کاناجائز فائدہ نہیں اٹھاناچاہتااورنہ ہی اُن کے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا۔ اگلے روز امریکی صدرٹرومین کا لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہوا، لیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابلِ خریدہوں اورنہ کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں۔یہ صورت حال امریکہ کے لئے ناقابلِ قبول تھی چنانچہ واشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکی اورافغانی سفارتخانے کوفون کیا گیا تاکہ افغانستان میں قاتلانہ حملے کے لئے مناسب افراد کو تلاش کرکے قتل کا منصوبہ بنایا جاسکےاور لیاقت علی خان کو بقیہ حکمرانوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔باقی جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ذیل میں 2013 ء میں مشہور امریکی رسالے ”فارن پالیسی “ میں شائع ہونے والے ایک مضمون-4 کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے جس میں امریکی سامراج کی طرف سے دوسرے ملکوں کی حکومتوں کی تبدیلی (Regime Change)کے ایسےواقعات کا ذکر کیا گیا ہے جِن میں امریکی مداخلت کا اِعتراف خود امریکی ادارے کرچکے ہیں۔قارئین کی سہولت کے لئے مضمون میں حسبِ ضرورت اضافے کئے گئے ہیں۔ (مترجم)
(مضمون کا متن) : سی آئی اے کی حمایت یافتہ بغاوتوں کا دور1950ء کی دہائی میں ڈرامائی انداز میں شروع ہوا؛ ایک امریکی جنرل ایران کے ہوائی اڈے پر اترکر”پرانے دوستوں (old folks)“سے ملتا ہےاور کچھ ہی دن بعد، شاہ ِایران منتخب وزیر اعظم محمد مُصدق کو عہدہ چھوڑنے کا حکم دے دیتا ہے۔ جب ایرانی فوج ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے تو مُصدق کے حامیوں کو خریدنے اور سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کی مالی اعانت کے لیے لاکھوں ڈالر تہران میں بھیجے جاتے ہیں۔ مظاہروں میں شدت آنے کے بعد بالآخر ایرانی فوج، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ طاقت کا توازن بدل گیا ہے، وزیر اعظم کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے، جو بقیہ زندگی گھر میں نظر بند رہ کر گزاردیتا ہے۔ سی آئی اے کی اپنی دستاویزات کے مطابق، یہ ”شروع سے آخر تک ایک امریکی آپریشن“اور 20ویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران، دنیا بھر میں امریکی سرپرستی میں اقتدار کی تبدیلی کے لئے کی جانے والی بغاوتوں میں سے ایک اہم اور کامیاب بغاوت تھی۔
کئی ملکوں کے سربراہان، جن میں فوجی آمر اور جمہوری طور پر منتخب ہونے والے حکمران شامل ہیں، امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دوران مشکلات سے دوچاررہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس میں بالآخر انہیں اپنے عہدے (اور، کچھ کے لیے، ان کی زندگی) کی قیمت اُس وقت چکانی پڑی جب سی آئی اے نے ”اپنے آدمی“کو ریاست کے سربراہ کے طور پر نصب (install) کرنے کی کوشش کی۔ امریکی حکومت نےوقتاً فوقتاً اِن میں سے کچھ خفیہ کارروائیوں کا عوامی طور پر اعتراف کیا ہے۔ درحقیقت، 1953 کی ایرانی بغاوت میں سی آئی اے کے کردار کو ابھی اِسی ہفتے(اگست 2013ء) ڈی کلاسیفائی کیا گیا ہے۔ جبکہ بہت سےدیگر ملکوں کے معاملات میں سی آئی اے کی مداخلت اب بھی سرکاری کاغذات ڈی کلاسیفائی ہونے کی منتظر ہے۔
آئندہ مضمون میں خفیہ امریکی مداخلت کے زریعے حکومتوں کے تبدیلی کے سات ایسے کامیاب واقعات کا حال بیان کیا جارہا ہے جن کی روشنی میں ہم آج کے دور میں دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والی سیاسی افراتفری میں امریکی کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ یہاں ایسی ناکام بغاوتوں کا جان بوجھ کر ذکر نہيں کیا جارہا جو امریکہ کی طرف سے ناپسندیدہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی مداخلت اور حکمرانوں کے قتل کی کوششوں پر مبنی ہیں، جیسا کہ کیوبا کے مشہور رہنماء فیڈل کاستر کو بارودی سگار کے زریعے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ آج بھی، دنیا میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی کے باوجود، سازشی نظریات (conspiracy theories) اِس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اور فوجی حمایت یافتہ مصری حکومت دونوں امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مصر میں حکومتیں بنانے اور گرانےمیں شریک ہیں۔
عالمی سطح پرسی آئی اے کی سرپرستی میں منعقد کی جانے والی بغاوتوں کی ایک مختصر اور مستند تاریخ ذیل میں بیان کی جارہی ہے۔
1۔ ایران، 1953: اگرچہ شام میں فوجی حکومت کے قیام کے لیے 1949ء کی بغاوت میں سی آئی اے کے کردار کے بارے میں آج بھی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں اور فی الحال اس بارے میں ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، لیکن ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کی معزولی سرد جنگ کے دوران ایسی اولین بغاوت ہے جسے امریکی حکومت نےباقاعدہ تسلیم کیا ہے۔ 1953ء میں، ایرانی وزیر اعظم محمد مصدق کی وزارت عظمیٰ کو دو سال گزر چکے تھے، اِس دوران مصدق، امریکہ کے وفادار شاہِ ایران کی مرضی کے برخلاف ایرانی تیل کی صنعت کو قومیا(Nationalize) چکا تھا جو اِس سے پہلے برطانوی کمپنیوں کے قبضے میں تھی۔ عالمی سرمایہ دار طاقتوں کے خلاف اِس جرم کی پاداش میں مصدق کو عہدے سے زبردستی ہٹا کر گرفتار کر لیا گیا۔مصدق نے اپنی بقیہ زندگی گھر میں نظر بند گزاری۔
سی آئی اے کی حال ہی میں شائع کردہ دستاویزات کے مطابق، ”اگر ایران میں شاہِ ایران کے زریعے مداخلت نہ کی جاتی تو ایران کا سوویت کیمپ میں چلے جانے کا کھلا امکان موجود تھا – ایک ایسے وقت میں جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ؛ کوریا، سوویت یونین اور چین کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ میں ملوث تھا، امریکہ کے پاس اِس کے علاوہ کوئی متبادل موجود نہیں تھا کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی کے آپریشن(جس کا خفیہ نام آپریشن TPAJAX تھا) کو تیار اور مکمل کیا جائے۔“ مصدق کو ہٹانے کے بعد اگلے چھبیس سا ل تک شاہ ِایران، ایران کا بلا شرکتِ غیرے حکمران اور خطے میں امریکی مفادات کا نگران بنا رہا یہاں تک کہ 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں عوامی انقلاب نے اُسے اقتدار چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔
2۔ گوئٹے مالا، 1954: گوئٹے مالا، براعظم شمالی امریکہ کے وسط میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے جو بیسویں صدی کے آغاز سے یونائٹڈ فروٹ کمپنی اور امریکی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے سیاسی بدامنی کا شکارتھا۔ 1930ء کی دہائی میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی گوئٹے مالا سمیت براعظم جنوبی امریکہ کے درجنوں ممالک میں لاکھوں ایکڑ زمین پر قابض ہوکر اپنی مرضی کی حکومتیں بنوا رہی تھی اور اُن ملکوں کے عوام کابدترین معاشی استحصال کررہی تھی۔ ایک فروٹ کمپنی کا اتنا طاقتور ہونا کہ وہ ملکوں کی حکومتوں کو بنا اور گرا سکے، یہیں سے بنانا ری پبلک (Banana Republic) کی اصطلاح وجود میں آئی۔
اگرچہ ریاستہائے متحدہ ابتدائی طور پر گوئٹے مالا کے صدر جیکوبو آربینز کا حامی تھا اور امریکی محکمہ خارجہ کا خیال تھا کہ امریکی تربیت یافتہ فوج کے ذریعے آربینز کا عروج ایک امریکہ کےلئے ایک اثاثہ (Strategic Asset)ثابت ہو گا، لیکن تعلقات میں اُس وقت تناؤ پیدا ہونا شروع ہوا جب آربینز نے زرعی اِصلاحات کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا جس میں امریکی ملکیت کی حامل یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کے کاروباروی مفادات کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ 1954ء میں امریکہ کی سرپرستی میں ایک فوجی بغاوت نے آربنز کو اقتدار چھوڑ دینے پر مجبور کردیاگیااور امریکی حمایت یافتہ فوجی جنتا ملک کی حکمران بن گئی۔ اگلے چھتیس(36) سال تک گوئٹے مالا فوجی حکمرانوں اور بائیں بازو کے حریت پسندوں کے درمیان جاری خانہ جنگی کا شکار رہا۔ گوئٹے مالا کے رہنما کی بے دخلی میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کی خفیہ دستاویزات 1999ء میں منظر عام پر آئیں جن کے مطابق گوئٹے مالا میں حکمران کی تبدیلی کے لئے سی آئی اے کے مشن میں باغیوں اور نیم فوجی دستوں کو لیس کرنا شامل تھا جب کہ دوسری طرف امریکی بحریہ نے گوئٹے مالا کے ساحل کی ناکہ بندی کردی تاکہ گوئٹے مالا کی جمہوری حکومت اپنے کسی حلیف ملک سے کوئی مدد حاصل نہ کرسکے۔
3۔ کانگو، 1960: کانگو (جسے اب عوامی جمہوریہ کانگو کہا جاتا ہے)، براعظم افریقہ کا رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہےجو 1870ء سے لے کر 1960ء تک بلجیم (Belgium)کی نوآبادیات (کالونی)رہا۔ اِس عرصے کے دوران کانگو کے معدنی وسائل(خصوصاً ربڑ) کو بے دردی سے لوٹا گیا اور ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد کانگو کے باشندوں کو یورپی قابض طاقت نے قتل کیا۔ 1960ء میں کانگو کو آزادی ملی لیکن ملک کے پہلے وزیر اعظم پیٹریس لومومبا کو صدر جوزف کاسابو نے بلجیم کی فوجی مداخلت (جسے امریکہ کی حمایت اورسرپرستی بھی حاصل تھی) کے دوران عہدے سے ہٹا دیا۔ اِس فوجی مداخلت کی وجہ یہ تھی کہ کانگو کی نوآبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد نیشلائزیشن کے نتیجے میں بلجیم کے کاروباری مفادات کوسنگین خطرات لاحق ہوگئے تھے جس کے ردعمل کے طور پر بلجیم نے ایک جارحانہ مداخلت کے زریعے عوامی حکمران کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔
دوسری طرف لومومبا نے سوویت یونین کے تعاون سے بلجیم کی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھی۔ جلد ہی سی آئی اے نےلومومبا کی مزاحمت کو جوزف موبوتو کی نئی حکومت کے لیے خطرہ قرار دے کر اُس کے قتل کا ہدف طے کرلیا۔ 1975ء میں گیارہ امریکی سینیٹرز کی نگرانی میں چرچ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد امریکی انٹیلی جنس اداروں کی خفیہ کارروائیوں کا جائزہ لینا تھا۔ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق سی آئی اے نے کانگوکے ایسےشدت پسند گروہوں کی سرپرستی کی جو لومومبا کے قتل کے خواہش مند تھے۔ لومومبا کو ایک زہر آلود رومال کے زریعے قتل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد، سی آئی اے نے کانگو کی فوج کو لومومبا کےجائے مقام اور اُسے گرفتار کرنے کے طریقہ کار سے متعلق رہنمائی فراہم کی۔ بالآخرامریکی آشیرباد سے کانگو کی فوج نے لومومبا کو 1960ءکے اواخر میں گرفتار کرلیا اور اگلے سال جنوری میں اُسے قتل کردیاگیا۔
4۔ ڈومینکن ری پبلک، 1961: ڈومینکن ری پبلک براعظم امریکا کے خطے کیریبین (Caribbean) کا ایک جزیرہ نما ملک ہے جو تین سو سال تک سپین کی کالونی رہا۔ 1916ءسے 1924ءتک، ریاست ہائے متحدہ امریکہ یہاں براہ ِراست قابض رہا۔آزادی کے اگلے چھ سال تک ڈومینیکن ری پبلک میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ رہا۔1930ء میں امریکی تربیت یافتہ جرنیل رافیل ٹروجیلو نےفوجی بغاوت کردی اور1961ء تک ڈومینکن ری پبلک کا بلا شرکت غیرے حکمران رہا۔ اُس کے دورِ حکومت میں ہزاروں ہیٹیوں (Haitians) کی نسل کشی کی گئی اور وینزویلا کے صدر کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
اپنی حکومت کے آخری سالوں میں ٹروجیلو امریکی سامراج کی نظر میں کھٹکنے لگا اور اُس کے مسلح سیاسی مخالفین نے امریکی سرپرستی میں اسے گھات لگا کر ماردیا۔ اگرچہ ٹرجیلو کو گولی مارنے والے بندوق بردار نےاپنے بیان میں برقرار رکھا کہ ”مجھے کسی نے نہیں کہاتھا کہ جاکر ٹروجیلو کو مارو“، لیکن حقیقت میں اُسے سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔ چرچ کمیٹی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے صورتِ حال سے مکمل طور پر آگاہ تھی اور اُس نے حملہ آوروں کو اسلحہ اور دَرپردہ ٹریننگ فراہم کی۔
5۔ جنوبی ویتنام، 1963: ویتنام جنوب مشرقی ایشیاء کا ایک اہم ملک ہے جس پر قبضے کے لئے ریاستہائے متحدہ امریکہ نے1955ء سے لے کر 1975ءتک تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑی۔ 1963ء میں امریکہ، جنوبی ویتنام کے سیاسی معاملات میں مداخلت میں مصروف تھا اور ملک کے رہنمانگو ڈن ڈیام Ngo Dinh Diem کے ساتھ اس کے تعلقات تیزی سے کشیدہ ہوتے جا رہے تھے جس کی ایک وجہ بدھسٹ مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن بھی تھی۔ پینٹاگون پیپرز کے مطابق، 23 اگست 1963 کو، جنوبی ویتنام کے جرنیلوں نے بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کے دوران اپنے منصوبے کے بارے میں امریکی حکام سے رابطہ کیا۔ تفصیلات طے ہوجانے کے بعد ویتنامی جرنیلوں نے امریکی تعاون سے یکم نومبر 1963ء کونگوڈن ڈیام کو گرفتار کرکے مار ڈالا۔ امریکی تعاون کی ایک شکل وہ چالیس ہزار ڈالرز بھی تھے جو سی آئی اے کے فنڈز کے نام پر ویتنامی فوج اور ڈیام کے مخالفین میں تقسیم کئے گئے۔
پینٹاگون پیپرز میں کہا گیا ہے کہ ڈیام کے خلاف فوجی بغاوت کے لیے، امریکہ کو اپنی ذمہ داری کا پورا حصہ قبول کرنا چاہیے۔اگست 1963ء کے آغاز سے ہم نے ویتنامی جرنیلوں کی بغاوت کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کی اور ڈیام کے متبادل کے طور پر نئی آنے والی (فوجی) حکومت کو مکمل تعاون کی پیشکش کی۔ ہم نے بغاوت کی منصوبہ بندی سے لے کر اُس پر عمل درآمد اور پھر منصوبے کی تکمیل تک فوجی بغاوت برپا کرنے والی طاقتوں کے ساتھ خفیہ رابطہ رکھا، اُن کے آپریشنل منصوبوں کا جائزہ لے کر مفید تجاویز دیں اور نئی حکومت کے خدوخال تجویز کئے۔
6۔ برازیل، 1964ء:برازیل، برِاعظم جنوبی امریکہ کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک ہے اِس لئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سامراجی مفادات کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ساٹھ کی دہائی ميں برازیل میں امریکی سفیر لنکن گورڈن نے اِس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر حالات اپنی ڈگر پر قائم رہے تو برازیل کے صدر جوآؤ گولارٹ کی حکومت برازیل کو 1960ء کی دہائی کا سوشلسٹ چین بنا دے گی۔ چنانچہ امریکہ نے 1964ء میں برازیل کے فوجی جرنیل ہمبرٹو کاسٹیلو برانکو کی قیادت میں فوجی بغاوت کی سرپرستی کی۔
فوجی بغاوت کے برپا ہونے سے پہلے سی آئی اے نے سڑکوں پرجمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی جلسے جلوس بھی منعقد کروائے اور فوج کی حمایت کرنے والے گروہوں کو اسلحہ، ایندھن اور مالی امداد بھی فراہم کی۔ امریکی حکومت کی طرف سے ڈی کلاسیفائی کی گئی دستاویزات کے مطابق اُس وقت کے امریکی صدر لنڈن جانسن نے فوجی بغاوت سے پہلے اپنے مشیران کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گولارٹ کی حکومت کے خاتمے کے لئے ہر حد تک جانا چاہئے اور ہر طرح کے ہتھکنڈوں کے استعال کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ اِن ساری کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے اِکیس سال، یعنی 1985ء تک برازیل پر امریکی حلیف فوجی جنتا کا آمرانہ قبضہ برقرار رہا۔
7۔ چِلی، 1973ء: چِلی، براعظم جنوبی امریکا کا ایک اہم ملک ہے جو کہ تین سو سال سپین کی کالونی بنا رہا۔بیسویں صدی میں چِلی سمیت پورا جنوبی امریکاسوشلسٹ تحریکوں کا مرکزتھا جس کے نتیجے میں وہاں کی عوام میں سامراج سے آزادی اور اپنے معاشی حقوق کا شعور پیدا ہورہا تھا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کبھی بھی یہ نہيں چاہتا تھا کہ 1970ء کے دوران چِلی میں ہونے والے انتخابات میں سوشلسٹ امیدوار سالواڈور اِلانڈے صدر منتخب ہوجائیں۔اِس مقصد کے لئے امریکی صدر نکسن نے سی آئی اے کوایسے اقدامات کرنے کو کہا جس سے چِلی کی معیشت تباہ وبرباد ہوجائے۔ لیکن اِن سارے اقدامات کے باوجود، عوامی مقبولیت کی بدولت اِلانڈے چِلی کے صدر منتخب ہوگئے۔
امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے سی آئی اے نے چلی کے تین گروہوں کے ساتھ مل کر اِلانڈے کا تختہ الٹنے کے لئے کام کیا اور انہیں اسلحہ بھی فراہم کیا، لیکن جلد ہی سی آئی اے اِن پراکسی(proxy) گروہوں کی افادیت سے متعلق مایوس ہوگئی۔اگلے مرحلے میں امریکہ نے چِلی کی معیشت کو کمزوررکھنےکے لئے اقدامات جاری رکھے یہاں تک کہ 1973ء میں جنرل آگسٹو پنوشے نے جمہوری طور پر منتخب صدر اِلانڈے کا تختہ الٹ دیا۔ سی آئی اے کی طرف سے شائع کردہ دستاویزات اِس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ اِس سارے فوجی آپریشن کو سی آئی اے کی سرپرستی اور آشیرباد حاصل تھی۔ سی آئی اے نے دنیا میں جنرل پنوشے کا مثبت تعارف پیش کرنےکے لئے ایک پراپیگنڈا کمپین بھی چلائی حالانکہ جنرل پنوشے اپنے سیاسی مخالفین کو قتل کرنے اور منظر عام سے ہٹانے جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث تھا۔
مذکورہ بالا واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم آج کے دور میں اپنے اردگرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو ان کے درست تناظر میں سمجھ سکتے ہیں۔