نئی دہلی(انصاف نیوز آن لائن)
CBSE نے کلاس 11 اور 12 کی تاریخ اور سیاسیات کے نصاب سے ناوابستہ تحریک، سرد جنگ کے دور، افریقی ایشیائی خطوں میں اسلامی سلطنتوں کا عروج، مغل دور اقتدار کی تاریخ اور صنعتی انقلاب کے باب کو نصاب سے نکال دیا ہے۔
اسی طرح دسویں جماعت کے نصاب میں ‘فوڈ سیکیورٹی’ اور”زراعت پر عالمگیریت کے اثرات” کا موضوع بھی ہٹادیا ہے۔اس کے ساتھ ہی فیض احمد فیض کی اردو میں دو نظموں کے ترجمہ شدہ اقتباسات ‘مذہب، فرقہ واریت اور سیاست فرقہ واریت کا چیپٹر بھی نصاب سے ہٹادیا ہے۔
سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے ‘جمہوریت اور تنوع’ کے عنوان کا موضوع اب نصاب کا حصہ نہیں رہے گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ عنوانات یا ابواب کو چھوڑے جانے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ عہدیداروں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں نصاب کی معقولیت کا حصہ ہیں اور نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) کی سفارشات کے مطابق ہیں۔
کلاس 11 کے تاریخ کے نصاب میں چھوڑا گیا باب ‘ افریقی ایشیائی خطوں میں اسلامی سلطنتوں کے عروج اور معیشت اور معاشرے پر اس کے اثرات کے بارے میں بات کرتا ہے، پچھلے سال کے نصاب میں یہ حصہ تھا۔
اس باب میں اسلام کے ظہور، خلافت کے عروج، اور سلطنت کی تعمیر کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اسی طرح، 12ویں جماعت کے تاریخ کے نصاب میں، ‘دی مغل کورٹ: تاریخ کی تشکیل نو’ کے عنوان سے چھوڑے گئے باب میں مغلوں کی سماجی، مذہبی اور ثقافتی تاریخ کی تشکیل نو کے لیے مغل درباروں کی تاریخ کا جائزہ لیا گیا تھا۔
2022-23 کے تعلیمی سیشن کے لیے اسکولوں کے ساتھ شیئر کیے گئے نصاب میں پچھلے سال دو میعادی امتحان کے سیشن میں ایک ہی بورڈ کے امتحان میں واپس جانے کے بورڈ کے فیصلے کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ دو ٹرم امتحانات کا اعلان کوویڈ وبائی امراض کے پیش نظر ایک وقتی خصوصی اقدام کے طور پر کیا گیا تھا، بورڈ کے عہدیداروں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ حتمی کال کی جائے گی۔
بورڈکے ایک اہلکار نے کہا کہ ”سی بی ایس ای سالانہ 9 سے 12 تک کی کلاسوں کے لیے نصاب فراہم کرتا ہے جس میں تعلیمی مواد، امتحانات کا نصاب سیکھنے کے نتائج، تدریسی طریقوں اور تشخیصی رہنما خطوط پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسٹیک ہولڈرز کے تاثرات اور دیگر مروجہ حالات پر غور کرتے ہوئے، بورڈ تشخیص کی سالانہ اسکیم کے انعقاد کے حق میں ہے۔ تعلیمی سیشن 2022-23 کا اختتام، اور اس کے مطابق نصاب تیار کیا گیا ہے۔
تاہم، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بورڈ نے نصاب سے بعض ایسے ابواب کو خارج کیا ہے جو دہائیوں سے نصاب کا حصہ ہیں۔ نصاب کو منطقی بنانے کے اپنے فیصلے کے ایک حصے کے طور پر، سی بی ایس ای نے 2020 میں اعلان کیا تھا کہ 11 ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں وفاقیت، شہریت، قوم پرستی اور سیکولرازم کے بابوں پر غور نہیں کیا جائے گا، اس پر ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔تاہم یہ موضوعات 2021-22 کے تعلیمی سیشن میں بحال ہوئے اور نصاب کا حصہ رہے۔
سی بی ایس ای کی دسویں جماعت کے لیے حکومتی ادارہ این سی ای آر ٹی کی طرف سے شائع کردہ سماجیات کی نصابی کتاب میں ”مذہب، فرقہ پرستی اور سیاست‘‘کے عنوان کے تحت مضمون میں فیض احمد فیض کی دو نظموں کے اشعار اور ان کے انگریزی ترجمے شامل تھے۔ طلبہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔ لیکن نئے تعلیمی نصاب میں ان کو حذف کردیا گیا ہے۔
سی بی ایس ای کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دسویں جماعت کے لیے سماجیات کے کورس میں مذہب، فرقہ پرستی اور سیاست کا مضمون تو رہے گا لیکن صفحہ نمبر 46،48 اور 49پر شائع تصویریں نکال دی جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر فیض کے اشعار پر مشتمل ایک پوسٹر کی تھی جسے سماجی تنظیم ‘انہد’نے تیار کیا تھا۔ دوسرا شعر صحت کے حوالے سے بیداری مہم چلانے والی ایک ملک گیر تنظیم نے اپنے پوسٹر میں استعمال کیا تھا۔ ایک اور تصویر معروف کارٹونسٹ اجیت نینان کے کارٹون کی تھیں جو انگلش روزنامے ‘ٹائمز آف انڈیا’ سے مستعار تھی۔
فیض نے اپنی نظم ‘آج بازار میں پابہ جولاں چلو’ اس وقت کی پاکستان کی فوجی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 1959میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دورمیں فیض کو لاہور جیل سے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر ایک ٹانگے کے ذریعہ ایک ڈینسٹسٹ کے پاس لے جایا جارہا تھا۔ وہ اسی راستے سے گزررہے تھے جو عام دنوں میں استعمال کرتے تھے۔ راستے میں لوگوں نے انہیں پہچان لیا اور ان کے ٹانگے کے پیچھے دوڑ پڑے۔اس سے متاثر ہوکر انہوں نے یہ نظم لکھی تھی۔
دوسرا شعر”ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ نظم کے ہیں۔ فیض پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک وجود میں آنے کے تین برس بعد 1974میں ڈھاکہ گئے تھے۔ اور وہاں سے واپسی پر انہوں نے یہ نظم لکھی تھی۔جس کے اشعار ”ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد‘‘ کے اشعار اور اس کا انگریزی ترجمہ کتاب میں شامل تھے۔
فیصلے کی نکتہ چینی
این سی آر ٹی کی کتاب سے فیض کے اشعار کو حذف کرنے کے سی بی ایس ای کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے۔بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ آکار پٹیل نے اس فیصلے کو ‘گھٹیا‘ قرار دیا۔ تاریخ دان ادوید نے ٹوئٹ کرکے کہا فیض نے پاکستان کے ایک آمر کے خلاف جو لکھا تھا بھارت نے اسے 63 برس بعد حذف کردیا۔
بھارتی صحافی صبا نقوی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ”ایک وقت تھا جب پاکستان نے فیض پر پابندی عائد کردی تھی اور وہ بھارت سمیت دنیا کے کسی ملک میں پناہ لینا چاہتے تھے۔میں بچپن میں ان سے ملی تھی۔ وہ آج کے بھارت کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
مصنف من امن سنگھ چنّا نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ”فیض نے یہ اشعار پاکستان کے ایک آمر حکومت کے خلاف لکھی تھیں۔ آج ہم ایک دوسرے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘
سی بی ایس ای کیا ہے؟
سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) بھارت میں سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں کے قومی سطح کا بورڈ ہے۔ بھارت میں تقریباً 26054 اسکول اور 28غیر ممالک کے 240اسکول اس بورڈ سے ملحق ہیں۔
سی بی ایس ای کی ویب سائٹ کے مطابق سال 2021 میں دسویں جماعت کے لیے 21.5 لاکھ سے زائد طلبہ نے اس بورڈ کے تحت امتحانات کے لیے اندراج کرایا تھا۔
سی بی ایس ای سے ملحق تمام اسکولوں میں بالخصوص نویں سے بارہویں جماعت تک این سی ای آر ٹی (نیشنل کاونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ) کا تیار کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
Bangladesch Faiz International Festival in Lahore
فیض کی دونوں نظمیں یہاں پڑھ سکتے ہیں:
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی
تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
٭٭٭
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد