Saturday, November 9, 2024
homeہندوستاندہلی کی 30 فیصد شہری آبادی 'غیر قانونی کالونیوں پر مشتمل

دہلی کی 30 فیصد شہری آبادی ‘غیر قانونی کالونیوں پر مشتمل

جہانگیر پوری میں انہدامی کارروائی کے بعد دہلی میں ‘غیر قانونی کالونیوں‘ کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ سپریم کورٹ نے آج جمعرات اکیس اپریل کے روز اس بات پر سخت ناراضی ظاہر کی کہ عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود جہانگیر پوری میں مکانات اور دکانوں کا انہدام روکا کیوں نہیں گیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا، ”ہم اس بارے میں سنجیدگی سے کارروائی کریں گے۔‘‘

متاثرین کے مطابق انہدامی کارروائی سے قبل نہ تو انہیں کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی وہاں سے اپنا سامان نکالنے کا کوئی موقع مہیا کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ شہر کی میونسپل کارپوریشن نے یہ کارروائی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے اشارے پر اور اس کے رہنماؤں کو ‘خوش کرنے کے لیے‘ کی۔ گزشتہ اتوار کے روز رام نومی کے موقع پر جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

ان سب کے درمیان بھارت کے قومی دارالحکومت دہلی میں غیر قانونی کالونیوں (unauthorised colonies) کا مسئلہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دہلی کی شہری آبادی کا 30 فیصد سے زائد حصہ غیر قانونی رہائشی بستیوںں میں رہتا ہے۔ یہ غیر قانونی کالونیاں غیر منصوبہ بند انداز میں بسائی جانے والی ایسی آبادیاں ہیں، جو نہ تو ترقیاتی ماسٹر پلان میں شامل ہوتی ہیں اور نہ ہی رہائشی زمینوں کے دائرے میں آتی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ دیہی یا زرعی زمینیں تھیں جو پلاٹوں میں تقسیم کر کے فروخت کردی گئیں اور ان پر مکانات کی تعمیرکے دوران ضابطوں اور قوانین کا زیادہ تر خیال نہ رکھا گیا۔ سرکاری طور پر ایسی زمینوں پر رہائشی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی تاہم ایسے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ‘کور اربن‘ کی شریک بانی اور ڈائریکٹر ریتو کٹاریا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”دہلی میں غیر قانونی رہائشی کالونیوں کا سلسلہ ملک کی آزادی کے بعد ہی شرو ع ہو گیا تھا۔ مہاجرین کی آمد،مکانات کی بڑھتی ہوئی مانگ، زمین کی اونچی قیمتیں اور مناسب رہائشی سہولیات کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی زمینوں کے مالکان نے اپنی زمینیں ‘پاور آف اٹارنی‘ کے ذریعے فروخت کرنا شروع کر دی تھیں۔ ان زمینوں پر لوگوں نے کسی بھی تعمیراتی منصوبے یا نقشے کے بغیر اپنی اپنی خواہش کے مطابق مکانات کی تعمیر شرو ع کردی، جن میں نہ تو صفائی ستھرائی کا کوئی نظم تھا اور نہ ہی سڑکوں یا دیگر بنیادی سہولتو ں کا کوئی خیال رکھا گیا تھا۔‘‘

ریتو کٹاریا نے کہا، ”گوکہ ان کالونیوں کی حالت کچی بستیوں سے قدرے بہتر ہے لیکن ان کی قانونی حیثیت بالخصوص مالیاتی اور رہن سہن کے معاملات پر بہرحال کئی سوالیہ نشان لگے ہیں۔‘‘ خیا ل رہے کہ بھارتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ایسی غیر قانونی کالونیوں میں مکانات کی تعمیر یا ان کی خریداری کے لیے قرض دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

دہلی میں 1797غیر قانونی کالونیاں
بھارت کی وزارت برائے شہری ترقی کی سن 2019ء میں جاری کردہ فہرست کے مطابق دہلی میں 1797 کالونیاں غیر قانونی ہیں۔ ان میں سینک فارم، فریڈم فائٹرز انکلیو، وسنت کنج انکلیو، سیدالعجائب ایکسٹینشن اور چھترپور جیسی 69 ایسی کالونیاں بھی شامل ہیں، جہاں زیادہ تر اشرافیہ رہتی ہے۔

ماہرین کے مطابق دہلی کا کوئی بھی قانون متاثرہ فریقین کو پیشگی اطلاع کے بغیر کسی سرکاری ایجنسی کو مکانات یا تعمیراتی ڈھانچے کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ نے بھی سن 2017ء میں اپنے ایک فیصلے میں اس کی توثیق کی تھی۔ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی روشنی میں سنایا گیا تھا۔

ضابطوں کے مطابق سرکاری حکام کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ انہدام کیوں ناگزیر ہے۔ نیز یہ دھیان بھی رکھا جائے کہ اس کے نتیجے میں متاثرین بے گھر نہ ہونے پائیں یا رہائش کے ان کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے۔

یہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے
دہلی میں غیر قانونی کالونیوں کا معاملہ سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر اسمبلی انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں ایسی کالونیوں کو ‘ریگولرائز‘ کرنے کے وعدے ضرور کرتی ہیں اور ان پر عمل نہ کرنے کے لیے دوسرے کو موردا لزام ٹھہراتی رہتی ہیں۔ دہلی میں آخری مرتبہ سن 1977 میں 567 کالونیوں کو ‘ریگولرائز‘ کیا گیا تھا۔

ریتو کٹاریا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مختلف اسباب کی بنا پر غیر قانونی کالونیوں کا انہدام کوئی مناسب متبادل نہیں ہے، کیونکہ یوں ایک طرف اگر وسیع تر اقتصادی نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ عمل بنیادی انسانی حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

تازہ ترین