Thursday, December 26, 2024
homeہندوستاناگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج ہندوستان میں ایک بھی...

اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو زندہ نہ رہتا : کرناٹک کے سابق اسپیکر رمیش کمار

انصاف نیوز آن لائن
بنگلور/ نئی دہلی: آر ایس ایس اور فرقہ پرست طاقتیں بار بار پروپیگنڈہ کرتی رہیں ہے کہ برصغیر میں اسلام کی ترویج واشاعرت تلوار کے ذریعہ ہوئی ہے ۔ کرناٹک کے سابق اسپیکر کے آر رمیش کمار نے کہا کہ اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج اس ملک میں ایک بھی ہندو زندہ نہ رہتا۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت 800 سالوں پر محیط تھی۔ کمار سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی کی کتاب’’دی پاپولیشن میتھ‘‘کے رسم اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں آئین ہند کو کمزور کر رہی ہیں۔
بنگلور میں منعقد ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے ،سابق اسپیکر اور پانچ مرتبہ کے کانگریس کے ایم ایل اے ، کمار نے کہا کہ اگر مسلم حکمرانوں نے اپنے 800 سالہ دور حکومت میں اس ملک میں زبردستی اسلام پھیلایا ہوتا تو ایک بھی ہندو نہ ہوتا ۔انہوں نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹا پروپیگنڈا ہے جس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم حکمرانی کی تاریخ اور ملک کی ترقی میں ان کی شراکت کو مٹانےکی کوشش کی جا رہی ہے۔مسلمانوں نے اس ملک کی ترقی کے لیے جو حصہ ڈالا ہے اسے لوگوں کے ذہنوں سے مٹایا جا رہا ہے اور تاریخی حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے اور لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں نے زبردستی اسلام پھیلایا ہے۔
کمار 25 مئی 2018 سے 29 جولائی 2019 تک کرناٹک قانون ساز اسمبلی کے 16 ویں اسپیکر تھےانہوں نے 2019 میں کانگریس اور جے ڈی (ایس) کے 17 باغی ایم ایل اے کو نااہل قرار دیا تھا۔ وہ ایوان میں کولار ضلع کے سرینواسپور اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
آبادی میں اضافے سے متعلق قریشی کی کتاب کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ کتاب مسلم آبادی میں اضافے کے دھماکے کے پروپیگنڈے کا مناسب جواب فراہم کرتی ہے کہ مسلمان مستقبل میں ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔
کمار کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کرناٹک کے سابق وزیر ڈاکٹر ایچ سی مہادیوپا نے بھی انہی خطوط پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم حکمرانوں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انہوں نے طاقت کے ذریعے اسلام پھیلایا اس کی کوئی بنیاد اور تاریخی حقائق نہیں ہیں۔
مسلمانوں نے اس ملک پر 800 سال حکومت کی اس کے بعد 200 سال بعد تک برطانیہ نے حکومت کی ، لیکن اس عرصے میں ہندوستان کو اسلامی ریاست یا عیسائی ریاست قرار دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔واضح رہے کہ مسلم حکمرانی کے طویل عرصے کے باوجود ہندوستان میں 80 فیصد غیر مسلم آبادی ہے جن میں ہندو ، آدیواسی (قبائلی) ، دلت ، بدھ مت ، جین ، لنگیاٹ ، سکھ اور دیگر شامل ہیں۔
ڈاکٹر مہادیوپا نے کہا کہ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی کہا جا رہا ہے کہ ملک ہندو راشٹر میں تبدیل ہو جائے گا۔ تاہم ، انہوں نے کہا کہ عام ہندوستانی ، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان دونوں مل کر اور پرامن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں لیکن مٹھی بھر لوگ ، اپنے مفاد ات کو پورا کرنے کے لیے ، نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان قوتوں کو مؤثر طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔کمار نے ان قوتوں کو روکنے کے لیے ایک مشترکہ کوشش شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
بدقسمتی سے آج ان قوتوں نے مرکز اور کئی ریاستوں پر قبضہ کر لیا جو کہ منووادی سوچ (ذات کی بالادستی) کی نمائندگی کرتی ہیں اور معاشرے کے کمزور طبقات پر حاوی ہو کر صرف ایک طبقے تک اقتدار کو محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ .
اس موقع پر کتاب کے مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر قریشی نے اپنے کام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے پر دائیں بازو کی طرف سے بڑھتی ہوئی بیان بازی ہو رہی ہے اور اس بیان بازی نے کئی خرافات کو جنم دیا ہے ، آبادی کے اکثریتی طبقے کوخوف زدہ کردیا ہے۔ڈاکٹر قریشی نے کہا کہ میں نے کتاب میں تجرباتی شواہد اور حکومتی اعداد و شمار کے ذریعہ اس پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔۰یہ ہندوستان کی پہلی ایسی کتاب ہے جو مذہبی عینک سے ملک کی آبادی کا جائزہ لیتی ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین