نوراللہ جاوید
27جنوری ہندوستان کی پہلی ’مسلح کسان تحریک ‘کے قائد سید میر نثار علی المعروف’شہید تیتو میر‘ کی یوم پیدائش ہے۔یہ دن بھی گزر گیا، مگر کہیں بھی کسی نے بھی تیتو میر کی شہادت اور استعماریت و زمیندارں کے مظالم کے خلاف ان کی بہادری کو یاد کرنے ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔قوت وفکر اور جذبہ عمل سے عاری بنگال کےمسلم معاشرہ نے گزشتہ چند مہینوں میں’’پارٹی قیادت‘‘ کی ہدایت پر کلکتہ کے مسلم علاقوں میں ’’سوامی ویکانند‘‘ بی آر امبیڈکر، نیتاجی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش کو بہت ہی دھوم دھام سے منایا۔اس درمیان مولانا ابوالکلام آزاد،بیگم رقیہ اور اب سید میر نثار علی عرف تیتو میر کی یوم پیدائش بھی آئی اور گزر گئی مگر کہیں بھی، کسی نے بھی کسانوں کی تحریک کے قائد کو یاد نہیںکیا۔یہ ہے تہذیبی غلامی اور اپنی شناخت سے رضاکارنہ دستبرداری۔ہندوستان کی تحریک آزادی، نوآبادیات اور استعماریت کے خلاف جدو جہد اور بغاوت کی تاریخ اور اس کے قائدین کے کردار کو مذہبی عینک سے دیکھنے کی شروعات آزادی کے بعد سے ہی ہوگئی تھی۔مگر اب اس میں شدت کے ساتھ نفرتی رویہ بھی سامنے آنے لگا ہے۔مسلمانوں کی تاریخی شخصیات کے کردار کو فرقہ واریت کے تناظر میں دیکھاجانے لگا۔ان پر ہندئوں پر ظلم کرنے اور مندروں کے توڑنے کے بے جا الزاماعات عائد کرکے ان کی شخصیت اور استعماری قوتوں کے خلاف جدو جہد اور قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے ہٹانے کی پوری قواعد مکمل کرلی گئی ہے۔دوسری طرف مسلم دانشور او ر اسکالرس ہیں جنہوں نے آسانی سے اس بیانہ کو قبول کرلیا ہے۔مغل حکمراں اپنی تمام تر انسان دوستی اور انصاف پسندی کے باوجود پہلے سے ہی معتوب تھے مگر استعماری قوتوں کے خلاف میدان جنگ میںکار زار گرم کرنے والے ٹیپو سلطان، سراج الدولہ، تیتو میر، بہادر شاہ ظفر اور دیگر مسلم تاریخی شخصیات فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں ۔ دوسری طرف انگریزوں کا ساتھ دینے والے، آزادی پر استعماریت اور غلامی کو ترجیح دینے اور ملک کے اتحاد پر فوقیت دینے والے ساورکر، رام دیال اپادھیائے اور شیاما پرساد مکھرجی جیسی شخصیات کو ملک کے اصل ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ملک کی آزادی میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے مہاتما گاندھی اور پنڈٹ نہرو بھی تخریب کاروں کی زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔
نوآبادیاتی ہندوستان میں کسانوں کی ایسی دو بڑی تحریکیں برپا ہوئی جنہوں نے نہ صرف استعماریت اور ان کے زر خرید زمینداروںکی مخالفت کی بلکہ ان کی طاقت کو چیلنج،حکومت کے خلاف متبادل حکومت اور ٹیکس دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ خود ٹیکس وصولنے کا اعلان کردیا۔یہ دونوں تحریکیں مالابار بغاوت جسے کیرالہ کی موپلا تحریک اور بنگال کی تیتومیر تحریک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اتفاق سے ان دونوں تحریکوں کے قائدین مسلمان تھے۔ مالابار بغاوت ایک مسلح بغاوت تھی جسے میپیلا مسلمانوں نے 1921 میں برطانوی حکام اور ان کے ہندو اتحادیوں کے خلاف برپا کیا تھا۔جب کہ تیتو میر کی قیادت میںکئی سالوں تک برطانوی استعمار اور ا ن کے معاون زمین دار جس میں ہندوبرہمن و بنیا اور مسلم دونوں زمیندار شامل تھے کے خلاف تحریک چلتی رہی۔آخرنومبر 1931میں ایک مسلح مقابلے میں تیتو میر اور ان کے رفقائے کار ایسٹ انڈیا کی قیادت والی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
تیتو میر کے بانس کے قلعے کا خاکہ
تاریخی شواہد اور حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ دونوں بغاوتیں انگریزوں اور ان کے وفادار زمینداروں کے خلاف غریب کسانوں کی تھیں جو ان جاگیرداروں کے جبر و تشدد کے شکار تھے۔تاریخ کی کتابیں اوراس وقت کی یادداشتیں برطانوی حکومت اور زمینداروں کے بے رحم کردارکواجاگر کرتی ہے۔زمینداروں کے جبر و تشدد اور زیادتی کے خلاف حرف شکایت بلند کرنے والوں کو قتل کردیا جاتا تھا۔زمینداروںکے ملازمین کے ہاتھوں کسانوں کی عورتوں کی بے حرمتی عام سی بات بن گئی تھی۔غریب کسانوں کو زمین کا کرایہ ادا کرنا لازمی تھا۔چاہے خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے فصل کیوںنہ برباد ہوگئی ہو۔زمین کا کرایہ ادا کرنے کیلئے ساہوں کاروں سے سود پر رقم لینی پڑتی اور یہ سودی رقم سود اور سود میں تبدیل ہوجاتی تھی ۔ اس طرح کسان دوہرے مار کے شکار تھے۔ ظلم و تشدد کی چکی میں کسان پیس رہے تھے۔
دراصل 1757میں پلاسی کے میدان میں بنگال کے آخری نواب سراج الدولہ کی شکست اور شہادت کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ انتظامی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی تبدیلیوں نے زمیندار اور پیشہ ور اشرافیہ جس میں زیادہ تر اعلیٰ طبقات کے ہندو شامل تھے کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا۔مسلم حکومت کے زوال، حکومت کی سرپرستی سے محرومی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے مسلم عوام اور مسلم اشرافیہ دونوں ہی غربت اورغیر معمولی پسماندگی کے شکار ہوگئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ اور اعلیٰ طبقات پر مبنی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ پسماندہ طبقات جس میں ہندو اور مسلم عوام دونوں شامل تھے کیلئے مصیبت کا ذریعہ بن گیا۔
مشہور بنگالی مصنفہ مہا شویتا دیوی نے اپنی کتاب ’’تیو میر‘‘ میں 18ویں صدی کے نصف آخر 1770میں آئے ’’بنگال قحط‘‘ کی ہولناکیوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے ’’قدرتی آفات نے نچلی ذات اور پسماندہ طبقات کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔لوگ مکھیوں کی طرح مرگئے۔امیر صاحبان نے سستے داموں میںچاول خریدی ذخیرہ کرلیا۔بھوک و پیاس سے لوگ مررہے تھے مگر امیر صاحبان ذخیراندوزی کرتے رہے۔مہنگے داموں میں پیچنے کی فراق میں تھے۔بھوک سے مجبور گائوں والے جو کچھ بھی پا سکتے تھے کھاتے تھے جیسے درخت، جڑیں اور چھال۔ ’بنگال ہولوکاسٹ ‘نے پندرہ ملین لوگوں کا صفایا کر دیا۔مگر ان حالات میں بھی گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز جن کی ایشاٹک سوسائٹی کے قیام کی وجہ سے مدح سرائی کی جاتی ہے۔ زیادہ آمدنی کی فکر میں لگے رہے۔اس کیلئے انہوں نے عام لوگوں کے خون کو نچوڑ لیا۔ آقاکی سرخروئی کےلئے گورنر جنرل ہیسٹنگز زمین داروں کی مدد سے کسانوں سے سب سے زیادہ محصولات جمع کرنے میں کامیاب رہے۔بنگال کے قحط کے بعد، کسانوں اور عام لوگوں جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے نے فقیروں اور سنیاسیوں کی قیادت میں برطانوی راج اور ان کے محصولات اکٹھا کرنے والے ایجنٹوں کے خلاف بغاوت کی۔ اگرچہ اس بغاوت کو سنیاسی بغاوت کہا جاتا تھا، لیکن ”فقیر، سادھو، بُنکر، کسان، کمہاراور مزدورسب شریک تھے۔دو دہائیوں تک یہ تحریک چلتی ۔اسی دور میں کلکتہ شہر سے محض70کلومیٹر دور شمالی 24پرگنہ کے بشیر ہاٹ سب ڈویژن کے نارکل بڑیا پرگانہ کے حیدر پور گائوں میں1782 میں ایک کسان گھرانے میں سید میر نثار علی عرف تیتو میر کی پیدائش ہوئی۔
بنگال کے اسکولی نصاب میں تیتو میر کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش
تیتو میر کا تعلق مسلم شریف خاندان سے تھا۔ ان کے پیش رو ’سید شہادت علی‘ عرب سے بنگال آئے۔ شہادت علی کے بیٹے سید عبداللہ کو شہنشاہ دہلی نے جعفر پور کا چیف قاضی مقرر کیا اور’’میر انصاف‘‘ کے لقب سے نوازا۔ اس کے بعد شہادت علی کی اولاد نے موروثی لقب ’’سید‘‘ اور ’’میر‘‘ استعمال کیا۔ تیتو میرنےکم عمری میں ہی قرآن پاک حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے مکتب سے حاصل کی اور پھر مقامی مدرسہ میں داخلہ لیااور اسلامی علوم پر عبور حاصل کیا اور انہیںتین زبانوں بنگلہ، عربی اور فارسی پر یکساں دسترس تھا۔ عربی اور فارسی ادب میں ان کی گہری دلچسپی تھی۔ اسلامی الہیات، فقہ، فلسفہ،اسلامی تصوف جیسے علوم پر ان کی نظر گہری تھی۔اس کے علاوہ وہ ایک ماہر جمناسٹ بھی تھے۔ان کا شمار اپنے وقت کے نامور پہلوانوں میں ہوتا تھا۔پہلوانی کے علاوہ انہوں نے بھودیب لال چودھری کے چیف لاٹھی باز تاج الدین سے تیز اندازی اور دیگر ہتھیاروں کا استعمال بھی سیکھایا۔اس دور میں منعقد ہونے والے مقابلوں میں بھی وہ حصہ لیتے ۔اس کی وجہ سے ان کی شہرت علاقے میں ہوگئی تھی۔
بنگال قحط کے بعد فقیروں اور سنیاسیوں کی تحریک ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروںکے استحصال کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ تھی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں نے فقیروں اور سنیاسوں کی تحریک کو سختی سے کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال کرلیا۔انگریزوں نے اعلان کررکھا تھا جو بھی فقیروں اور سنیاسوںکو پناہ دے گا اور ان کی حمایت کرے گا ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔جیساکہ مہا شویتا دیوی نے اپنی کتاب ’’تیتو میر‘‘ میں لکھا ہے کہ نوجوانی کی عمر سے ہی تیتو میر زمینداروں کے استحصال اور غریب کسانوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آنے لگی تھے۔اس دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کی پالیسی تھی کہ فقیروں اور سنیاسیوں کی حمایت کرنے والوں کو ڈاکو اورچور قراردیدیا جاتا ہے۔اس کا مقصد حوصلہ شکنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
یہ وہی دور ہے جب عظیم اسلامی مصلح اور انقلابی رہنما سید احمدشہید ؒکلکتہ میں فروکش ہوئے تھے، حج کے سفر کیلئے یہاں طویل قیام کیا۔ویشنو تحریک کی وجہ سے بنگال کامسلم معاشرہ شمالی ہندوستا ن کے اسلامی مراکز سے الگ تھلگ ہوچکا تھا۔مسلم معاشرہ رسم و رواج اور قدیم و فرسود ہ روایات اور طرز زندگی کا اسیر ہوچکاتھا۔سید احمد شہید ؒکی وجہ سے مسلم معاشرہ کے اصلاح کی تحریک نمودار ہوئی اور بنگال کے اطراف و اکناف سے بڑی تعداد میں لوگ آکر سید احمد شہید ؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔سید احمد شہید ؒ کا قافلہ رائے بریلی سے چل کر بہار کے پٹنہ اور مونگیر ہوتے ہوئے پہلے بنگال کے مرشدآباد میں فروکش ہوا،اس کے بعد ہگلی میں قیام کیا اور وہاں سے کلکتہ میں مقیم ہوا۔یہ قافلہ جہاں سے بھی گزار وہاں ایمان و حریت اور جذبہ آزادی کے ولولہ کو جگادیا ۔مشہور مورخ شیخ اکرام نے اپنی کتاب ’’موج کوثر‘’میں لکھا ہے کہ
’’مولانا غلام رسول مہر نے مولانا سید احمد بریلوی ؒ اور ان کے رفقائے کار کے کارنامے بڑے ذوق و شوق اور قابل رشک محنت سے تین جلدوں میں مرتب کئے ہیں،لیکن ان کی توجہ زیادہ تر تحریک جہاد پر رہی۔ہمارے خیال میں سید صاحب اورا ن کے جانشینوں کا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام بنگال میں احیائے اسلام اور اس وسیع مملکت کا بر صغیر کے اسلامی مرکز سے دوبارہ رشتہ جوڑنا تھا‘‘۔(موج کوثر:بنگال میں احیائے اسلام صفحہ 57)
بنگال میں ’’ویشنو تحریک‘‘کے اثرات کے خاتمہ میں مولانا سید احمد شہیدکے رفقائے کا ر کا بہت بڑا رول ہے۔سید احمد شہید ؒ کی کوششوں کااثر ہی تھا کہ مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش)کے فرید آباد میں حاجی شریعت اللہ کی قیادت میں فرائضی تحریک کی شروعات ہوئی۔اس تحریک کی بنیاد مسلم معاشرہ کی اصلاح اور رسو م و رواج کا خاتمہ کرکے مسلم معاشرہ کو قرآن و سنت کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔مگر حاجی شریعت اللہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے حاجی محمدمحسن عرف وددو میاں کے دور میں یہ تحریک بہت ہی وسیع ہوئی۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور کسانوں پر ظلم و جبر کے خلاف بھی اس تحریک سے وابستگان نے جم کرمقابلہ کیا۔تاہم فقہی اصطلاحات کی تعبیر میں شد ت اور غیر لچکدرانہ رویہ کی وجہ سے فرائضی تحریک کا دائرہ کار مخصوص حلقے تک محدودہوکر رہ گیا۔دارالحرب کے اصطلاح کی تعبیر کرتے ہوئے فرائضی تحریک کا موقف تھا کہ ’انگریزوں کے تسلط کے ساتھ ہی ہندوستان دارالحرب ہے اس لئے مسلمانوں کو جمعہ اور عیدین کی نماز کی جماعت نہیں کرنی چاہیے۔جب کہ بنگال کے عام مسلمان کسی بھی صورت میں جمعہ اور عیدین کی جماعت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔اس اصطلاح کی تعبیر و تشریح اور غیر لکچدرانہ رویے کی وجہ سے فرائضی تحریک اختلافات کا شکا ر ہوگیا۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’فرائضی تحریک نے فرید پور، ڈھاکہ،باریسال اور مغربی بنگال کے متعدد علاقوں کو متاثر کیا۔مسلم معاشرہ میں ایک نئی حرکت پیدا کردی۔(موج کوثر)
تیتو میر کا ان تحریکوں سے تعلق کب ہوا اور مولانا سید احمد شہید ؒ کے کلکتہ قیام کے دور میں تیتو میرکی سید صاحب سے ملاقات ہوئی یا نہیں اس کے تاریخی ثبوت نہیں ملتے ہیں۔مگر تیتو میر سے متعلق اب تک جو دستاویز سامنے آئے ہیں اور مشہورمورخ پروفیسرگوتم بھدرا نے ایسٹ انڈیا کے دستاویز کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1822میں تیتو میر حج کے سفر پر مکہ مکرمہ کیلئے روانہ ہوئے اور چند سال وہاں قیام کیا۔مکہ کے قیام کے دوران ہی ان کے رابطے سید احمد شہید اور حاجی شریعت اللہ سے ہوئی۔رابطے، تعلقات میں تبدیل ہوئے او ر اس تعلقات نے برطانوی استعمار اور زمین داروں مہاجنوں کے کٹھ جوڑ کے خلاف ان کے دلوں میں جذبہ جہاد پیدا کردیا۔ 1827میں جب وہ مکہ مکرمہ سے واپس ہوئی توتیتو میر کی زندگی تبدیل ہوچکی تھی۔ان کا سینہ جذبہ جہاد سے لبریز تھا،کسانوں اور عام شہریوں پر مظالم سےان کا دل دکھی تھی۔حج سے واپسی پر وہ شمالی 24پرگنہ کے بشیر ہاٹ سب ڈویژن کے حیدرپور میں سکونت اختیار کی۔علاقہ کا دورہ کیا، عوام سے ملاقات کی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں، زمینداروں اور مہاجنوں کے مظالم کاجائزہ لیا۔ ان لوگوں کی پریشانیوں کا مشاہدہ کیا جو ان استحصالیوں کے چنگل میں مبتلا تھے۔ان حالات میں انہوں نے فرائضی تحریک کی طرح سماج و معاشرہ کے اصلاحات کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی اور استحصالیوں کیخلاف جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔اصلاحی مہم کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے بیدار ی مہم چلائی۔ظلم کی چکی میں پس رہے کسانوں اور مزدوروںمیں بغاوت کا حوصلہ پیدا کیا۔اس طرح تیتو میر بہت ہی تیزی سے بنکروں اور کسانوں میں مقبول ہوتے چلے۔ان کے ماننے والوں میں بڑی تعداد جہاں مسلمانوں کی تھی وہیں مقامی غیرمسلم کسان اور پسماندہ طبقات ہندو بھی ان کے ساتھ تھے۔کیوں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں اور مہاجنوں کے مظالم کے وہ یکساں شکار تھے۔
گوبر ڈنگا کے پورہا کالی پرسنا مکھوپادھیائے کے زمین دار کرشن دیوا رائے، تاراگونیا کے زمیندار راج نارائن، ناگپور کے زمیندارگوری پرساد چودھری اور گوبرا گووند پور کے زمیندار دیواناتھ رائےیہ وہ زمیندار تھے جن کے مظالم سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ علاقے عام کسان پریشان تھے ۔یہ زمیندار عام ہندوستانیوں کی مدد کرنے کے بجائے انگریزوں کے ساتھ تھے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے افسران کو خوش کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کررہے تھے۔ ان زمینداروں نے فرائضی تحریک اور سید احمد شہید کے ’’تحریک احیائے اسلام‘‘ کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے مسلمانوں پر داڑھی رکھنے، مساجد، خانقاہوں او ر عبادت کرنے پر بھی ٹیکس عائد کررکھا تھا۔اس ٹیکس کا مقصد تھا کہ بنگال کے مسلمان مسلم تہذیب و تمدن سے کٹ جائیں اور ان میں جو بیداری پیدا ہوئی ہے وہ جہالت اور پسماندگی کے دل دل میں دھنس جائیں ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکمرانوں کے جابرانہ ٹیکسوں اور مقامی زمینداروں کی غیر انسانی رویوںکی مخالفت کرتے ہوئے، تیتو میر نےکسانوں اور بنکروں کو بغاوت پر آماد ہ کیا۔جیسا کہ پروفیسر گوتم بھدرا نے لکھا ہے کہ ’’سید میر نثار علی عرف تیتو میر اتنے دلیر تھے کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں اور پولس کو بھی اپنے حملوں کی پیشگی اطلاع دیتے تھے۔ان کی جرأت مندانہ روش نے کسانوں اوربنکروں کو ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔ہزاروں افراد مذہبی اور طبقاتی وفاداری سے قطع نظر رکھ کر ان کی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔تیتو میر کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج اور زمینداروں کا مقابلہ کیا۔کئی مواقع پر ان زمینداروں اور ان کے حواریوں کو منھ کی کھانی پڑی۔تیتو میر کی تحریک اب اس پوزیشن پر پہنچ چکی تھی کہ انہوں نے باضابطہ مجاہدین کی فورسیس کی تشکیل دی۔شمالی 24پرگنہ،ندیا اور فریدآباد جیسے اضلاع میں ایسٹ انڈیا کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہوئےان اضلاع کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ ٹکی اور گوبر ڈانگہ کے زمینداروںکو ہدایت دی کہ وہ اب ٹیکس ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کے بجائے ان کے حوالے کریں ۔ان کی فوج میں پانچ ہزار افراد تھے۔ اکتوبر 1831 میں نارکل بیڑیا میں بانس کے قلعہ کی تعمیر کی۔ہندئوں کے اعلیٰ ذات کے زمیندار اور مہاجنوںنے مقامی قیادت کو ترجیح دینے کے بجائے برطانوی استعمار اورایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی کو ترجیح دینے کو زیادہ بہتر سمجھا۔چناں چہ انہوں نے تیتو میر اور ان کے حامیوں کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی سے مدد طلب کی۔انگریزانتظامیہ کو تیتو میر کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔چناں چہ انگریزوں اور زمینداروں کی مشترکہ فوجوں کو مجاہدوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست کے بعد گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے لیفٹیننٹ کرنل سٹیورٹ کو تیتو میر کے خلاف فوج کشی کی ہدایت دی۔ باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی جس میں 100 گھوڑسوار دستے، 300 مقامی پیادہ اور دو توپ شامل تھے۔انگریزوں نے 14 نومبر 1831 کو مجاہدین پر حملہ کیا۔ مجاہدین جدید ہتھیاروں سے لیس نہیں تھے چناں چہ جدید ہتھیاروں سے لیس انگریزی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکے۔انگریزوں نے گولہ باری کی اور قلعہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جس میں مجاہدین کو بھاری جانی نقصان ہوا۔ تیتو میر اپنے بہت سے پیروکاروں کے ساتھ 19 نومبر 1831 میں شہیدہوگئے۔کمانڈر غلام معصوم سمیت 350 مجاہد گرفتار ہوئے۔ غلام معصوم کو سزائے موت اور دیگر 140 قیدیوںکو مختلف الزامات کے تحت سزائیں دی گئیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف کسانوں اور عام لوگوں کی پہلی مسلح بغاوت تیتو میر کی شہادت کے ساتھ ختم ہوگیا۔مگر یہ شہادتیں رائیگاں نہیں ہوئیں۔تیتو میر اپنی شہادت کے ذریعہ بنگال کے دیہی علاقوں میںایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کے خلاف کسانوں کو احتجاج کرنے اور بغاوت کرنے کا عزم و حوصلہ دیدیا۔ 1857کے انقلاب کی راہ ہموار ہوگئی۔
مگر تاریخ کا جبر ملاحظہ کیجئے کہ تیتو میر کی شہادت کے دو صدی بعد ان کی قربانی اور جذبہ حریت کو فرقہ پرستی کے الزامات سے داغدار کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں انگریزی کی حمایت کرنے اور ان کے خلاف تحریک سے خود کو علاحدہ رکھنےوالے اور گرفتاری کی صورت میں معافی مانگنے والی آر ایس ایس گزشتہ 70سالوں سے تاریخ پر حملہ آور ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا ہے کہ مسلمانوںکو تہذیبی اور کلچر کی سطح پر مرحوم کرنے کےلئے جہد آزادی اور استعماریت کے خلاف تحریکوں اور اس کے مسلم قائدین کے کردار کو مجروح کیا جارہاہے۔تیتو میر بھی اسی جارحانہ مہم کے شکار ہیں۔
مسلم دشمنی میں آرایس ایس اور اس کے ہم خیا ل دانشور برطانوی استعماریت کو ہندوستان میں قدم جمانے میں مدد کرنے والے زمینداروںمیں خوبیاں تلاش کرنے لگے ہیں۔چند سال قبل کیرالہ حکومت نے 1921میں موپلا تحریک کے شرکا کو شہادت کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تو آر ایس ایس کے سینئر لیڈراور بی جے پی کے سابق جنرل سکریٹری رام مادھو کا بیان آیا کہ’’موپلہ تحریک طالبانی ذہنیت کا مظہر تھا۔انہیں شہادت کا درجہ دینا ہندوستان کی توہین ہے‘‘دراصل طالبا ن کی تحریک اور کسان تحریک سے موازنہ آرایس ایس لیڈروں کی فسطائی ذہنیت کا مظہر ہے۔
2017میں مغربی بنگال حکومت کے محکمہ تعلیم نے دسویں جماعت کے تاریخ کے سبجیکٹ میں ’’بنگال میں وہابی تحریک‘‘کے عنوان سے تیتو میر کو مسلم مبلغ کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تیتو میر نے زمینداروں پر حملہ کیا اور پجاریوں کو ہلاک کردیا‘‘۔یہ نصابی کتاب سامنے کے بعد تاریخی بحث شروع ہوگئی۔فسطائی ذہنیت کے حاملین تیتو میر کے کردار پر حملہ شروع کردیا۔190سال بعد تیتو میر تاریخ کا موضوع بحث بن گئے۔مگر سوال یہ ہے کہ برطانوی استعماریت اور زمینداروں کے خلاف تحریک تیتو میر اور ان کے ساتھیوں نے واقعی مندروں پرحملہ اورپجاریوں کا قتل کیا؟۔کیا تیتو میر کی تحریک ہندو مخالف تھی۔اس سوال کاجوا ب سینٹر فار اسٹڈیز آف سوشل سائنسز کے بانی اورمشہور مورخ گوتم بھدرااس طرح دیتے ہیں:
یہ دعویٰ کہ ’تیتو میر کی قیادت میں وہابیوں نے بہت سے ہندو مندروں کو تباہ کیا اور کئی پجاریوں کو ہلاک کیا‘‘بے بنیاد ہے۔زمیندار دیب رائے کے مندر میں کام کرنے والا ایک پوجاری ٹیکس بھی وصولا کرتاتھا۔کسانوں کے تئیں اس کا رویہ توہین آمیز تھا۔تیتومیر کی قیادت والی تحریک کو کچلنے میں وہ پوجاری بھی شامل تھا۔کسانوں اور زمینداروں کے مقابلہ آرائی میں وہ پوجاری بھی مارا گیا ۔اس لئے اس واقعے کو فرقہ واریت کا رنگ دینا انصاف کے خلاف ہے۔(ایمان و نشان بنگلہ )
انڈین سٹیٹسٹیکل انسٹی ٹیوٹ سوشیالوجیکل ریسرچ یونٹ کلکتہ سے وابستہ رہ چکے پروفیسر اتیس داس گپتااپنے مضمون’’تیتو میر کی بغاوت: ایک پروفائل (1983)‘‘میں لکھتے ہیں کہ
تیتو میر ’’بنگال میں’ لوک اسلام کی روایت‘ کی مخالفت کرتے ہوئے وہابیت کے فروغ اور شرعی قوانین کے نفاذ کی وکالت کرتے تھے اور طریقہ محمدی کے نام سے تحریک چلاتےتھے ۔مگر ان کی یہ تحریک مسلم معاشرہ تک محدود تھی ۔مگر اس کے ساتھ ہی وہ برطانوی استعمار کے بھی خلاف تھے ۔تیتو میر نے شمالی 24 پرگنہ ضلع میں غریب کسانوں پر عائدبے رحمانہ ٹیکس اور زمینداروں کے استحصالی رویہ کی پرزورمخالف تھے ۔انہوں نے کسانوں کو آمادہ کیا کہ وہ ٹیکس دینے سے انکار کردیں ۔انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور زمینداروں کے خلاف احتجاج کو منظم کیا اور اس کی قیادت کی ۔تیتو میر اور ان کے حامیوں کی تحریک کو کچلنے میںہندو اور مسلمان دونوں زمیندار شامل تھے۔چناں چہ علاقے کے زمینداروں نے مشترکہ طور پرتیتو میر کی بغاوت کے خلاف انگریزوںسے مدد طلب کی اور ان سے فوج کشی کی درخواست کی۔چناں چہ 18نومبر1931کو گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک کی ہدایت پر تیتومیراور ان کے ساتھیوں کے خلاف فوج کشی ہوئی اور 19 نومبر کی صبح یہ لڑائی شدت کے ساتھ شروع ہوئی ۔چوں کہ انگریزوں کے پاس جدید اسلحے تھے اس لئے تیتو میر اور ان کے ساتھ جلد ہی شکست سے دو چار ہوگئے مگر انہوں نے آخر وقت تک مقابلہ کیا مگر اس لڑائی میں تیتو میر سمیت ان کے 50ساتھی شہید ہوگئے ۔
’’ ڈاکٹر داس گپتا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نوآبادیاتی مخالف کسانوں کی تحریک کی تاریخ میںتیتو میر اور ان کے وہابی پیروکار جبر و استحصال کے خلاف مستقبل کے کسان معاشرے کے لیے ایک پیغام لے کرنمودار ہوتے ہیں‘‘۔کسان رہنما ہونے کے ساتھ وہ ایک اسلامی مبلغ بھی تھے،اپنی اسی پیچیدہ شناخت کی وجہ سے ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی بنگال میں قائم ہونے والی حکومتوں جس میں کانگریس اور بائیں محاذ دونوں شامل ہیں نے بشیر ہاٹ کے نارکل بیڑیا میں ان کی یاد گار قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی‘‘۔ہندوستان میں اپنی استعماریت کو مضبوط کرنے کیلئے انگریزوں کی پالیسی رہی ہے کہ’’ تقسیم کرواور حکومت کرو‘‘۔اس پالیسی کو مختلف سطحوں پر آزمایا گیا، معاشرے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کیلئے تاریخ کے ساتھ چھیڑ خوانی کی گئی۔اس میں کسی حدتک انہیں کامیابی بھی ملی۔تیتو میر کی بغاوت کے بعد انگریزو ں نے تیتو میر کی جہد آزادی کو بدنام کرنے کےلئے ہندو مسلم فسادات اور ہندو کے خلاف محاذ آرائی کا نام دیا گیا ۔چناں چہ انگریز مصنف جان رسل کولون نے تیتو میر کو ڈاکو قرار دیتے ہوئے لکھا کہ تیتو میر ہندئوں کا مخالف تھا وہ تکثیری معاشرے کے بجائے مسلمانوں کی علاحدہ شناخت کا قائل تھا۔یہ علاقہ مدت سے ہندو مسلم دوستی اور رواداری کے اعتبار سے مثالی تھا مگر تیتو میرنے اپنے شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے سماجی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچایا ، مندروں پر حملہ کیا اور ہندئوں کا قتل عام کیا۔
جاں رسل کا یہ مضمون تضادات سے بھر پور ہے۔ایک طرف وہ تیتو میر کو ڈاکو اور چوروں کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چوں کہ اس کی وجہ سے اس کی گرفتاری ہوئی تھی اس لئے وہ کمپنی کا مخالف بن گیا مگر اس کے ساتھ ہی وہ تیتو میر مذہبی انتہا پسند بھی قرار دیتا ہے۔یقینا تیتو میر سید احمد شہیدؒ کے تحریک اور ان کی مہم سے متاثر تھا اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔سید احمد شہید ؒ ہندوستان کی تحریک آزادی وہ عظیم شخصیت جنہوں نے اپنے استاذ حضرت شاہ عبد العزیز کے فتوی جہاد پر لبیک کرتے ہوئےہندوستان میں انگریزی تسلط کے خلاف میدان کارزار گرم کرنے میں مشغول ہوگئے۔سید احمد شہید ؒ ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جو جذبہ جہاد بیدار و ہ ہندوستان کی تاریخ کا روشن باب ہے۔شاہ عبدا لعزیز اور ان کے شاگردہ سید احمد شہید ؒ نے اس وقت انگریزی تسلط کو چیلنج کیا جب کسی دوسری اقوام میںآزادی کے حصول کا شعور تک نہیں پیدا ہوا تھا۔چناں چہ سید احمد شہید ؒ کی تحریک سے متاثر ہونے کی وجہ سے کوئی بھی شخص معتوب نہیں ہوسکتا ہے۔
دراصل انگریز ی مصنفین اس طرح کی تاریخی تخریف کے ذریعہ اپنے مظالم اورزیادتیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔انگریزی قوم جنہوں نے 19ویں صدی میں اپنی چالاکی اور مکاری سے دو تہائی دنیا کو اپنی کالوں میں تبدیل کرکے اپنے عیش و عشرت کا سامان فراہم کیا۔کسانوں سے زمین کے حقوق چھینے ، غلاموں کی منڈیا سجائیں ، نہتوں پر گولیاں چلائیں مگر ظلم کی داستان کو دنیا کے سامنے آنے نہیں دیا۔اس کے خلاف جدو جہد لیڈروں کو بدنام کرنے کےلئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا۔
جہاں تک آر ایس ایس اور اس کے ہم خْیال مصنفین کاسوال ہےتو اس حقیقت ہمیں ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ آر ایس ایس برہمنوں کی جماعت ہے۔ ہندوستان میں منووادی(منوسمرتی) نظام کا نفاذ ان کا خواب ہے۔منوواد کا پورا نظام ذات پات پر مبنی ہے۔ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ مسلمان ہیں، انہیں یقین ہے کہ منوواد کے نفاذ میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی انہیں چیلنج نہیں کرسکتا ہے ۔اس کےلئے ہندئوں کو متحد کرنا ضروری ہے چناں چہ وقتی طور پر ذات پات کی تفریق کو کنارہ لگاکر مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز ماحول تیار کررہے ہیں۔منوواد کے حامی کبھی بھی قیادت و لیڈر شپ پسماندہ اور دلت طبقات کو نہیںدے سکتے ہیں۔بیشتر’ زمین دار‘اعلی ذات رہے ہیں۔ان کے مظالم کے شکار کسان تھے۔ زیادہ تر کسان مسلمان اور ہندئوں کے پسماندہ طبقات تھے۔چناں چہ برہمنوں کی جماعت آر ایس ایس نے کبھی بھی کسانوں کی تحریک کو ابھر نے نہیں دیا ۔چناں چہ اس وقت ہندوستان میں کسانوں کی تحریک کے تئیں برہمن واد میڈیا اور لیڈروں کے رویوں کو اسی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔تیتو میر کی تحریک کو ہندو مسلم لڑائی قرار دینے والوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ تیتو میر کی تحریک میں مسلم زمین دار شامل تھے۔؟اس کا دعویٰ تو خود انگریز مصنفین تک نہیں کرتے ہیں ۔