پاکستان میں دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے معروف عالمِ دین مفتی تقی عثمانی نے افغان طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اخوند کے نام اپنے خط میں شرعی قوانین کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم کے لیے انتظامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہ خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے سے متعلق افغان طالبان کے درمیان اختلافات کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں جب کہ افغانستان کے مقامی علما کی جانب سے بھی لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔
طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر مسلسل پابندی عائد ہے۔ گزشتہ ماہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے فوری بعد ہی انہیں دوبارہ بند کر دیا گیا تھا۔
مفتی تقی عثمانی پاکستان میں دیو بندی مکتبِ فکر کے ممتاز عالم دین ہیں۔ وہ اس مکتب فکر کے دینی مدارس کے تعلیمی بورڈ وفاق المدارس کے صدر ہیں اور اس سے قبل پاکستان میں شرعی عدالت کے جج بھی رہے ہیں۔
گزشتہ روز ان کی جانب سے طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کے نام خط لکھا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے بیٹے حسان اشرف عثمانی نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر افغان طالبان کے امیر کے نام لکھے جانے والے اس خط کی تصدیق کی ہے۔
طالبان کے امیر کے نام مفتی تقی عثمانی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس وقت اہم مسئلہ لڑکیوں کی تعلیم ہے جس کو دشمنوں نے اماراتِ اسلامیہ کے خلاف پرو پیگنڈا کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
انہوں نے لکھا ہماری رائے ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کا مناسب انتظام کرنا بہت ضروری ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے مسائل مثلا علاج، تعلیم اور فلاحی کام کے لیے تعلیم یافتہ خواتین ملک کی اہم ضرورت ہیں تاکہ معاشرے سے مرد و عورت کے اختلاط (میل ملاپ) کا خطرہ ختم کیا جاسکے۔
تاہم انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی تعلیم کا الگ انتظام کرنا ضروری ہے اور الگ الگ درسگاہیں دستیاب نہ ہونے کی صورت میں الگ الگ اوقات میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام ہوسکتا ہے۔
مقامی علما کی اپیل
واضح رہے کہ افغانستان کے مقامی علما کی جانب سے بھی لڑکیوں کی تعلیم شروع کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔
رواں ماہ کابل میں علما کے ایک گروپ نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام خواتین کے حقوق کا علم بردار ہے جس میں تعلیم اور کام کرنے کا حق بھی شامل ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران علما کی جانب سے یہ دوسرا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ معروف اسکالرز کی جانب سے بھی انفرادی طور پر خواتین کے لیے کام اور تعلیم کی حمایت میں اسلامی قانونی فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہی مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
افغانستان کے نامور اسلامی اسکالر شیخ فقیر اللہ فائق نے گزشتہ ماہ ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ خواتین کی تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ان کے بقول وہ یہ بات کئی دیگر مسلمان اسکالرز کی طرف سے کہہ رہے ہیں۔
طالبان کے دورِ حکومت میں انتہائی طاقت ور رہنما ہبت اللہ اخوند زادہ نے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کی کوئی وجہ یا جواز نہیں بتایا ہے۔ لیکن ان کے مختصر تحریری فرمان میں وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کے فیصلے اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کے چھ ماہ بعد خواتین کی صورتِ حال
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت کئی مسلم ممالک میں مذہبی اسکالرز کے گروپس نے مسلمانوں کی آواز بنتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔
روحانیت اور مساوات سے متعلق ویمنز اسلامک انیشی ایٹو نامی تنظیم کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیزی خان کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی اسلامی جواز نہیں۔
شمالی امریکہ کی اسلامک سوسائٹی کے ترجمان ہارون امتیاز نے وی او اے کو بتایا کہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر طالبان کی حالیہ پابندی ناقابلِ قبول ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہے۔
طالبان میں لڑکیوں کی تعلیم پر اختلاف
افغان طالبان کی قیادت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر بارہا یہی موقف سامنے آتا رہا ہے کہ اس بارے میں تمام فیصلے شرعی قوانین کے مطابق کیے جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین کے خیال میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھلنے اور دوبارہ بند ہونے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس اسلام پسند گروپ پر اب بھی انتہائی قدامت پسند افراد کا کنٹرول ہے اور اقتدار کی اس کشمکش میں افغانستان کے پریشان حال عوام کے لیے انتہائی ضروری امداد خطرے میں پڑگئی ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بین الاقوامی سطح پر برہمی کا باعث بنی ہے اور خود طالبان تحریک میں بھی اس فیصلے پر اضطراب پایا جاتا ہے۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ایک سینئر رکن نے کہا تھا کہ یہ حکم انتہائی پریشان کن تھا۔ سپریم لیڈر نے بذاتِ خود مداخلت کی تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق موضوع کی حساسیت کے باعث اس سے بات کرنے والے طالبان کے تمام عہدیداروں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے کی ممانعت کردی۔
لڑکیوں کی تعلیم پر اس پابندی کے بارے میں، واشنگٹن میں ڈائریکٹر انالیٹیکل ڈپارٹمنٹ، نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فاراسٹرٹیجی اینڈ پالیسی”ڈاکٹر کامران بخاری نے بھی وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے طالبان کے درمیان اختلافِ رائے کا ذکر کیا تھا۔
ان کے مطابق طالبان کے اندر اختلافات اتنے زیادہ ہیں کہ ملا برادر نے حکم دیا کہ لڑکیوں کو اسکول جانے دیا جائے جب کہ دوسرے گروپ نے اس کی مخالفت کی اور پھر ثالثی کے لیے دونوں گروپ قندھار میں ملا ہبت اللہ کے پاس پہنچ گئے۔
اے ایف پی کے مطابق قندھار شہر طالبان کے لیے اقتدار کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور طالبان کی جانب سے گزشتہ ماہ لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے فوراً بعد ہی انہیں دوبارہ بند کرنے کا فیصلہ قندھار میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد کیا گیا جس کی حمایت اس موضوع پر انتہائی قدامت پسند مؤقف کے حامل ملا ہبت اللہ اور بعض دیگر طالبان لیڈروں نے کی۔
اب تک طالبان عہدیدارلڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پر سوائے یہ کہنے کے کوئی جواز فراہم نہیں کر سکے ہیں کہ ان کی تعلیم “اسلامی اصولوں” کے مطابق ہو نی چاہیے۔