نور اللہ جاوید
خاندانی منصوبہ بندی حکومت کا کا م نہیں،حکمراں دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے نہ دیں
چالیس سال بعد چین اور یورپ خاندانی منصوبہ بندی قانون کیوں ختم کررہے ہیں؟بھارت کے لیے لمحہ فکریہ
ہندوستان کی آبادی میں اضافےسے متعلق جب بھی کوئی رپورٹ آتی ہے تو اس کو مسلمانوں سے جوڑ کر پورے مسئلے کو فرقہ واریت کارنگ دے دیا جاتا ہے۔ نتیجتاًآبادی سے متعلق پوری بحث مسلمانوں کے ارد گرد ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔چناں چہ70برس سے زائدکا عرصہ گزرجانے کےباوجود آبادی کے مسئلہ کا نہ صحیح تجزیہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی حکومت آبادی میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کوئی حتمی پالیسی بناسکی ہے۔اس عرصے میں صرف اور صرف جھوٹ پھیلایا گیا ہے۔’’ ہندوستان اگلی چند دہائیوں میں مسلم اکثریتی ملک بن جائے گا‘‘۔’’ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی لیے صرف مسلمان ذمہ دار ہیں‘‘۔مسلمان خاص مقاصد کے تحت زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں ‘‘یہ وہ جھوٹ ہے جو گزشتہ 7دہائیوں سے لگاتار بولا جارہا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ فاش نہ کیا گیا ہو۔ اس جھوٹ کو مسلسل بے نقاب کیا جاتا رہا ہے۔گزشتہ سال ہی سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کی اسی موضوع پر کتاب’’The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India,‘‘منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں مصنف نے مسلمانوں میں فیملی پلاننگ، مسلم آبادی میں اضافے کی شرح اور ہندوستان میں جلد ہی مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے خدشات پر تحقیقی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے مردم شماری، قومی خاندان سروے کے اعدادو شمار کو بنیاد بناکر ہندوستان کی آبادی کو لے کر ہندوتوا کے حامیوں کی جارحانہ مہم کا پردہ چاک کیا ہے۔کتاب کے باب ہشتم ’’آبادی کی سیاست ‘‘میں ہندوتوا حامیوں کے تعصب اور جھوٹ کاپردہ فاش کرتے ہوئے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر100سالوں تک ایک بھی ہندو بچے کی پیدائش نہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمان اس ملک میں اکثریت میں نہیں آسکتے ہیں۔
11جولائی2022 کوعالمی یوم آبادی کے موقع پر لکھنو میں منعقدہ ایک تقریب میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ بیان ’’آبادی میں کنٹرول کرنے کا پروگرام کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے لیکن ساتھ ہی ہماری کوشش رہنی چاہیے کہ آبادی میں اضافے کی شرح میں عدم توازن نہ ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آبادی میں اضافے کی رفتار میں کسی خاص کمیونیٹی کی حصہ داری زیادہ ہو‘‘۔اس سے قبل آسام کے وزیرا علیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بھی ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھیرایاتھا۔گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے وزیر اعظم مودی کے بیانات کی گونج اب بھی فضا میں موجود ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ’’ہم کیا کرسکتے ہیں وہ 25بچے پیدا کریں اور ہم انہیں حکومت کی فلاحی اسکیمیں فراہم کریں‘‘ ۔ظاہر ہے کہ جب جھوٹ اتنے بڑے پیمانے پر اور دیدہ دلیری کے ساتھ بولا جائے تو پھر اس جھوٹ کا مقابلہ چند مضامین اور ایک دو کتابوں سے نہیں کیا جاسکتا۔اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہندوستان میں آبادی کے مسائل کو ہندو مسلم کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس پورے مسئلے کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے اور اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ کیا ہندوستان کے تمام مسائل کی جڑ بے تحاشا آبادی میں اضافہ ہے؟ دوسرے یہ کہ دنیا کے جن جن ممالک میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی لیے قوانین نافذ ہیں وہاں اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے ہیں؟ان سوالوں پر غو ر کیے بغیر بنیادی مسائل کا ادارک نہیں کیا جاسکتا ہے اور جب ادارک کا ہی فقدان ہوگا تو مسئلے کا حل اور تدبیر پر عمل ممکن نہیں ہے۔
عالمی آبادی پر اقوام متحدہ کی رپورٹ
11جولائی کوعالمی یوم آبادی کے موقع پر اقوام متحدہ کے عالمی آبادی کے امکانات (WPP) 2022 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان2023 میں آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ 15 نومبر تک دنیا کی آبادی 8 بلین تک پہنچ جانے کا تخمینہ پیش کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کا پاپولیشن ڈویژن 1951 سے ہی ڈبلیو پی پی کی رپورٹ کو دو سال کے وقفے سے شائع کر تا ہے۔اس رپورٹ میں آبادی کی شرح، شرح اموات ، نقل مکانی اور ماضی کے رجحانات کو سامنے رکھ کر تجزیے پیش کیے جاتے ہیں ۔
2022کے ’’عالمی آبادی کے امکانات‘‘رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، ترقی اور معیشت کی رفتار سست ہورہی ہے، 2030 میں عالمی آبادی تقریباً 8.5 بلین، 2050 میں 9.7 بلین اور 2100 میں 10.4 بلین ہونے کی توقع ہے۔آبادی میں اضافے کی شرح مختلف ممالک اور خطوں میں نمایاں طور پر مختلف ہے۔ 2050 تک عالمی آبادی میں متوقع اضافے کا نصف سے زیادہ حصہ صرف آٹھ ممالک جمہوریہ کانگو، مصر، ایتھوپیا،ہندوستان، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ میں ہونے کی توقع ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے وسائل پر اضافی دباؤ پڑے گا اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے حصول کے لیے چیلنجز پیدا ہوں گے۔اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت 65سال یا اس سے زائد عمر والے افراد کی کل تعداد آبادی کا 10 فیصد ہے مگر 2050میں اضافہ ہوکر 16فیصد ہوجائے گی۔رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ بوڑھے افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے فعال افراد کی تعداد میں کمی آئے گی اور اس کے اثرات ملک کی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔اس سے قبل اقوام متحدہ کے عالمی آبادی کے امکانات کے 2019کی رپورٹ میں کہا گیا تھا ہندوستان کی آبادی 2027میں چین سے زیادہ ہوجائے گی مگر اب یہ کہا جارہاہے کہ 2023میں ہی ہندوستان آبادی کے اعتبار سے چین سے آگے بڑھ جائے گا۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی پیش گوئی کے علاوہ ہندوستان کے بنیادی مسائل کی طرف بھی توجہ دلاتےہوئے کہا گیا ہے اگرچہ 2050تک ہندوستان کی آبادی کا حجم 1.66بلین ہونے کا تخمینہ ہے مگر ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی شرح میں سال بہ سال کمی آرہی ہے اس کی وجہ سے اگلی چند دہائیوں میں 0-14 سال اور 15-24 سال کے افراد میں کمی ہوجائے گی جبکہ 25-64 اور 65+ کےعمر کے افراد میں اضافہ ہوتاچلاجائے گا۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں ہندوستان میں افرادی قوت کی کمی ہوگی اور اس کا راست اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر اور سینئر پروفیسر کے ایس جیمزنے اپنے حالیہ ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں آبادی میں اضافے پر گفتگوکرنے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے ہندوستان جیسے بڑے ممالک میں غربت کیسے کم کی جاسکتی ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبے کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے۔پروفیسر جیمز ہندوستان کو چند اہم مشورے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 25اور 65سال کی عمر کے درمیان افراد کی مہارت اور صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔کیوں کہ نئی نسل کے مطابق ان میں تعلیمی استطاعت کم ہے ۔اگرچہ انہیں دوبارہ اسکول نہیں بھیجا جا سکتا ہے مگر ان کی آمدنی میں اضافے کی لیے وسائل کو ضرور بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔65اور اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے پیش آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی لیے پروفیسر جیمز مشورہ دیتے ہیں کہ عمردراز افراد کے سماجی تحفظ کی لیے حکومت کو فلاحی اسکیموں پر زیادہ زور دینے کے بجائے خاندانی نظام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔اس معاملے میں مغرب کی پیروی کرنے کے بجائے ہندوستان میں پرانے خاندانی نظام کو بحال کرنے کی سمت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
آبادی میں اضافہ اور مسلمان
ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں کی گئی جس کے مطابق مسلمان کی کل آبادی 9.8 فیصد تھی۔ 2011 کی مردم شماری میں یہ بڑھ کر 14.2 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس عرصے میں ہندو آبادی 84 فیصدسے کم ہو کر 79.8 فیصد تک پہنچی ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، 1991 اور 2001 کے درمیان ہندو آبادی میں اضافے کی شرح 19.92 فیصد تھی جس میں 2001 اور 2011 کے درمیان گراوٹ آئی اور یہ 16.76 فیصد تک پہنچ گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس درمیان مسلمانوں کی آبادی میں بھی اضافے کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے۔2001تک مسلم آبادی میں اضافے کی شرح 29.52فیصدتھی مگر 2011کی مردم شماری میں آبادی میں اضافے کی شرح کم ہوکر 24.6فیصد ہو گئی یعنی گزشتہ دس سالوں میں آبادی میں اضافے کی شرح میں 5فیصد گراوٹ درج کی گئی ۔ماہرین بتاتے ہیں کہ 2021کی مردم شماری جو کورونا وائرس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے اس میں ہندوآبادی میں اضافے کی شرح میں مزید گراوٹ درج کی جائے گی اور توقع ہے کہ 15.7فیصد کا اضافہ ہوگا ۔اس درمیان مسلم آبادی میں اضافے کی شرح میں 6فیصد گراوٹ یعنی 18.2فیصد تک کم ہونے کی توقع ہے۔ہندو اور مسلمان دونوں کی شرح نمو میں کمی کے ساتھ دونوں برادریوں میں آبادی میں اضافہ مستقبل قریب میں زرخیزی کی متبادل سطح (زرخیزی کی وہ سطح جس پر آبادی بالکل ایک نسل سے دوسری نسل میں اپنی جگہ لے لیتی ہے) مستحکم ہونے کا امکان ہے۔اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی شرح 45.3 فیصد ہے جب کہ ہندوؤں میں 54فیصد ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں آبادی کی پوری بحث ہندوتوا کے ایجنڈے کے ارگرد گھومتی ہے۔یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے دو بچے اور مسلمانوں کے دس بچے پیدا ہوتے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہو اہے بلکہ بچے کی پیدائش کا فرق ایک بچے سے زیادہ کبھی نہیں رہا ہے۔اب تو آدھے بچے سے بھی کم کا فرق باقی رہ گیا ہے ۔اسی طرح جب کوئی بھی سیاست داں ’’ہم پانچ، ہمارے پچیس‘‘ کی بات کرتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ہندوستان میں کئی مردوں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ ملک میں جنسی تناسب مایوس کن ہے۔ ایک ہزار لڑکوں پر محض 922 لڑکیاں ہیں ۔
خاندانی بہبود پروگرام کا جائزہ لینے والی قومی کمیٹی کے سابق سربراہ دیویندر کوٹھاری سائنسی تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگلی مردم شماری میں مسلم آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی آئے گی جب کہ 2011کی مردم شماری کے مقابلے 2021کی مردم شماری میں ہندوؤں کی آبادی میں معمولی اضافہ ہوگا۔ 79.80سےبڑھ کر 80 .3ہونے کی توقع ہے۔کوٹھاری کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زرخیزی بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر اگلے90سالوں تک ہندوستان میں ہندوؤں کے یہاں بچوں کی پیدائش مکمل طور پر روک دی جائے تو اس صورت میں بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے۔ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 1992 میں اوسطاً ایک مسلمان خاتون کے یہاں ہندو، عیسائی، بدھ، سکھ یا جین کی خواتین کے مقابلے میں کم از کم ایک بچہ زیادہ تھا۔اسی طرح 1992میں فی مسلم خاتون 4.4بچے تھے جو 2015میں کم ہوکر 2.6تک ہو گیا ہے ۔ہندو خواتین میں 1992میں فی خاتون 3.3بچے تھے اور2015میں گھٹ کر 1.2اوسط تک پہنچ گیا ہے۔اس وقت ہندو اور مسلم خواتین کے درمیان زرخیزی کا فرق صرف ایک فیصد ہے جو آگے جاکر یہ فرق محض 0.5فی خاتون رہ جائے گا۔
جنوری 2020 میں کولکاتہ میں منعقدہ ایک تقریب میں نوبل انعام یافتہ ابھیجیت بنرجی نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ ’’ملک میں مسلمان کبھی اکثریت میں ہوجائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کے خوف کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔مسلمانوں کی آبادی سے متعلق ہمیں حکمراں جماعت کے لیڈروں اور ان کے ہم خیال جماعتوں کے سربراہوں سے جوباتیں سننے کو ملتی ہیں وہ اکثریتی آبادی کو شیطان بنانے کا ذریعہ ہے‘‘۔ یہ شیطانیت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف آسام اور اترپردیش جیسی ریاستوں میں آبادی پر کنٹرول کرنے والے قانون نافذ ہورہے ہیں تو وہیں دائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ لیڈر ہندوؤں کو کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔حکومت ان زہر آلود بیانات کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خاندان کے حجم کا تعلق تعلیم اور معیار زندگی کی بہتری سے ہے۔تعلیم یافتہ اور بہتر معیار زندگی کے حامل خاندانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح ناخواندہ اور بے روزگار افراد کے مقابلے کم ہے۔چناں چہ جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں میں شرح پیدائش بہار اور اترپردیش و دیگر ریاستوں کے دیہی علاقوں میں آباد ہندوؤں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور ’’آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشیٹو‘‘ کے ذریعہ شائع کردہ 2020 گلوبل ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی انڈیکس (MPI) کے مطابق ہر تیسرا مسلمان آمدنی، غذائیت، صحت، تعلیم، معیار زندگی وغیرہ کی بنیاد پر غربت کا شکار ہے۔ صرف 63.7 فیصد مسلم گھرانوں کو نل کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔یہی صورت حال شمالی ہند کے دیہی علاقوں میں آباد میں پسماندہ، دلت اور قبائلیوں کی ہے ۔چناں چہ ان کے یہاں بھی شرح پیدائش مسلمانوں سے کم نہیں ہے ۔کیوں کہ خاندان کا حجم تعلیم سے براہ راست منسلک ہے۔ کسی کی تعلیم اور آمدنی جتنی زیادہ ہوگی خاندان کا حجم اتنا ہی چھوٹا ہوگا۔
کیا چین اور ہندوستان کا موازنہ درست ہے؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ہندوستان میں بھی آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے چین اور دیگر یوروپی ممالک کے طرز پر فی خاندان ایک بچہ یا پھر دو بچوں کا قانون سختی سے نافذ کردیا جائے۔ چین نے ستمبر 1980 میں فی خاندان ایک بچہ کی پالیسی متعارف کرائی اور 2016تک یعنی 36سالوں تک فی خاندان ایک بچے کی پالیسی کو سختی سے نافذ کیا گیا۔ مگر آبادی میں عدم توازن ، جنسی شرح نمایاں فرق اور چین کی آبادی میں عمر دراز افراد میں بے تحاشا اضافے کے بعد 2016کے بعد فی خاندان ایک پچے کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے کم سے کم تین بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جانے لگی ہے۔چین میں60سے زائد عمر کے افراد کی تعداد اس وقت 20فیصد سے زائدہے ۔سماجی تحفظات اور پنشن کی اسکیموں کی وجہ سے چین کے خزانے پر یہ غیر فعال افراد بوجھ بنتے جارہے ہیں دوسری طرف افرادی قوت میں بحران کا اثر اب چین کی پیداوار پر پڑنے لگا ہے ۔اپنے پیدوار کی رفتار کوبرقرار رکھنے کی لیے چین کو بیرون ممالک سے آنے والے ورک فورس پر انحصار کرنا پڑے گا۔ظاہر ہے کہ اس صورت میں پروڈکٹ کامعیار اور لاگت دونوں متاثر ہوں گے اس لیے ممکن ہے کہ چین میں جلد ہی فی خاندان کم سے کم دو بچے کی پیدائش سے متعلق قانون سازی کرکے اس کو سختی سے نافذ کیا جائے گا۔فیملی پلاننگ اور آبادی پر کنٹرول کرنے کی لیے قانون سازی کے اثرات پر اگلے سطور میں بات کی جائے گی تاہم چین کے حوالے سے اس سوال پر ضرور غور وفکر کرنا چاہیے کہ آج چین امریکہ کے بعد سب سے مضبوط معیشت والا ملک ہے تو کیا اس کی صرف ایک ہی وجہ آبادی پر کنٹرل ہے؟1980تک ہندوستان اور چین دونوں ممالک غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ اس وقت چین میں فی کس آمدنی 156.4 ڈالر سالانہ تھی اور ہندوستان میں 205.7ڈالر فی کس آمدنی تھی ۔مگر آج چین فی کس آمدنی کے اعتبار سے ہندوستان کے مقابلے چھ گنا زیادہ آگے ہے ۔ 2021 میں چین کی فی کس آمدنی 12,556 ڈالر ہے، جب کہ 2020 میں ہندوستان میں فی کس آمدنی 1,933ڈالر ہے۔فی کس آمدنی کی وجہ سے ہی چین آج کھل کر اپنی دفاعی قوت پر توجہ دے رہا ہے اور اقتصادی سامراج کے ذریعہ غربت کے شکار ممالک کومعاشی غلام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
چین کی معاشی ترقی کے پیچھے آبادی پر کنٹرول کرنے کے قوانین سے زیادہ اقتصادی پالیسیاں اور اس کا ایماندارنہ طریقے سے نفاذ اہم وجہ ہے۔1978میں چین نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کرتے ہوئے زراعت پر بنیادی توجہ دی ۔زرعی منڈیوں کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کردیا نتیجے میں کسانوں کی آمدنی میں 14 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ جیسے جیسے لوگوں میں خوشحالی آئی اور کسانوں کی حقیقی آمدنی دوگنی ہو گئی، غربت کی شرح میں صرف چھ سالوں میں 50فیصد کمی آئی۔ گزشتہ چار دہائیوں 1978-2018 کے درمیان یعنی 40 سالوں میں چین کی زراعت نے 4.5 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کی ہے۔دیہی لوگوں کی بہتر معیشت کی وجہ سے مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا اورچین کو اصلاحاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں آسانیاں ہوئیں ۔ہندوستان میں 1991 میں اصلاحات کی شروعات ہوئی اس وقت سے اب تک ہندوستان کی زرعی جی ڈی پی کی شرح نمو تقریباً 3 فیصد سالانہ تک ہی پہنچ سکی ہے۔گزشتہ چار دہائیوں میں اب تک ہندوستان کوئی زرعی پالیسی بناپایا ہے اور نہ ہی صنعت اور زراعت کے درمیان توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔کسانوں کی آمدنی میں اضافے کے دعوے تو ضرور کیے جارہے ہیں مگر زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں ۔کسانوں کی خودکشیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔زرعی اصلاحات کے علاوہ چین نے مینوفیکچرنگ اور برآمدات پر خصوصی توجہ دی ۔اس کے مقابلے ہندوستان میں چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتیں جو ہندوستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھیں کو بے و یار مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔چناں چہ حالیہ برسوں میں تیزی سے چھوٹی صنعتیں بند ہوئی ہیں اور حب الوطنی کے تمام نعروں کے باوجود بازار کا چینی پروڈکٹ پر انحصار بڑھ گیا ہے اور برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات پروفیسر امرتیہ سین اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں ’’گزشتہ 4دہائیوں میں چین اور خود ہندوستان نے جو ترقی کے منازل طے کیے ہیں وہ انسانی دولت Skilled Human resource کی بدولت ہوئی ہے۔اگر آبادی اور افرادی قوت کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ دی گئی تو 2050تک ہندوستان اور چین اقتصادی طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ اس لیے ترقی پذیر کثیر آبادی والے ممالک کو اپنی انسانی دولت پر پیسہ خرچ کرنا چاہیے تاکہ اس کی قیمت مزید بڑھے‘‘۔
1970 کی دہائی کے اوائل میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے فرزند سنجے گاندھی نے جبراً نس بندی کے ذریعہ آبادی پر کنٹرول کرنے کی جارحانہ کوشش کی ۔اگرچہ ان کی کوششوں کا نشانہ بھی مسلم آبادی ہی تھی۔سنجے گاندھی کی جابرانہ اور ظالمانہ مہم نے ہندوستانی معاشرے کو اس طرح خوف زدہ کردیا کہ آج بھی ہندوستان میں نسل بندی اور آبادی پر کنٹرول کرنے کے طریقے کار پر بات نہیں کی جاتی۔ چین نے گزشتہ چالیس سالوں میں صحت اور خواتین کے مسائل کے حل کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی مگر ہندوستان میں ان دونوں حوالوں سے صورت حال بہت ہی زیادہ مایوس کن ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (2019-21) کے مطابق 6 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں میں سے صرف 16.6 فیصد ہی 12 سال یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرپاتی ہیں۔ASER کی متعدد رپورٹس تعلیم کے معیار کی خرابی کی نشاندہی کرتی ہیں۔اس کے علاوہ NFHSکے اعداد و شماربتاتے ہیں کہ پانچ سال کے عمر بچوں میں 35فیصدبچے غذائی قلت کا شکار ہیں اس کی وجہ سے ان بچوں کی صحیح نشو و نما نہیں ہوپاتی ہے۔2019-21کے سروے کے مطابق مطابق 15-49 سال کے تولیدی عمر کے گروپ میں 57 فیصد خواتین خون کی کمی کی شکار ہیں۔جب کہ 2015-16میں 53فیصد خواتین خون کمی کی شکار تھیں ۔بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو جیسی اسکیمیں ناکامی کے دہانے پر اسی لیے کھڑی ہیں۔ حکومت ان اسکیموں کے ذریعہ صرف اپنی تشہیر کرتی ہیں۔روزگار میں خواتین کی شرکت صرف 25 فیصد ہے جب کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں 40سے 50فیصد کے درمیان ہے۔ خواتین کی صحت اور تعلیم کی یہ مایوس کن صورت حال ہندوستان میں بچوں کے مستقبل پر غور کرنے کی متقاضی ہے۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کا فلسفہ
19ویں صدی کے آغاز میں برطانوی مفکر و دانشور تھامس رابرٹ مالتھس نے سب سے پہلے دنیامیں غربت، جہالت اور ناخواندگی کی شرح میں اضافے کی وجہ آبادی میں اضافے کو قرار دینے کی تھیوری پیش کی ۔اس نے کہا کہ دنیا کی آبادی 1,2,4,8کی رفتار سے بڑھ رہی ہے ۔جب کہ زمین کے خوراک اور وسائل میں اضافہ 1,2,3,4,5کی رفتار سے ہورہا ہے۔اگر انسانوں کی آبادی پر کنٹرول نہیں کیا گیا توایک وقت آئے گا جب انسان انسان کا گوشت کھانے پر مجبور ہوجائے گا۔اس پر اس کا مشہور زمانہ تحقیقی مقالہ ’’Essay on Principle of Population پر خوب بحثیں ہوئیں ۔اس کی اس تھیوری کو فوری طور پر مقبولیت حاصل نہیں ہوئی مگر ایک صدی بعد 1973 میں اقوام متحدہ نے آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے ایک عالمی پالیسی دنیا کے سامنے پیش کی۔ترقی پذیر ممالک میں اس کو نافذ کرنے کی لیے قرض اور ترقیاتی فنڈ کی فراہمی کو آبادی پر کنٹرول کرنے کی شرط سے مشروط کردیا گیا ۔
اس پالیسی کے نفاذ کے محض چالیس سال بعد اس کے منفی اثرات سامنے آنے لگے ۔اس پالیسی کے نتیجے میں ورکنگ اور نوجوان لیبر فورس کی تعداد میں نمایاں کمی ہو گئی۔ دنیا بھر میں ساٹھ سال سے زائد عمر کی آبادی 1990ء میں 50 کروڑ تھی جو 2017ء میں 96 کروڑ ہو گئی اور 2030ء میں ایک ارب40 کروڑ سے تجاوزر کرجانے کا تخمینہ ہے۔ چین میں ایک بچہ پالیسی کی وجہ سے گزشتہ دہائیوں میں 40کروڑ کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں بھی کمی آئی۔شادی کی عمر کے 5 نوجوانوں کی لیے محض ایک لڑکی موجود ہے۔دنیا بھر میں آبادی کنٹرول قانون نافذ کرنے کی وکالت کرنے والے اقوام متحدہ نےدنیاکے 94 ممالک میں انسانی شرح پیدائش ضرورت سے کم ہونے کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے ان تمام 94 ممالک کو اپنی اپنی آبادی میں اضافہ کی ہدایت دی ہے۔چناں 15مئی 2008کو ’’دی اکانومسٹ ٹائمس ‘‘ نے ایک مضمونMalthus, the false prophet کے عنوان سے شائع کرکے مالتھس کی تمام تھیوریوں کی موت کا اعلان کردیا ۔یہ مضمون اس بات کا ثبوت ہے کہ آبادی میں اضافہ کی وجوہات غربت، جہالت اور ناخواندگی نہیں ہے بلکہ وسائل اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔دنیا کی دولت تیزی سے چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جارہی ہے۔گلوبلائزیشن کی آڑ میں ملٹی نیشنل کمپنیاں چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو نگل رہی ہیں۔جہاز سازی سے لے کر سبزی اگانے تک کے کاروبار پر ملٹی نیشنل کمپنیاں حاوی ہورہی ہے۔
دنیا میں جہالت، ناخواندگی اور غربت میں اضافے کی دوسری وجہ قدرتی وسائل کا بے جااستعمال اور اسراف ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ زمین پر آبادی کا نہیں بلکہ اسراف consumption کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک امریکی شہری 721بنگلہ دیشی شہریوں کے برابر قدرتی وسائل کا استعمال کرتا ہے۔ آبادی کم ہونے کے باوجود امریکہ ہوا، پانی ، بجلی ، پٹرول اور گیس کے بجااستعمال کی وجہ سے فضائی آلودگی پھیلانے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ایک طرف آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں مگر وہیں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے بجائے دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں غذائی قلت سے زیادہ غذاکی فراوانی اور موٹاپے کی وجہ سے لوگ زیادہ مرتے ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک میں ہرروز جتنے کھانے ضائع ہوجاتے ہیں اس سے افریقی ممالک میں غذائی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
مالتھس کے نظریہ سے قبل بھی دنیا میں تخفیف آبادی کے مختلف طریقے رائج تھے۔مگر یہ تمام طریقے انفرادی نظریے تک محدود تھے ۔رومیوں کے یہاں تخفیف آبادی کے مختلف طریقے رائج تھے۔خود عرب میں ’’عزل‘‘ کا طریقہ رائج تھا۔نبی کریم ﷺ۔ کی بعثت کے بعد بھی مسلمانوں میں بھی یہ روایت باقی تھی۔اسلام نے ماں اوربچے کی صحت پر سب سے زیادہ توجہ دی اور اسی مقصد کی لیے ماوں کو کامل دو سال بچے کو دودھ پلانے کا حکم دیا گیا ۔ اسی طرح ماں، بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم اور صحیح تربیت کے پیش نظربچوں کی پیدائش میں وقفہ کرسکتی ہے مگریہ ذاتی فیصلہ ہے ریاست کو فرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں مداخلت کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے۔مالتھس دنیا کا پہلا انسان تھا جس نے آبادی کو دنیا کے وسائل کے ساتھ مربوط کرکے آبادی پر کنٹرول کرنے کا تصور پیش کیا۔مغرب نے مالتھس کا شمار ’’زمینی پیغمبروں‘‘ میں کرنا شروع کردیا تھا مگر آج یہ نام نہاد زمینی پیغمبر آبادی کے عدم توازن کی وجہ بن گیا ہے۔ یورپ، چین، سنگاپور، جاپان اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نہ صرف مالتھس کے نظریہ کی موت ہوئی ہے بلکہ آج اس کو جھوٹا قرار دیا جارہا ہے۔
ترقی پذیر ممالک اور تیسری دنیاکو اب رک کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ مغرب کے آزمائے ہوئے نسخے کو کیوں آزمانا چاہتے ہیں حالاں کہ آبادی پر کنٹرول کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک آبادی کے عدم توازن اور ورک فورسیس کے بحران کا شکار ہوگئے ہیں؟ اور اگر اس پالیسی کو یہاں نافذ کیا گیا تو صورت حال کیا ہوگی؟ ترقی پذیر ممالک تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک سے ورک فورسیس کو بلاکر اپنی کمیوں کو پوار کررہے ہیں مگرتیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک آبادی پر کنٹرول کرنے والے قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افرادی قوت کے بحران کا مقابلہ کیسے کریں گے؟افرادی قوت کی قلت کا راست اثر پیدوار پر پڑے گا اور اس صورت میں بھکمری کے حالات پیدا ہونے کے زیادہ امکان ہوجائیں گے۔چناچہ آبادی میں تخفیف کے اختیارات فرد کی آزادی اور اس کے انتخاب پر چھوڑنا چاہیے اور یہ کام حکومتوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے حکومتوں کودولت اور وسائل کی مساویانہ تقسیم ، قدرتی وسائل کے غیر ضروری استعمال پر قدغن لگانے اور اس کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کے پیش نظر پالیسیاں بنانے کے بجائے زراعت اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ ، بچوں اور خواتین کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کے ساتھ افرادی قوت کو بروئے کار لانے کے لیے تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔آج دنیا کے سامنے ’’آبادی کے دھماکے‘‘ سے کہیں زیادہ بڑا خطرہ وسائل اور ملک کی دولت کا بے جا استعمال اور اس کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا ہے۔کاش ہم اس مسئلے پر توجہ دے سکیں۔