Friday, October 18, 2024
homeاہم خبریںبنگال اردو اکیڈمی مالی بحران کی شکار ---’اردو کتاب میلہ‘ غیر یقینی...

بنگال اردو اکیڈمی مالی بحران کی شکار —’اردو کتاب میلہ‘ غیر یقینی صورت حال سے دوچار٭محدود پیمانے پرمنعقد ہونے کا امکان فنڈ دستیابی کے معاملہ وزیر اقلیتی امور نے بھی ہاتھ کھڑے کرلئے سیمینار کے نا م پر دھماچوکڑی کے سلسلے پر بریک٭کوچنگ کلاسز سیاسی طالع آزمائوں کے نرغے میں‘مہینو ں سے ادائیگی نہیں

خصوصی رپورٹ
کلکتہ (انصاف نیوز)
ایک ایسے وقت میں جب کلکتہ میں ”جشن اردو“ مشاعروں“ ادبا و شعرا کو ایوار ڈ سے نوازے جانے کی تقریب کی ہرطرف دھوم دھام ہے۔محلہ، گلی کوچے اور وارڈ سطح پر مشاعرے ہورہے ہیں اور بنگال میں اردو کے روشن مستقبل کے نام پر ڈونگڑے برسائے جارہے ہیں۔ایسے میں بنگال میں اردو اسکول اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مالی بحران سے گزرنے کی خبروں کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا کافی مشکل کا م ہے۔
مگر حقیقت یہی ہے اور انصاف نیوز آن لائن حقائق کو سامنے لانے میں ہی یقین رکھتا ہے چاہے سرود ومستی میں غرق اردو آبادی توجہ دے یا نہ دے ہمارا کام اپنے قارئین کو اصل حقائق روسناش کرانا ہے اور ہم اس فرض کی ادائیگی کرتے رہیں گے۔
سرو د و مستی، طرب و نشاط کی محفلیں،بیرون ملک سے آنے والی شخصیات کی پذیرائی اور اردو کے نام پر نہاری اور پائے کی دعوت اپنی جگہ مگرحقیقت یہ ہے کہ مغربی بنگال میں اردو اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔بیشتر اردو اسکولوں میں طلبا کی تعداد کے اعتبار سے اساتذہ نہیں ہے۔اردو میڈیم کے طلبا ہندی میڈیم اور دیگر میڈیم کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔یونیورسٹی اور کالجوں کے اردو شعبے بھی اسی طرح کے بحران سے گزررہے ہیں۔
اب گزشتہ 11سالوں سے جشن و ہنگامہ آرائی کے نام پر اردو کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والی اردو اکیڈمی بھی مالی بحران کا شکار ہوگئی ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے سیمینار کے نام پر دھماچوکڑی اور اپنے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ بند ہے۔اب اردو اکیڈمی کا سب سے اہم پروگرام ”اردو کتاب میلہ’‘جسے گزشتہ 8سالوں سے بڑے ہی دھوم دھام سے منعقد کیا جاتا تھا وہ غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔اکیڈمی انتظامیہ اردو کتاب میلہ کو محدود پیمانے پر منعقد کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔امید کی جارہی ہے کہ بجٹ کٹوتی کے نام پر عالیہ یونیورسٹی (مدرسہ عالیہ) کے اندرونی گراو¿نڈ(کاریڈور) میں یہ میلہ منعقد ہوگا۔اس کیلئے اردو اکیڈمی کے ذمہ داروں نے عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، رجسٹرار اور تھیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے رابطہ بھی کیا ہے۔تاہم عالیہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا ناراض ہیں کہ ایک ہفتے تک یونیورسٹی کے احاطے میں پروگرام منعقد ہوگا تو تعلیم کو نقصان پہنچے گا اور کلاسز نہیں ہوسکیں گی۔دیکھنا ہوگا کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے گا۔
مگر سوال یہ ہے کہ دس کروڑ روپے سے زائد فنڈ ہونے کادعویٰ کرنے والی اردو اکیڈمی اچانک بحران کا شکار کیوں ہوگئی ہے؟ کیا حکومت نے فنڈ دینا بند کردیا ہے۔اگر ہاں تو ایسا کیوں ہوا؟حکومت کی جانب سے فنڈ دینے کا سلسلہ کیوں روک دیا گیا ہے۔ دراصل مغربی بنگال حکومت ہی اس وقت شدید مالی بحران کی شکار ہے۔ممتا بنرجی ایک طرف ووٹ بینک کی سیاست کی خاطر بڑے پیمانے پر ریوڑی تقسیم کررہی ہیں اور اس کے لئے ہر مہینے لاکھوں کروڑ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں وہیں مرکز اور ریاست کے درمیان ٹکراو¿ او ر بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے مرکزی حکومت نے کئی مرکزی اسکیمو ں کیلئے فنڈ روک دیا گیا ہے۔منریگا کے تحت کام کرنے والوں کو ایک سال سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھی ریاستی یونیورسٹیوں کو مختلف اسکیموں کے تحت فنڈ روک دیا ہے۔ممتا بنرجی کیلئے فلاحی اسکیموں کو جاری رکھنے کیلئے ہرمہینے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے۔چوں کہ اسی سال جولائی تک پنچایت انتخابات ہونے ہیں،فلاحی اسکیمیں روکے جانے کی وجہ سے عوام میں ناراضگی پھیل سکتی ہے۔اس لئے حکومت کسی بھی قیمت پر ریوڑی بانٹنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اساتذہ کی تقرری میں بدعنوانی کی وجہ سے ترنمول کانگریس کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ترنمول کانگریس کے کئی لیڈران اس وقت جیل میں ہیں۔اس لئے ممتا بنرجی حکومت نے تمام محکموں کے فنڈکو فلاحی اسکیمو ں کے حوالے کردیا ہے۔چنانچہ اس وقت حکومت کے بیشتر محکمے اسی طرح سے مالی بحران سے دوچار ہیں۔اس کا اثر سب سے زیادہ تعلیمی اداروں پر پڑا ہے۔جادب پور یونیورسٹی سے متعلق انصاف نیوز پر تفصیلی رپورٹ آپ بڑھ چکے ہیں۔اردو اکیڈمی بھی اسی وجہ سے بحران کی زد میں ہے۔
مگر اردو اکیڈمی کا مالی بحران کسی حد تک عہدیداران کی شہرت پسندی اور خودپسندی کا نتیجہ ہے۔گزشتہ 11سالوں میں اکیڈمی کے عہدیداران جن میں زیادہ تر کاتعلق سیاست سے ہے‘ نے اردو اکیڈمی اور اس کے سرمایہ کو شہرت اور نامور ی کیلئے استعمال کیا۔ہر وہ کام کئے جس سے اردو اخبارات اور سوشل میڈیا پر تصویر کی اشاعت کے مواقع ملیں اور ہراس کام سے گریزکیا جو اردو کی ترویج و ترقی کی بنیاد ثابت ہو۔چنانچہ گزشتہ 8سالوں میں اردو اکیڈمی کا نامہ اعمال دیکھاجائے توسمینار، جشن، ہنگامہ آرائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔پے درپے سمینار کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا اور ایک ایک سیمینار پر پانچ پانچ اور دس دس لاکھ روپے خر چ کئے گئے۔سیمینار کے بین الاقوامی معیار اور اس کے طریقہ کار کو نظر انداز کردیا گیا۔ایسی ایسی شخصیت کو سیمینار کیلئے مدعو کیا گیا اور ان پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے جن کے فن و ادب اور شخصیت سے لوگ واقف تک نہیں تھے۔مگر خانہ پری کیلئے دو دو صفحات کا مقالہ لکھ کریہ حضرات حاضر ہوگئے۔
”کتاب میلہ“صرف چند کتابوں کی دوکانیں لگانے کا نام نہیں ہوتا ہے۔بلکہ کتاب میلہ تہذیب و ثقافت اور ادب و فن کی نمائش اوراسے نئی نسل میں منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔اردو اکیڈمی کی سابق وائس چیرمین شہناز نبی نے اسی مقصد سے اردو کتاب میلہ کی شروعات کی تھی۔بائیں محاذ کے دور میں فنڈ کی قلت ہونے کے باوجود اردو اور اردو ادب سے وابستہ شخصیات کیلئے یہ کتاب میلہ کئی معنوں میں باعث کشش تھا۔تاہم 2011میں ترنمول کانگریس کی حکومت آنے کے ساتھ ہی کتاب میلہ سیاسی طالع آزماو¿ںکیلئے شہرت اور ناموری کا ذریعہ بن گیا۔کتا ب میلہ میں سیاسی لیڈروں کو استقبالیہ دیا جانے لگا۔ادب و ثقافت پیچھے چلا گیا۔چنانچہ دھیرے دھیرے اردو پبلشر کی توجہ کم ہوتی چلی گئی کیوں کہ سیاسی دھماچوکڑی کی وجہ سے اردو قارئین کی توجہ کم ہوتی چلی گئی۔ابتدائی سالو ں میں اردو کتاب میلہ محض چند لاکھ روپے میں منعقد ہوجاتا تھا مگر بعد میں ایک کتاب میلہ پر چالیس لاکھ سے پچاس لاکھ روپے تک خر چ کئے جانے لگے۔
کتاب میلہ کیلئے چند ہفتے قبل نہیں بلکہ کئی مہینے قبل تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں۔اس کیلئے ملک بھر سے پبلشرس کو مدعوکیا جاتا ہے۔کتاب میلہ کو ادبی میلہ بنانے کیلئے ادب و ثقافت کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں، قارئین سے مصنفین، ادبا و شعرا اور فن کے ماہرین کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔مگر بنگال اردو اکیڈمی ہی واحد اکیڈمی ہے جو محض دو تین ہفتے کی تیاری سے کتاب میلہ منعقد کرتی ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے معیاری پبلشرز نہیں آتے ہیں۔کیوں کہ ارو کا عام قاری کتا ب میلہ سے نہیں جڑ پاتا ہے۔ادب وثقافت کے نام پر ان کے پاس صرف اور صرف مشاعرے ہوتے ہیں۔اور سیاسی لیڈروں کو استقبالیہ
محکمہ ا قلیتی امور کے ایک مسلم افسرنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بنگال اردو اکیڈمی کی بدنظمی کی مختلف شکایات محکمہ کو موصول ہوتی رہی ہیں۔ہمیں اوپر سے ہدایت دی گئی ہے کہ اس معاملے کو دیکھیں ۔اس لئے فنڈ کے اجرا کوبتدریج روک دیا گیا ہے۔چنانچہ اس ہفتے اردو اکیڈمی کی جنرل کونسل کی میٹنگ میں ریاستی وزیر اقلیتی امور غلام ربانی نے بھی فنڈ کی قلت کے سوال پر ہاتھ کھڑے کرلئے اورکہاکہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔فنڈ کی قلت کا سب سے زیادہ اثر کوچنگ کلاسز پر پڑرہاہے ، مہینو ں سے فیکلٹیز کو ادائیگی نہیں ہوئی ہے………………………………(جاری)
(ہم اگلی قسط میں اس پر روشنی ڈالیں گے)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین