سمیع اللہ خان
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی نومنتخب اور عمر رسیدہ قیادت کے انتخاب پر جس طرح سے عہدیداران کی گل پوشی اور جشن و تہنیت کا سیلاب آیا ہوا ہے اس کو دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ کسی باوقار ملت کی نظریاتی قیادت کا انتخاب ہوا ہے بلکہ جشن کا سماں ایسا ہے جیسے گلی محلے کے کارپوریٹر یا پارشد کا چناؤ یا پھر گاؤں کے پردھان اور چیئرمین کا انتخاب عمل میں آیا ہو، اترپردیش اور بہار بلکہ مجموعی طورپر “ہندی بھاشی” ریاستوں میں آج تک ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے کہ جب ان کے کارپوریٹر، پارشد، میئر، چیئرمین یا پردھان جی، جیت کر آتے تھے تو گلابوں کے بوجھ میں دبتے مسکراتے ہوئے ان کی تصاویر سامنے آیا کرتی تھی لیکن کس نے سوچا تھا کہ کبھی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر و جنرل سیکریٹری سمیت دیگر عہدیداران بھی ایسا ہی تماشا کریں گے جو پردھانوں اور کارپوریٹروں کی پہچان تھی، البتہ اس بابت کلام کی گنجائش ہنوز موجود ہے کہ; گاؤں کے پردھانوں، وارڈ ممبروں، چیئرمینوں اور کارپوریٹرز کے ٹرینڈ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ متاثر ہوگیا یا پردھانوں کو یقین تھا کہ آگے چل کر ان کا یہ کلچر مسلمانوں کی سب سے بڑی مذہبی و ملی جماعت میں بھی مقبولیت حاصل کرجائےگا_
جبکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی جماعت ہے، مسلمانوں کے امتیازی تشخصات کی نگہبانی اور عائلی امتیازات کے تحفظ کی بنیاد پر اس کا وجود ہے، اس کی زمام کار ہمیشہ سے مسلمانوں کے بڑے علما و اکابرین کے ہاتھوں میں رہی ہے، پرسنل لا بورڈ کے لیڈروں کو مسلمانوں کی معاشرت کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا اور وہ یہ نمونہ پیش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے علما و اکابرین کیسے ہوتے ہیں، آج جب آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈرشپ نے مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کی ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو دیکھا ہوگا تو یقینا بڑے مطمئن ہوئے ہوں گے کہ عہدوں میں ہی جو لوگ پھولے نہ سماتے ہوں ان سے بھلا کیا خطرہ؟ اور ان کی ملت کو پسپا کرنے کی کیا فکر جن کے رہنماؤں کے مقاصد و مطمح نظر اتنے چھوٹے ہوں_
مسلم پرسنل لا بورڈ میں عہدہ پانے والے افراد وہ ہیں جو یا تو اسلامی فقہ کے نمائندہ ہیں یا تو تجدید کے علمبردار اور دیگر حضرات بھی اہل علم و دانش اسلامی دانش وری کی نمائندگی کا دم بھرنے والے، کیا ان حضرات نے قومی مناصب اور ملّی تنظیموں کے عہدوں سے متعلق شریعتِ اسلامیہ کی واضح تعلیمات کا بھی علم نہیں؟ جنہیں شریعت و اسلام کی اتنی بنیادی امتیازات بھی پتا نہیں اور جنہوں نے اپنے عہدوں کی شروعات ہی ایسی خرافات و بدعات کےساتھ کی ہو ان کے دور میں عام مسلمانوں کو کیسی برکتیں حاصل ہوں گی؟
حدیث رسول کے مطابق، اللہ کے رسول کا یہ اصول تھا کہ ہم کسی بھی ایسے شخص کو عہدہ ہرگز نہیں دیں گے جو عہدے اور منصب کا طلبگار ہوگا
توپھر سوچیے کہ جو لوگ ملت کے اہم ترین مناصب اور ملی تنظیموں کے عہدے حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ سفر در سفر کرکے لابنگ اور پیسے بہا بہا کر ملی تنظیموں کے ووٹرز کو اپنی طرف کرتے ہوں ان کا عہدے حاصل کرنا کس قدر ناجائز فعل ہوگا؟
ملت سے جڑے ہوئے عہدے کسی بھی شخص یا شخصیت کی جاگیر نہیں ہوتے ہیں نہ ہی ان شخصیات کے عہدیدار بننے سے ملت پر احسان ہوتا ہے بلکہ ملت کی اجتماعیت سے جڑے عہدے عہدیدار پر احسان ہوتے ہیں کہ وہ ان کا حق ادا کرکے اپنی آخرت سنوار لے،
اسی لیے اللہ تعالی عہدوں کو امانت کہا ہے، اللہ کے رسول نے عہدوں کو امانت قرار دیا ہے،
عہدوں کے امانت ہونے کی سنگینی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے صراحتا ثابت بھی ہے، صحابئ رسول حضرت ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃُ وَ اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَ نَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ، بروایت ابوذرؓ)۔
‘‘یعنی’’ اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیں اس کو ادا کیا‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارننگ دی ہے کہ جو عہدوں سے متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرےگا تو وہ قیامت کے دن ذلیل و خوار ہوگا،
ایک اور حدیث میں آتا ہے:
’’مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ اِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ)۔
‘‘ یعنی ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی ملت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
’’مَا مِنْ وَالٍ یَلِی رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوتُ وَ ھُوَ غَاشٌّ لَھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ)۔
‘‘یعنی ’ ’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔
انہی سنگین اور حساس بنیادوں کی وجہ سے صحابہءکرامؓ کے متعلق آتا ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے مفاد اور اسلامی نمائندگی کے عہدے ملتے تو وہ خوف سے کپکپانے لگتے تھے،
خلیفہء اول حضرت ابوبکرصدیقؓ اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ کو جب خلافت کا منصب ملا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو عامۃ المسلمین کے سامنے محاسبے کے لیے پیش کیا اور جب تک منصبِ خلافت پر جلوہ افروز رہے اسے بارِ خلافت ہی سمجھا، آزمائش کےعلاوہ کوئی Privilage ہرگزنہیں سمجھا،
عمرِ ثانی، خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے متعلق آتا ہے کہ جب ان کی خلافت کا وقت قریب آیا تو ان کی زبان سے بےساختہ ” انا للہ ” کا لفظ ادا ہوا، اعلانِ خلافت کے وقت ’’انا اللہ ‘‘ کی دو آوازیں بیک وقت گونجی تھیں، ایک تو ہشام کو حکومت کے کھو جانے کا صدمہ تھا اسلیے اس نے اناللہ پڑھا اور دوسرے عمر بن عبد العزیزؒ کو حکومت مل جانے کا افسوس ہورہا تھا_
عمر بن عبد العزیز اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے سے لرز رہے تھے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا اور وہ خوفزدہ تھے
عمر بن عبدالعزیز ؒ نے دو مرتبہ کوشش کی کہ ملّت انہیں اس ذمہ داری سے سبکدوش کردے اور عہدہء خلافت سے آزاد!
ماضی قریب میں بھی دیکھیں تو عالم اسلام کی نمائندہ تحریکات سے لے کر ہندوستان کی بھی اصلاحی و مذہبی جماعتوں میں کبھی بھی عہدہ پانے کا جشن و شور سنائی نہیں دیتا تھا، مولانا حسین احمد مدنی ؒ جمعیت علما کے ذمہ دار رہے، قاری طیب صاحب نصف دہائی تک دارالعلوم دیوبند کے عہدے پر فائز رہے اس کے علاوہ قاری طیب صاحب، مولانا منت اللہ رحمانی صاحب، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب، سے لے کر قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب رحمھم اللہ تک کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن افسوس کہ ان بزرگوں کو عہدہ پانے کےبعد کبھی ازخود گلے مل مل کر اور گاڑیوں پر سوار ہوکر ہنستے مسکراتے کھلی جیپ میں نہایت ڈھٹائی کےساتھ گلے میں ہار پہنتے پہناتے نہیں سنا، نہیں پڑھا نہ دیکھا گیا، کیونکہ یہ سب حرکتیں ہمیشہ سے خرافات میں شمار ہوئی ہیں، اسلام کے علمی و فکر نمائندوں نے ہمیشہ ایسی سطحی خرافات سے اپنا دامن بچائے رکھا تھا تاکہ وہ عہدوں کو ذاتی سربلندی کا نشہ نہ سمجھ بیٹھیں، جوابدہی سے آزاد نہ ہوجائیں بلکہ مسلمانوں کی طرف سے دیے گئے مناصب کو اللہ و رسول اللہ کی تعلیمات اور سیرتِ صلحاء و مصلحین کےمطابق ہی معاملہ کریں، افسوس کہ جس وقت بھارت میں ملت اسلامیہ پرآشوب حالات سے گزررہی ہے اور جب مودی سرکار سے لےکر آر ایس ایس مسلمانوں کے وجود پر حملہ آور ہے تب بورڈ کا عہدیدار بننے پر جشن منایا جارہا ہے، جہاں عہدوں پر جشن ہوتا ہے وہاں سے برکتیں چھٹ جاتی ہیں اور ملی مفادات کی جگہ ذاتی رجحانات ڈیرہ ڈال دیتے ہیں، اسی ڈیرے میں آج عہدیدار خوشحال ہیں اور ملتِ اسلامیہ پریشان!
شکوہ سنیے اقبال ہی کے خوگرِ حمد سے سن لیجیے:
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں ؟!
samiullahkhanofficial97@gmail.com
مصنف کی رایے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں