افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے قائم مقام سربراہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ ملک میں لڑکیوں کے لیے بند سکولوں اور یونیورسٹیوں کو کھولنے کا ’معقول حل‘ تلاش کرنے کے لیے کام جاری ہے۔
افغان نیوز چینل طلوع نیوز کا کہنا ہے کہ سراج الدین حقانی نے یہ بیان صوبہ ہرات میں مذہبی سکالرز، قبائلی مخیر حضرات اور نجی شعبے کے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس میں دیا۔
سراج حقانی طالبان کی سپریم کورٹ کے سربراہ مولوی عبدالحکیم حقانی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سرکاری وفد کے ساتھ ہرات کا دورہ کیا۔
طالبان کی حکومت نے ابھی تک اپنے سینیئر عہدیداروں کے ہرات کے دورے کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں لیکن سراج حقانی نے حال ہی میں کچھ دوسرے صوبوں کا دورہ بھی کیا تھا۔
سرکاری باختر نیوز ایجنسی کے مطابق تاجروں اور صنعت کاروں نے طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے سربراہ سے ملاقات میں اپنے مسائل اور تجاویز سے انہیں آگاہ کیا ہے۔
طلوع نیوز نے ہرات میں نجی شعبے کے نمائندوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ انہوں اس خدشے کا اظہار کیا کہ لڑکیوں کے لیے سکولوں اور یونیورسٹیوں کی بندش سے سرمائے کی ملک سے منتقلی شروع ہو گئی ہے کیوں کہ ’بہت سے خاندان اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پڑوسی ممالک چلے گئے ہیں۔‘
چینل نے ہرات میں ہونے والی اس ملاقات میں سراج حقانی کی تقریر کا ایک حصہ بھی شائع کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں، ’ہم ان مسائل کے معقول حل پر کام کر رہے ہیں۔‘
افغانستان میں طالبان کو دوبارہ برسراقتدار آئے، لڑکیوں کے سکول بند کیے ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں پہلے سے زیر تعلیم لڑکیوں کو بھی منع کر دیا گیا تھا۔
سراج الدین حقانی نے اس ’متنازعہ مسئلے‘ کا تذکرہ تب کیا جب اس سے قبل یہ رپورٹس شائع ہوئی تھیں کہ طالبان رہنما لڑکیوں کے سکول جانے یا نہ جانے پر دو گروپوں میں بٹ گئے تھے۔
افغان خواتین 22 دسمبر 2022 کو خواتین پر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی پابندی کے خلاف دارالحکومت کابل میں احتجاج کے دوران نعرے لگا رہی ہیں (اے ایف پی)
ان اطلاعات کے مطابق طالبان کے بعض رہنما لڑکیوں کی تعلیم کو روکنے پر زور دے رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر اسے جلد کھولنے کے حق میں ہیں اور اسے لڑکیوں کا حق قرار دیتے ہیں۔
طالبان حکومت میں نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس ستانکزئی بھی کئی بار بڑے اجلاسوں میں اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم خواتین اور مردوں کا فطری، اسلامی اور شرعی حق ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان بارہا اس بات کی تردید کرتے رہے ہیں کہ ان کے رہنماؤں کے درمیان اس معاملے پر کوئی اختلاف ہے۔
طالبان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے میدان ہموار کرنے کے لیے اپنے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم حقانی کی سربراہی میں ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے چند ماہ قبل قندھار میں رہنما مولوی ہیبت اللہ کو اپنی سفارشات بھیجی تھیں۔ تاہم اس کے بعد سے اس بارے میں مزید کسی پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔