نور اللہ جاوید
منی پور کے بعد قومی دارالحکومت دہلی کی سرحدوں سے متصل ریاست ہریانہ فرقہ واریت کی زد میں ہے۔ چار دنوں کے کرفیو کے بعد قصبہ نوح اور آس پاس کے علاقوں میں حالات معمول پر لوٹ رہے ہیں مگر فسادیوں کو سبق سکھانے کے نام پر یکطرفہ کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ تشدد کے واقعات کے بعد ہی غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائیاں کیوں ہوتی ہیں؟ منی پور کے سبب جہاں اب بھی تشدد و قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائیاں ٹھپ ہیں۔ وزیر اعظم مودی اس معاملے میں خاموش رہنے پر بضد ہیں تو اپوزیشن ان کی خاموشی کو توڑنے پر مصر ہے۔ اس درمیان نئی دہلی کی سرحدوں سے متصل ریاست ہریانہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور اس سے متعلق ہونے والی رپورٹنگ اور چیختے چلاتے نیوز اینکرس یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے لیے صرف اور صرف مسلمان ذمہ دار ہیں۔ چند نیوز چینلوں نے جانچ ایجنسیوں کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے اور وہ انکشافات کر رہے ہیں کہ اس واقعے کا کنکشن بے خانماں برباد اور ہمہ وقت خوف کی زندگی گزارنے والے کیمپوں میں مقیم روہنگیائی شہریوں سے ہے۔ اس شور و شرابے میں کئی اہم سوالات غائب کر دیے گئے ہیں۔ ڈبل انجن سرکار کی ناکامی اور اسمارٹ قانون کی حکمرانی کے دعویداری پر کوئی سوال نہیں پوچھا جا رہا ہے۔
رواں سال 25 مارچ 2023ء میں سول سوسائٹی اور وکلا کے ایک گروپ ’سٹیزن اینڈ لائرز انیشیٹیو نے اپریل 2022 میں رام نومی اور ہنومان جیتنی کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا تجزیہ کرتے ہوئے ‘‘Routes of Wrath: Weaponising Religious Procession’’ کے عنوان سے 174 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ پر سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن ایف نریمن نے بہت ہی قیمتی اور معلوماتی مقدمہ لکھا ہے جب کہ سینئر ایڈووکیٹ چندر ادے سنگھ نے پیش لفظ لکھا ہے۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی معروف وجوہات کے علاوہ آزادی کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی چند مشترکہ وجوہات ہیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اپریل 2022ء میں ہونے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں چند باتیں مشترک پائی گئی ہیں، وہ یہ کہ تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں یا رہائش گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ چندر ادے سنگھ آگے لکھتے ہیں ’’اپریل 2022ء میں نو ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے جبکہ تین دیگر ریاستوں میں اشتعال انگیزی اور کم درجے کے پرتشدد واقعات رونما ہوئے اور ان سب میں تشدد کا محرک ایک ہی تھا، رام نومی اور ہنومان جینتی کے جلوس۔ اس کے بعد مسلمانوں کی املاک، کاروبار اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا‘۔ سنگھ آگے لکھتے ہیں ’ریاست کی سرپرستی میں ہونے والے تشدد نے فساد زدہ علاقوں میں مسلم خاندانوں کی نقل مکانی کا بحران بھی پیدا کر دیا ہے، وہ یا تو گھروں کے مسمار کیے جانے سے بے گھر ہو گئے ہیں یا مزید ہراساں کیے جانے کے خوف سے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں‘‘ اس رپورٹ میں مشہور فرقہ وارانہ فسادات کا تجزیہ کرتےہوئے ’’فرقہ وارانہ فسادات کے مشترکہ وجوہات‘‘ کو سامنے لایا گیا ہے۔ جسٹس نریمن کے مشورے اور تجزیے پر مضمون کے آخری حصے میں گفتگو کی جائے گی، پہلے نوح اور ہریانہ کے دیگر علاقوں میں ہونے والے تشدد کے واقعات و عوامل کا تجزیہ کیا جائے گا جن کی نشان دہی اس رپورٹ میں کی گئی ہے۔
حالیہ برسوں میں مذہبی تقریبات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ مخصوص علاقوں کے تہواروں کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی دھوم دھام سے منایا جانے لگا ہے۔ مشہور گنپتی تہوار پہلے صرف مہاراشٹر اور آس پاس کے علاقے میں منایا جاتا تھا۔ بہار، اترپردیش، بنگال میں یہ تہوار نہیں منایا جاتا تھا مگر حالیہ برسوں میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت اسے ان ریاستوں میں بھی منایا جانے لگا ہے۔ اسی طرح 2014ء تک بنگال میں کبھی بھی رام نومی کے موقع پر جلوس نہیں نکالے گئے مگر بی جے پی کے عروج کے ساتھ ہی بنگال کے مختلف علاقوں میں رام نومی کے جلوس نہ صرف نکالے جانے لگے بلکہ ہتھیاروں کی نمائش اور اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بنگال میں حالیہ برسوں میں ہوئے تشدد کے بیشتر واقعات رام نومی کے موقع پر اشتعال انگیزی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ نوح میں تین سال قبل تک ’’برج منڈل جل ابھیشیک یاترا‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اسے تین سال قبل وشوا ہندو پریشد نے مسلم غلبہ والے شہر نوح میں ’ہندوؤں کے مقدس مقامات اور ہندو مذہبی سیاحت کو بحال کرنے کے مقصد سے شروع کیا تھا۔ اسی فیصد مسلم آبادی والے ضلع میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مہابھارت کے دور کے تین قدیم شیو مندر ہیں۔ اراولی کو کرشن جی کی گاوں کے چرنے کے میدان کے طور پر مشہور کیا جاتا ہے۔ ان مندروں پر گزشتہ ستر سالوں سے کوئی تنازع نہیں ہے اور یہ تینوں مندر محفوظ بھی ہیں مگر مفروضہ خطرے کے نام پر وشوا ہندو پریشد نے اس یاترا کا آغاز کیا۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران یاترائیں نکالی گئیں مگر تشدد یا پھر خلفشار کا کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے لیکن اس مرتبہ تشدد کے واقعات ہوئے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس مرتبہ ہنگامہ آرائی کیوں ہوئی؟ ’برج منڈل جل ابھیشیک یاترا ‘ کے حوالے سے پولیس انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب ’برج منڈل جلل ابھیشیک یاترا‘ شیو مندر سے تقریباً چند کلومیٹر کے فاصلے پر کھیڈلا موڑ کے قریب پہنچی تو چند نوجوانوں نے اس پر پتھراو شروع کر دیا کیونکہ یہ افواہ تھی کہ اس جلوس میں نام نہاد گئو رکھشک مونو مانیسر شریک ہے جو دو بے قصور مسلم نوجوانوں جنید اور ناصر کے قتل کا ملزم ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق پہلے دونوں گروپوں کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی اس کے بعد طرفین کی جانب سے پتھراو ہونے لگا۔ دونوں فریق مبینہ طور پر تلواروں، سلاخوں، لاٹھیوں اور بندوقوں سے مسلح تھے۔ پولیس انتظامیہ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نوح میں ہونے والا تشدد اچانک رونما ہوا تھا اور اگر فریق مخالف یعنی مسلمانوں کی طرف سے پتھراو نہیں ہوتا تو یہ حالات پیدا نہیں ہوتے مگر زمینی حقائق اور مختلف غیر جانب دار میڈیا بالخصوص ’’دی وائر‘‘ اور انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میگزین فرنٹ لائن کی رپورٹوں میں نوح میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی بنیادی وجوہات کی نشان دہی کی گئی ہے۔
ہریانہ حکومت اور پولیس انتظامیہ اگر اس پر بروقت توجہ دیتی تو یہ واقعات رونما نہیں ہوتے۔ ان رپورٹوں کے مطابق نوح میں تشدد کے واقعات کی بنیاد بہت پہلے رکھ دی گئی تھی۔ یاترا کی شروعات سے قبل فرید آباد بجرنگ فورسیس کے انچارج بابو بجرنگی نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں ماب لنچنگ کے واقعات میں ملوث مونو مانیسر کے یاترا میں شرکت کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایک دوسرے ویڈیو میں مونو مانیسر نے فیس بک لائیو کے ذریعہ اعلان کیا تھا کہ وہ شوبھا یاترا میں شرکت کرنے والا ہے۔ اس نے مقامی لوگوں کو استقبال کرنے اور ہار پہنانے کا چیلنج بھی دیا تھا۔ یہ ویڈیوز تیزی سے وائرل ہو رہے تھے۔ مونو مانیسر دو مسلم نوجوانوں ناصر اور جنید کی لنچنگ اور جلانے کا اہم ملزم ہے، جنہیں اس سال فروری میں بجرنگ دل کے ارکان نے گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میں مبینہ طور پر اغوا کیا، بے دردی سے مارا پیٹا، پھر ایک کار میں بند کر کے زندہ جلا دیا۔ مئی میں راجستھان پولیس نے ناصر اور جنید کے قتل کے لیے اپنی چارج شیٹ میں اس کا نام لیا تھا۔ ایک اور ویڈیو میں مسلمانوں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ “تمہارا جیجا تم سے ملنے آ رہا ہے۔ یہ مت کہنا کہ پہلے سے اطلاع نہیں تھی۔ اس کے لیے پھول اور ہار لے کر تیار رہو” اسی کی وجہ سے نوح کے مسلمانوں میں ناراضگی تھی کیوں کہ وہ ناصر اور جنید کے قتل کا ملزم تھا۔ مونو کی شرکت کے اعلان اور پھر دھمکی آمیز ویڈیو کی وجہ سے ’’کاونٹر موبلائزیشن‘‘ کا ماحول پیدا ہوا اور یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ نوح سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ نے بتایا کہ ’’دو سال قبل جب یہ یاترا شروع ہوئی تھی تو ایک مزار کو جلا دیا گیا تھا۔ بعد میں انتظامیہ نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا اور مسلم کمیونٹی نے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ بعد میں مزار کی تعمیر بھی نے کرادی گئی تھی۔ اگر اس مرتبہ بھی انتظامیہ چوکس رہتی تو یہ حالات رونما نہیں ہوتے۔
نوح فرقہ پرستوں کے نشانے پر کیوں ہے؟
نوح ہریانہ کا واحد میو مسلم اکثریتی ضلع ہے، جہاں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اسی فیصد آبادی مسلمان ہے یعنی اٹھارہ لاکھ مسلمان اس ضلع میں بستے ہیں۔ دلی کی سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سے ہریانہ انڈسٹریلائزیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔گروگرام ملک کا ایک بڑا تجارتی مرکز بن گیا ہے اور آئی آئی ٹی سنٹر میں تبدیل ہوگیا ہے۔فریدآباد بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے مگر نوح آج بھی ملک کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے پانچویں دور کی رپورٹ کے مطابق ضلع نوح میں صرف 51.2 فیصد خواتین اسکول گئی ہیں، جبکہ گروگرام میں80.9 فیصد اور ریاست میں مجموعی طور پر 73.8 فیصد خواندگی ہے۔ میوات میں خواتین کی خواندگی پندرہ سے انچاس سال کی عمر کے متعلقہ گروپ میں 41.9 فیصد ہے جبکہ گروگرام میں 85.4 فیصد اور ریاست میں 79.7 فیصد ہے۔ میو قوم جس میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل ہیں ایک تاریخی مشترکہ ورثہ ہے۔ مذہبی اختلافات کی وجہ سے میو میں فرقہ وارانہ تقسیم کے اثرات کم تھے مگر حالیہ برسوں میں بالخصوص 2014ء کے بعد مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی لکیریں گہری ہوگئی ہیں۔ ہریانہ میں تبدیلی مذہب مخالف قانون سازی کے ذریعہ ہندوؤں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی جبری تبدیلی مذہب کا نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ اس کے بعد گئوگشی مخالف قانون سازی کے ذریعہ علاقے کے بے روزگار نوجوانوں کو گائے کی حفاظت کے نام پر غنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ نتیجے میں اس علاقے میں موب لنچنگ کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں اس سال فروری میں جنید اور ناصر کا بہیمانہ انداز میں جلا دینے والا واقعہ بھی شامل ہے۔ ہریانہ میں مقیم سماجی اور سیاسی کارکن ایڈووکیٹ رمضان چودھری بتاتے ہیں کہ حکومت نے گئو رکھشکوں کو چوکسی کے نام پر بلا روک اختیارات دے دیے ہیں، جس کی وجہ سے ہریانہ کے مسلمان خوف زدہ ہیں۔ پولیس کا کردار متعصبانہ ہے۔ گائے ذبیحہ مخالف قانون کو، مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ میوات کی ایک فیصد آبادی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں گائے ذبح کرتے ہیں اور یہ تجارتی نقطہ نظر سے ہوتا ہے۔ کچھ معاملات میں پولیس بھی ملوث ہے۔ رمضان چودھری نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں میں نوح میں گائے کی اسمگلنگ کے زیادہ تر مقدمات میں مسلمانوں کو بری کر دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس قانون کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور ذاتی رنجشوں اور بدلے لینے کے لیے غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قانون پولیس اور چوکیداروں کے لیے ہراساں کرنے کا آلہ بن گیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں مانیسرہ میں ایک مہا پنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہندوتوا گروپوں کے ارکان نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا۔
حالیہ برسوں میں اگر وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعہ مختلف جلوس اور یاتراوں کا تجزیہ کرنے سے یہ بھی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان جلوسوں کو خاص طور پر ان علاقوں سے گزارا گیا جو حساس رہے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی گئوکشی اور اس مذہبی جلوسوں کے متعلق ایک غیر اعلانیہ سماجی معاہدہ تھا جس پر پولیس سختی سے عمل کرتی تھی۔ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمان گائے کا ذبح نہیں کرتے تھے۔ ہندو بھی مسلم اکثریتی علاقوں اور مسجدوں کے سامنے سے مذہبی جلوس نہیں گزارتے تھے۔ حالیہ برسوں تک مسلمان اور ہندو دونوں اس سماجی معاہدہ پر عمل درآمد کرتے تھے مگر بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد دونوں نے مل کر علاقے کا سارا امن و چین غارت کر دیا ہے۔ مسلمانوں کو پتھر باز قرار دینے سے قبل میڈیا اور صحافیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ سوال پوچھتے کہ جب آزادی سے لے کر تین سال قبل تک نوح میں اس طرح کی یاترا نہیں نکالی جاتی تھی تو اب کیوں نکالی جا رہی ہے۔ پولیس نے اس کی اجازت کیوں دی ہے؟ اگر اجازت دی تھی تو سیکورٹی کے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے جبکہ اشتعال انگیز ویڈیو تیزی سے وائرل ہورہے تھے اور مسلمانوں کو دھمکیاں دی جارہی تھیں؟ مونو مانیسر جو عادی مجرم ہے اور کئی معاملات میں براہ راست ملوث ہے اس کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ دراصل وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دیگر ہندوتوا طاقتیں خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ شہر نوح کو ہندو عقیدے کا حصہ بنانے کی کوشش کے پیچھے یہ مقصد کار فرما ہے کہ وہ اس علاقے میں کچھ بھی کرنے کا حق رکھتے ہیں، اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے ملک دشمن ہیں۔
ایڈووکیٹ رمضان علی چودھری کہتے ہیں کہ نوح کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، اوشا کنڈو سے درخواست کی گئی تھی کہ وائرل ہونے والے ویڈیو اور دھمکیوں پر کارروائی اور نوٹس لیں مگر انہوں نے سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ اگر انتظامیہ چوکس ہوجاتی تو تباہی و بربادی کو روکا جا سکتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ نوح میں ہونے والی جھڑپ کے بعد بھی انٹرنیٹ پر پابندی اور وائرل ویڈیو کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ نوح تشدد کے بعد کئی ہندوتوا تنظیموں کے سوشل میڈیا اکاونٹ سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ نوح جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو غیر محفوظ ہیں۔چنانچہ اس کی بازگشت ہریانہ کے دیگر اضلاع میں سنائی دی جانے لگی۔ اسی انتقامی جذبہ کے تحت ہریانہ کے مالیاتی اور ٹیکنالوجی مرکز گروگرام کے پرتعیش رہائشی کمپلیکس اور فلک بوس عمارتوں کے درمیان ایک مسجد کو جلا دیا گیا۔ گروگرام کے سیکٹر 57 میں انجمن جامع مسجد کے نائب امام حافظ سعد کو ایک ہجوم نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ پولیس اہلکار علاقے میں گشت کر رہے تھے۔ وہ بہار کے ضلع سیتامڑھی کے رہنے والے تھے اور تھوڑا ہی عرصہ قبل گروگرام آئے تھے۔ مسجد کے قریبی ذرائع کے مطابق 31 جولائی کی نصف شب مسلح ہجوم نے مسجد پر حملہ کیا اور اسے آگ لگا دی تھی۔ مسجد انجمن کئی دہائیوں سے تنازعہ کا شکار ہے کیونکہ بعض لوگوں نے عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ یہ واحد مسجد ہے جو گروگرام میں کئی سیکٹروں میں حکومت کی طرف سے مختص زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔ اب ساٹھ پولیس اہلکار شفٹوں میں مسجد کے باقی ماندہ حصے کی حفاظت کر رہے ہیں۔ گروگرام میں نماز پر تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ ہندوتوا گروپ کئی سالوں سے نماز کو لے کر ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں اور نوح کے واقعے نے انہیں مسجد کو اجاڑنے کا موقع دے دیا ہے۔ گروگرام کے قریب قصبہ بادشاہ پور اس وقت ویران ہے۔ یہاں درجنوں مسلمانوں کے دکانات و مکانات کو اجاڑ دیا گیا ہے۔
وکلا کی رپورٹ کے حوالے سے چند باتیں
174 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اس لیے اہم ہے کہ اس میں صرف اپریل 2022ء میں رام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر ہونے والے تشدد کے واقعات کا تجزیہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ ملک کی آزادی سے قبل اور بعد میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور مختلف کمیشنوں کی رپورٹس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ملک میں رونما ہونے والے بیشتر فرقہ وارانہ فسادات اکثریتی طبقے کے اشتعال انگیز جلوسوں کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں۔ایڈووکیٹ چندر ادے سنگھ نے لکھا ہے کہ ملک کی تاریخ مذہبی جلوسوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ مئی 1970ء میں بھیونڈی، جلگاؤں اور مہاد میں فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ بھیونڈی میں فسادات ’’شیو جینتی کے ایک بڑے جلوس کا براہ راست نتیجہ تھا جس میں تقریباً دس ہزا ر مسلح افراد شریک تھے اور یہ جلوس متعینہ راستے سے ہٹ کر جامع مسجد کے پاس پہنچ کر اشتعال انگیزی کرنے لگا۔ ان فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں 78 جانیں ضائع ہوئیں جن میں سے 59 مسلمان تھے۔ اسی طرح جلگاؤں کے فسادات میں 43 جانیں گئیں جن میں سے 42 مسلمان تھے۔ جبکہ مہد میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بمبئی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ڈی پی میڈن کی قیادت والی یک رکنی جانچ میں لکھا گیا ہے کہ 1963ء بھیونڈی کی فرقہ وارانہ تاریخ میں ایک اہم سال تھا۔ اسی سال ہندوؤں نے جلوس نکالنا شروع کیا اور مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے باجا بجانا بند نہیں کیا۔ 1964ء میں شیو جینتی جلوس نے مساجد کے سامنے ٹھیرنا شروع کر دیا، اشتعال انگیز اور مسلم مخالف نعرے لگانے اور ضرورت سے زیادہ ’گلال‘ پھینکنے لگے۔
جسٹس میڈن نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے 1970ء میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔۔1979ء میں جمشید پور فرقہ وارنہ فسادات بھی اسی جلوس کا نتیجہ تھا۔ 1979ء میں آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد نے رام نومی کے روایتی جلوس کو مسلم اکثریتی علاقہ صابر نگر سے گزارنے پر اصرار کیا۔ انتظامیہ، جلوس منتظمین اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ کیا گیا تھا مگر جلوس نے اچانک راستہ تبدیل کر دیا اور صابر نگر کے جامع مسجد کے سامنے پہنچ گیا۔ مسجد کے سامنے اشتعال انگیز اور مسلم مخالف تقریریں شروع کر دیں۔ لا محالہ جوابی کارروائی ہوئی اس کے بعد جمشید پور میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا جس کے نتیجے میں 108 اموات ہوئیں، جن میں سے 79 مسلمان اور 25 ہندو تھے۔ پٹنہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جتیندر نارائن کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن نے بنیادی طور پر آر ایس ایس اور دینا ناتھ پانڈے کو ذمہ دار پایا۔
رپورٹ میں راجستھان کے کوٹا میں 1989ء میں گنیش وسرجن کے لیے اننت چتردشی کے جلوس کے دوران ہونے والے فسادات کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا جسے جان بوجھ کر ایک بھیڑ بھاڑ والے مسلم محلے کے راستے پر لے جایا گیا تھا اور سب سے بڑی مسجد کے سامنے روک دیا گیا تھا، پھر جلوس والوں کو شور مچانے اور فرقہ وارانہ نعرے لگانے دیا گیا اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کے نتیجے میں 16 مسلمان اور چار ہندو مارے گئے تھے جبکہ سڑکوں پر ہزاروں مسلمان دکانداروں اور تاجروں کے کاروبار کو نذر آتش کر دیا گیا۔ 1989ء میں کوٹا میں فرقہ وارانہ فسادات پر قائم انکوائری کمیشن جس میں راجستھان ہائی کورٹ کے جج ایس این بھارگوا کا موقف تھا کہ یہ جلوس کے شرکاء ہی تھے جنہوں نے قابل اعتراض اور اشتعال انگیز نعرے لگانے شروع کر دیے تھے اور ان قابل اعتراض نعروں کے اشتعال کی وجہ سے ہی مسلم کمیونٹی نے بھی اس کا جواب دیا۔ 1989ء میں ہونے والا فرقہ وارانہ فساد بھی جلوس کے نتیجے میں ہوا تھا۔ جلوس کو مسلم اکثریتی علاقے تاتار پور کے مشہور علاقہ سے گزارا گیا۔ اس واقعے میں 900 افراد کی جانیں گئیں ۔ جسٹس رام نندن پرساد، جسٹس رام چندر پرساد سنہا اور جسٹس ایس شمس الحسن پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن نے جو پٹنہ ہائی کورٹ کے تمام ریٹائرڈ جج تھے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کشیدگی کے باوجود بھاگلپور میں 1989ء سے کم از کم ایک سال پہلے سے رام شیلا کے جلوس نکل رہے تھے اس کے باوجود انتظامیہ اور پولیس نے تاتار پور کے راستے سے جلوس نکالنے کی اجازت دی۔
جسٹس روہنٹن نریمن کا قیمتی مشورہ۔ کیا حکومت اس پر کان دھرے گی؟
ویسے حکومت سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ سول سوسائٹی، وکلا کی اس رپورٹRoutes of Wrath : Weaponising Religious Procession’’ کے نتائج پر غور کرے گی ۔کیونکہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد درجنوں کمیشنوں کی رپورٹ پر عمل نہیں کیا گیا۔جسٹس روہٹن نریمن نے رپورٹ کے مقدمہ میں مختلف مطالعات کے حوالے سے لکھا کہ ملک کی جمہوریت میں بتدریج گراوٹ آرہی ہے۔ گوتھن برگ یونیورسٹی نے ’’جمہوریت کی اقسام (V-Dem) کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں پوری دنیا میں جمہوریت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سال1972ء سے 2020ء کے درمیان 1975ء اور 1976ء کو چھوڑ کر جب ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا تھا اور سال 2015ء اور 2020ء میں ہندوستان انتخابی جمہوریتوں کے دوسرے گروپ سے تعلق رکھتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں، بھارت انتخابی خود مختاری کے تیسرے گروپ میں پھسل گیا ہے۔ اکیڈمک فریڈم انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ ان برسوں کے دوران سوچنے اور لکھنے کی آزادی میں کافی کمی آئی ہے۔
جسٹس نریمن لکھتے ہیں کہ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں پولیس فورسیس کو آئینی اقدار اور بنیادی فرائض کے بارے میں حساس بنانا بنیادی ضرورت ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمان اسی ملک کے شہری ہیں۔ اس حقیقت کو جب ملک کی تمام ریاستوں کی پولیس سمجھ لے گی تبھی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ریاستوں میں پولیس کے کام کاج میں سیاسی مداخلت کو روکنے کے لیے بھی کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کیا جانا چاہیے۔