پردیپ سبیچین
محبت کرنے والے دوسرے افراد کی طرح کتابوں کے عاشق بھی احساس ملکیت کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں بھی یہ اعتراف کرتا چلوں کہ میری کتابوں کی الماری سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے لگے تو میرا جذبہ رقابت جاگ اٹھتا ہے۔
مجھے جس منظر کا خوف ہے، وہ تقریباً کلاسیکی ہے اور بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کے شوقین فوراً یہ لمحہ پہچان جائیں گے۔ کوئی مہمان ٹہلتا ہوا آپ کی کتابوں والی الماری کے پاس آتا ہے اور اُس پر سرسری نظر دوڑانے لگتا ہے۔ آپ اسی اُمید میں ہیں کہ وہ اُکتا کر جلد ہی اپنی کرسی پر واپس آجائے گا۔ مگر نہیں۔۔۔
کتابیں کھینچ کھینچ کر باہر نکالنے لگا ہے اور اب ان کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ بلکہ وہ اُن کو چھو رہا ہے، سہلا رہا ہے۔ وہ اب آپ میں اور اس شام میں اپنی باقی ماندہ توجہ گم کر چکا ہے۔ جب وہ آخر کار اپنی نشست تک واپس آتا ہے، تو آپ کی الماری سے کتابوں کی ڈھیری اس کے ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے مگر آپ اس کے لیے تیار ہیں۔۔ وہ آپ سے پوچھے گا اور آپ کہہ دیں گے۔۔۔ ممکن ہی نہیں!
ظاہر ہے کہ یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے۔ وہ بے چارہ بھی اس قدر گھبرایا ہوا ہے جتنے کہ آپ، اور وہ بڑی ہمت کر کے سوال پوچھ ہی لیتا ہے۔ ارے وہ غائب دماغی کے سے انداز میں کہتا ہے جس وقت وہ رخصت ہونے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے،
” کیا میں یہ کتابیں مستعار لے سکتا ہوں؟ ”
” بالکل، کوئی بات نہیں۔۔”
” میں ہفتے بھر میں واپس کردوں گا۔۔”
” جتنا مرضی چاہے وقت لگا لیں۔۔”
” آپ نے بُرا تو نہیں مانا؟ ”
” برا؟ آخر برا ماننے کی کیا بات ہے؟”
معروف نقاد اناطول برو یارد نے احساس ملکیت کے مارے ہوئے کتابوں کے تمام عشاق کی ترجمانی کر دی تھی، جب اُس نے مانگے پر کتابیں دینے کے بارے میں مضمون لکھا:
” جوں ہی کتاب کسی کو مانگے پر دے دی جاتی ہے، میں فوراً اُس کی کمی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ ہر غائب کتاب ان باقی سب کتابوں کو بدل دیتی ہے جو میری الماری میں رہ گئی ہیں۔۔ میرے کتب خانے کا مزاج وہ نازک گیسٹالٹ، برہم ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ کتاب واپس نہیں کر دی جاتی میں اپنے آپ کو اُس والد یا والدہ کی طرح محسوس کرتا ہوں جو رات گئے اپنی بیٹی یا بیٹے کے دوستوں کی مشکوک پارٹی سے گھر واپس آنے کا انتظار کر رہا ہے۔۔ کتابیں مانگے دینے میں سب سے مشکل مرحلہ واپسی کے وقت ہوتا ہے۔ ایسے لمحوں میں، دوستی محض ایک تار تک سمٹ کر رہ جاتی ہیں۔ میں اُن کی طرف دیکھتا ہوں کہ اذیت یا نشاط، یا آنسو تبدیلی لرزتے ہاتھ کپکپاتی ہوئی آواز۔۔۔ مگر کتاب مانگنے والا عام طور پر بس یہی کہتا ہے، ” بڑا مزہ آیا۔۔”
” بڑا مزہ آیا۔۔” جیسے کہ کتابیں اسی کام کے لیے ہوتی ہیں۔۔”
” اصولی طور پر مجھے کتابیں عادتاً دینا اچھا لگتا ہے، یہ ادشا شیام کا کہنا ہے جو پڑھنے کے معاملے میں عقیدت کی حد تک شوق رکھتی ہیں، مگر حقیقت میں، اب میں بہت محتاط ہوگئی ہوں کہ کتابیں کس کو دوں۔ پہلے میں ان کا امتحان لینے کے لیے ” ریڈرز ڈائی جسٹ ” کے پرانے شمارے پڑھنے کے لیے دیتی ہوں اور یہ اگر وقت پر واپس مل جائیں اور خراب نہ ہوئے ہوں تو پھر میں کتابیں دینے کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ ورنہ پھر میں بڑی سہولت کے ساتھ ان کتابوں کی تلاش کو ملتوی کرتی رہوں گی جو مانگی گئی ہیں۔۔ ارے، مگر خود مانگنا، مجھے کتابیں مانگ کر پڑھنا بہت پسند ہے اور میں ایسا کرتی بھی ہوں۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے میں کتابوں کی احتیاط کروں گی اور میں ان کو واپس کرنے کے معاملے میں بھی دھیان رکھتی ہوں۔۔”
کتابیں جمع کرنے والے کئی افراد سے میں نے پوچھا کہ کتابیں مستعار دینے کا معاملہ اِس قدر صدمے کا سبب کیوں ہے۔ کثرت سے ملنے والے تین جواب یہ تھے:
” زیادہ تر لوگ اُس وقت کتاب واپس نہیں کرتے جس کا وعدہ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلا بھول کیسے سکتے ہیں؟ میں تو اُس وقت سے اِس بات کو بھول نہیں پایا جب سے کتاب میں نے پڑھنے کے لیے دی ہے۔۔”
” یہ صرف دیر سے واپس کرنے کی بات نہیں۔۔۔ وہ جتنا وقت چاہے لے لیں، بات یہ ہے کہ وہ کتاب خراب کر دیتے ہیں۔۔ کتاب واپس آئے گی تو صفحے کتے کے کان کی طرح مڑے ہوئے ہوں گے یا داغ دار یا پھر پشتہ مڑا ہوا۔۔”
” مجھے اس کی پروا نہیں کہ کب واپس ملے گی اور کس حالت میں۔۔ سب سے زیادہ مایوسی اِس بات سے ہوتی ہے، اور یہ بات میرا دل توڑ کر رکھ دیتی ہے۔۔۔ اتنے مہینوں کے بعد بھی کتاب انہوں نے پڑھی ہی نہیں۔۔”
مگر ہم شروع سے ہی احساس ملکیت کے مارے ہوئے تو نہیں تھے۔ بچپن اور لڑکپن کے پُر لطف مشغلوں میں یہ بھی شامل تھا کہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے دوستوں، سہیلیوں سے کتابوں اور کامک کا تبادلہ کیا کرتے۔ بڑے ہو کر ہم نے یہ مسرت کم کر دی ہے۔ بچپن میں ہم بہت تندہی کے ساتھ کامک بکس کا تبادلہ کرتے اور کالج کے دنوں میں بڑی آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کو کتابیں دیا کرتے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی پسندیدہ ادیب یا کتاب ایسی ہوتی جس کے پڑھنے کے لیے ہم اپنے ہم جماعتوں سے پُر زور سفارش کر رہے ہوتے۔
” تمہارا مطلب ہے کہ تم نے ابھی تک وڈ ہاؤس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی؟ میں کل ہی ایک پرا ڈھیر لے آؤں گا۔۔
” میں ایک بہت ہی حیرت انگیز کتاب پڑھ رہا ہوں۔۔۔ اس کا نام ہے ” زین اینڈی دی آرٹ آف موٹر سائیکل مین ٹیننس” تم میری کاپی لے لینا، جوں ہی میں ختم کرلوں۔۔”
مجھے یاد ہے کہ میرا ایک ہم جماعت پوری کلاس کو ” کیچ ۲۲ ” کی کاپی باری باری دے رہا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ اتنی مزاحیہ کتاب سے ناواقف رہنا کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔۔ خود میں نے بھی بالکل ہی اجنبی لوگوں کو ” دی
چوزین ” اور ” مائی نیم از ایشرلیف ” کے نسخے سرمنڈھ دیے۔۔
اور یہ سب اس عہد کی بات ہے جب ہم خراب ہونے یا برباد ہونے کی صورت میں اپنی پسند کی کتاب کے نئے نسخے خریدنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے۔ مگر بے کھٹکے کتابیں مانگتے بھی تھے اور مانگے دیتے بھی تھے۔۔
اہم بات یہ تھی کہ کوئی اور بھی وہ کتاب پڑھے جو ہمارے لیے وقیع ہے۔ یہ عمل آپ کو ایک کلیسائی عزم سے بھر دیتا تھا اور یہ دوستی کے رشتے استوار کرتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے پسندیدہ ادیب کو پڑھنا بڑی قربت کی بات تھی بلکہ ہے۔ کوئی بھی اور بات دوستی کو اس طرح مستحکم نہیں کرتی اور تعلق میں گہرائی نہیں لاتی جتنا کہ کتابوں کا تبادلہ۔۔۔
میں نے اس طرح کا سب سے پسندیدہ اور سخاوت سے بھر پور عمل دیکھا ہے، وہ میری دوست پرسنا کا اپنے دوستوں کو کتابوں کی الماری کی طرف بلا کر اپنی پسند کی کتاب مستعار لینے کی دعوت دینا ہے:
” میں دوسروں کو کتابیں مستعار دینے کی جبریہ عادت رکھتی ہوں۔۔” اس نے اعتراف کیا۔۔ ” یہ بات جس قدر بھی غیر عملی لگے، آخر کار یہ بہت تسکین بخش عمل ہے۔ مجھے یہ تصور ہی اچھا لگتا ہے کہ جس کتاب کی میں قائل ہوں وہ میرے کسی دوست کے ہاتھوں میں ہو