Sunday, December 22, 2024
homeاہم خبریںمودی کے رام راجیہ میں تعلیم کا شعبہ نظر انداز-----نوراللہ جاوید

مودی کے رام راجیہ میں تعلیم کا شعبہ نظر انداز—–نوراللہ جاوید

تعلیم پر جی ڈی پی کاتقریبا ً 6فیصد خرچ کرنے کے بجائے محض 0.44 فیصد خرچ کیا جارہا ہے اے ایس آر 2023کی رپورٹ میں دیہی علاقوں میں اسکولوں میں غیر معیاری تعلیم کی نشان دہ----

2014میں اقتدار میں آنے سے قبل بی جے پی نے انتخابی منشور میں کہا تھا کہ ’’تعلیم میں سرمایہ کاری سے بہترین منافع ملتے ہیں‘‘۔ اسی طرح وزیر اعظم کے عہدہ کے امیدوار کے طور پر متعدد ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو دیے گئے اپنے انٹرویوز میں نریندر مودی نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ان کے اہداف میں شامل ہے۔ اس وقت ان کا یہ جملہ کافی مشہور اور مقبول ہوا تھا کہ ’’وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ بی جے پی نے اس عہد کا بھی اعادہ کیا تھا کہ’’ ملک کی جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے گا‘‘۔دعوے اپنی جگہ مگر گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت جی ڈی پی کا 6 فیصد تو دوسرے بلکہ یو پی اے حکومت کے مقابلے میں کہیں کم تعلیم کے شعبے میں خرچ کیا ہے۔ 2004 اور 2014 کے درمیان کانگریس کی قیادت والی مرکزی حکومت نے تعلیم پر جی ڈی پی کا اوسطاً 0.61فیصد مختص کیا مگر تعلیمی ترقی اور پسماندگی کے خاتمے کے تمام دعوؤں کے باوجود سالانہ جی ڈی پی اوسطاً 0.44فیصد مختص کیا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں مودی حکومت اپنی سب سے بڑی کامیابی ’’قومی تعلیمی پالیسی 2020‘‘ کو قرار دیتی ہے۔1992کے بعد تعلیمی پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے۔قومی تعلیمی پالیسی 2020کی خوبیوں اور خامیوں کے کئی پہلوہیں ۔اس پالیسی کے کئی پہلوؤں پر ماضی میں ہم روشنی ڈال چکے ہیں تاہم اس تعلیمی پالیسی کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے پرائیوٹائزیشن کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے پرائیوٹائزیشن کے کیا اثرات ہوں گے، کیا ملک کی اکثریت پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل ہیں؟ چنانچہ نئی تعلیمی پالیسی کے مخالفین کی یہی دلیل ہے کہ اس کی وجہ سے ڈراپ آوٹ کی شرح میں اضافہ ہوگا اور پسماندہ طبقات کو اس کی وجہ سے شدید نقصان ہوگا۔تاہم نئی تعلیمی پالیسی کے باوجود اسکولوں میں اندراج کی شرح میں گراوٹ نہیں آئی ہے بلکہ سال بہ سال اندارج کی شرح میں بہتری آئی ہے۔ 2014 میں اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح 96.7فیصد تھی ۔2018میں 97.2فیصد اور 2022میں 98.4فیصد تک ہوگیا۔اسکولوں میں اندراج کے اعتبار سے خواتین کی نمائندگی میں بھی بہتری آئی ہے۔2022میں محض دو فیصد خواتین کا اسکول میں اندراج نہیں ہوپایا ہے۔

یہ خوش نما اعدادو شمار اپنی جگہ لیکن اے ایس ای آر (ASER 2023) کی تازہ رپورٹ جو گزشتہ مہینے آئی ہے وہ انتہائی چونکادینے والی ہے۔اس رپورٹ میں ملک کے دیہی علاقوں کے اسکولوں کے تعلیمی معیار کا سروے کیا گیا ہے۔رپورٹ سے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہیں ۔رپورٹ کے مطابق 14سال سے 18سال کے عمر کے25فیصد طلبا تیسری جماعت کے ریاضی اور اپنی مادری زبان کو پڑھنے کے اہل نہیں تھے۔اس کے عمر کے نصف طلبا تین ہندسوں کی تقسیم بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ 14-18 سال کی عمر کے طلبا میں سے ایک چوتھائی 26.5فیصد اپنی علاقائی زبان میں کلاس 2-سطح کی نصابی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے، اور نصف سے تھوڑا کم 42.7فیصد انگریزی میں جملے نہیں پڑھ سکتے تھے۔ 26.5 فیصد طلبا انگریزی کے جملے تو پڑھ سکتے ہیں مگر انہیں اس جملے کا مطلب نہیں معلوم ہے۔نیشنل انیشیٹو آف ریڈنگ ود آف ڈیلیٹنگ اینڈ ڈسٹریشن 2021 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد2025 تک پرائمری اسکولوں کے معیار تعلیم کو عالمی سطح تک کا کرنا ہے۔مگر اے ایس ای آر کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس ہدف کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

پرتھم فاؤنڈیشن نے پہلی مرتبہ 2005میں پہلی مرتبہ ملک بھر میں تعلیمی سروے شائع کیا ۔اس کے بعد 2014تک ہر سال یہ رپورٹ شائع ہوتی رہی ہے۔اس کے بعد متبادل سال میں رپورٹ شائع ہوتی ہے۔ سروے رپورٹ میں 26 ریاستوں کے 28 اضلاع میں 14-18 سال کی عمر کے34,745طلبا پر سروے کیا گیا ۔ہر ریاست میں ایک دیہی ضلع کا سروے کیا گیا ہے، صرف اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے دو دیہی اضلاع کا سروے کیا گیا ہے۔اس مرتبہ سروے میں بچوں کی اسکولنگ اور معیار تعلیم پر توجہ دی گئی ہے۔یہ سروے اس لیے اہم ہے کہ 12ویں کے بعد ایک بڑی تعداد جاب مارکیٹ میں آتی ہے۔جب جاب مارکیٹ میں ایسے نوجوان آئیں گے جن کی تعلیمی قابلیت سطحی ہوگی تو پھر معیاری ورکرس کی فراہمی کہاں سے ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ آخر اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اس قدر غیر معیاری تعلیم کیوں ہے؟ اس کا سیدھا جواب ہے کہ سرکاری اسکولس جہاں بڑی تعداد میں طلبا آتے ہیں وہاں نہ بہتر انفراسٹرکچر ہے اور نہ ہی طلبا کی تعداد کے اعتبار سے اساتذہ ہیں ۔اس پر ستم یہ ہے کہ سال بہ سال متعدد اسکیموں کے فنڈ کی کٹوتی کی جارہی ہے جس کا اثر معیار تعلیم پر پڑنا لازمی ہے۔تعلیم کے زعفرائنائزیشن کی کوششوں میں مصروف مودی حکومت نے طلبا کی بنیادی ضرورتوں کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا 75فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور بیت الخلا کی سہولتیں ہی میسر ہیں اور 40 فیصد میں لائبریری کی کتابیں ہیں۔ صرف 7 فیصد اسکولوں کے پاس کمپیوٹر ہیں۔ملک بھر میں صرف ایک ٹیچر والے اسکول اور کم اندراج والے اسکول بند کردیے گئے ہیں اس کی وجہ سے دیہی اور قبائلی علاقوں کے بچے کافی متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں سات اسکولوں میں سے ایک اسکول میں ایک ٹیچر ہے۔وزیر اعظم پوشن فنڈ (مڈ ڈے میل)کے تحت وعدہ کیا گیا تھا کہ اسکولی بچوں کی غذا کے معیار کو بہتر کیا جائے گا مگر اس سمت بہتری آنے کے بجائے کمی آئی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کی صورت حال بھی کم و بیش اسی طرح کی ہے۔مودی حکومت کے دس سالہ دور اقتدار میں ملک کی کئی مرکزی یونیورسٹیاں خلفشار کا شکار رہیں اور اس خلفشار کے پیچھے مرکزی حکومت یا بی جے پی حامیوں کا رول رہا ہے۔بنگال کے شانتی نیکتن میں واقع وشو بھارتی یونیورسٹی ہو یا پھر جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم اور حیدرآباد یونیورسٹی، ان سب میں گزشتہ چند سالوں میں جو حالات پیدا ہوئے وہ ہمارے سامنے ہیں، اس کی وجہ سے تعلیم کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔اسکالرشپ میں کٹوتی اور فیس میں اضافہ کی وجہ سے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے شعوری طور پر دروازہ بند کیا گیا ہے۔

2017میں ہائر ایجوکیشن فائنانسنگ ایجنسی قائم کی گئی ہے۔اس کا مقصد یونیورسٹیوں کو گرانٹ دینے کے بجائے قرض دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔گرانٹ کی جگہ قرض ملنے کی وجہ سے یونیورسٹیوں پر قرض کی واپسی کا دباو ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کےلیے ان پر فیس میں اضافے کا دباو ہے۔ 2014 کے انتخابی منشور میں بی جے پی نے وعدہ کیا تھاکہ وہ یونیورسٹیوں کو عالمی یونیورسٹیوں کے مساوی لانے کے لیے اکیڈمیوں اور تحقیق کے معیار کو بلند کرے گی۔مگر حکومت نے اس کے لیے گرانٹ دینے کے بجائےسائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونسل کے فنڈ میں کٹوتی کردی اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے بزنس اور صنعت کاروں سے یہ رقم جمع کرے ۔فنڈ کی قلت کی وجہ سے ریسرچ اور تحقیق کا کام متاثر ہونا فطری بات ہے۔مودی حکومت نے معاشی طور پر پسماندہ طلبا کے لیے 10فیصد ریزرویشن کو متعارف کرانے کا اعلان کیا جس کے لیے اداروں کو ہدایت بھی دی گئی کہ وہ اپنی سیٹوں میں اضافہ کریں۔ظاہر ہے کہ اس کے لیے فنڈ کی ضرورت تھی مگر فنڈ کی قلت کی وجہ سے بیشتر تعلیمی اداروں نے اس پر کام نہیں کیا ہے۔

اس سے بڑھ کر المناک بات کیا ہو سکتی ہے کہ تعلیمی اداروں اور کیمپس میں نسلی بھید بھاو، ذات پات کی تفریق اور فرقہ واریت باقی ہے۔وزیر تعلیم کے ذریعہ لوک سبھا میں دسمبر 2023 میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں2 ,622درج فہرست قبائل، 2,424درج فہرست ذات اور4, 596دیگر پسماندہ طلبا نے بھید بھاو کی وجہ سے مرکزی یونیورسٹیوں میں تعلیم چھوڑدی ہے۔اگر ریاستی یونیورسٹیوں میں بھید بھاو کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والوں کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔

ہیومینٹی پس منظر کے طلبا کو نیشنل اوورسیز اسکالرشپ سے خارج کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے مرکزی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے لیے پسماندہ پس منظر رکھنے والے طلبا کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبا 18 سے 23 سال کی عمر کے درمیان کی انرولمنٹ محض 8.5 فیصد ہے۔ظاہر ہے کہ قومی سطح کے اعتبار سے نمایاں کمی ہے۔اس کے باوجود حالیہ برسوں میں مسلم طلبا کے اسکالرشپ پروگرام میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے۔ مولانا آزاد فیلوشپ کو روک دیا گیا ہے۔ سال 2023-24 میں مدارس اور اقلیتوں کی تعلیمی اسکیم کے فنڈ میں پچھلے سال کے مقابلے میں 93 فیصد کم کرکے 10 کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔ اس مرتبہ اسے مزید کم کر کے محض 2 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔اقلیتوں کے لیے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیموں کا بجٹ اس بار کم کرکے 10 کروڑ کردیا گیا ہے جو گزشتہ سال 30 کروڑ روپے تھا۔ سال 2023-24 میں اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ 433 کروڑ رکھا گیا تھا، اس مرتبہ اس کو کم کرکے 326.16کروڑ کردیا گیا ہےیہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مودی حکومت اگرچہ انفراسٹرکچر، سڑکوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیرات پر خزانے لٹارہی ہے مگر تعلیم کا شعبہ حکومت کے اہداف میں شامل نہیں ہے۔چنانچہ حالیہ برسوں میں بتدریج فنڈ میں کٹوتی کی گئی ہے، تعلیمی اداروں کے فیس میں اصافہ کیا گیا ہے جس کا راست اثر عام طلبا پر مرتب ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ مسجد، مندر اور مذہب کے نام پر نفرت کی سیاست میں مصروف عوام خواب غفلت سے آخر کب جاگیں گے اور کب اصل مسائل پر توجہ مرکوز کریں گے؟

متعلقہ خبریں

تازہ ترین