Thursday, December 26, 2024
homeاہم خبریںاسرائیل اور عالمی سامراج کے خلاف طلبائی تحریک ’صبح نو‘ کی نوید

اسرائیل اور عالمی سامراج کے خلاف طلبائی تحریک ’صبح نو‘ کی نوید

امریکہ سے آسٹریلیا تک یونیورسٹیوں کے طلباء مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے ہو گئے طلباء کے مظاہروں میں سی اے اے مخالف مظاہروں کی جھلک۔ پولیس، انتظامیہ اور میڈیا کا منفی ر تعلیمی ادارے طلباء کے مطالبات ماننے پر مجبور۔ اسرائیلی کمپنیوں سے معاہدوں پر نظر ثانی کی یقین دہان

نوراللہ جاوید

تاریخ میں بار بار ایسا ہوتا رہا ہے کہ کوئی بھی تحریک طلباء سے شروع ہوتی ہے اور پھر پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ چناں چہ اسرائیل کے کی غیر مشروط حمایت کرنے والے ممالک کے ہر شعبے میں فلسطینی عوام کے تئیں ہمدردی اور یکجہتی کا جذبہ نہ صرف موجود ہے بلکہ نسل کشی پر شرمندگی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ یہ صورت حال فلسطین کی جیت اور اسرائیل کی شکست فاش کو ظاہر کرتی ہے۔ مشہور فلسطینی مفکر ایڈورسعید نے کہا تھا ’’اقتدار کے سامنے سچ بولنا مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بہترین طریقہ ہے، اور سب کے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کا واحد طریقہ بھی‘‘۔

گزشتہ آٹھ مہینوں سے غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے لیے بربریت ، سفاکیت ،ریاستی دہشت گردی جیسے الفاظ ناکافی ہیں ۔ چیختے چلاتے، آہ و بکا کرتے معصوم بچوں کی حالت زار کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا اورنہ ہی زبان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس روداد الم کو بیان کرسکے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کا علم بردار مغرب ’’یہودی نسل کشی اور ہولو کاسٹ ‘‘ جیسی ماضی کے فرسودہ اصطلاحات اور نعروں کا اب بھی اسیر بنا ہوا ہے۔سات اکتوبر کو غزہ اور اسرائیل کے درمیان تنازع شروع ہونے کے فوری بعد ہفت روزہ دعوت کے ان ہی صفحات میں ہم نے لکھا تھا کہ اسرائیل بھلے ہی اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ غزہ کو خون آلود اور ملیامیٹ کرنے میں کامیاب ہوجائے مگر اس جنگ کا اختتام اسرائیل کی ناکامی پر ہوگا۔یہ ناکامی صرف اسرائیل کی نہیں ہوگی بلکہ مغربی اقدار، تہذیب و تمدن اور پوری دنیا کو احترام انسانیت کا درس دینے والی عالمی طاقتوں کی ہوگی۔ چناں چہ دنیا اب ایک نئے نظمِ عالم کی ضرورت کو محسوس کرنے لگی ہے۔

ہمارا یقین ہے کہ عزم و حوصلہ اور بلند مقاصد سے عاری جنگیں تباہی و بربادی کے علاوہ دنیا کوکچھ نہیں دے سکتیں۔ چناں چہ سات اکتوبر کو جب اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ حماس کے نیٹ ورک کو تباہ و برباد کرنا اس کا مقصد ہے لیکن گزشتہ آٹھ مہینوں میں وہ اپنے ہدف کا ایک فیصد ہی حاصل کر پایا ہے۔ شہید ہوجانے والے 35 ہزار فلسطینیوں میں حماس کے جاں باز چند ایک ہی ہیں ۔ دوسری طرف غزہ کے عوام ہیں جن کے سامنے واضح مقاصد ہیں۔ آزادی، حق خود ارادیت کا حصول اور ہر حال میں قبلہ اول کا تحفظ ان کی زندگی کا ماحصل ہے۔اسی لیے دنیا کے جدید ترین اسلحے کے استعمال اور تباہ کن فضائی حملوں، زمین بوس ہوتی ہوئی عمارتوں اور کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے کے باوجود ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں اور ان کے آہنی عزائم میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ فلسطینیوں کے اسی رویے نے اسرائیل کو مزید خونخوار اور انسانیت کا دشمن بنا دیا ہے۔آج اسرائیل کا پورا وجود ہی خون آلود ہوچکا ہے۔7؍اکتوبر کو حماس کی کارروائی کے بعد امریکہ سے لے کر یورپ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی قیادت نےاسرائیل کو مظلوم قرار دیتے ہوئے غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا۔عالمی رہنما تیل ابیب کے دورے کررہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ پوری دنیا کھڑی ہے اور غزہ تنہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کےساتھ کھڑے رہنے اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کرنے والی مغربی دنیا آج اندرونی بغاوت سے دوچار ہے۔ ان ممالک کے عوام آج اپنی قیادت سے سوال پوچھ رہے ہیں؟ نوجوان اور طلباء سڑکوں پر ہیں۔

غزہ میں معصوم بچوں اور خواتین کی بے بسی کی تصاویر نے ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔اسرائیل کے دفاع کی قسم کھانے والی عالمی قیادت اپنے ہی عوام کے سوالوں کے سامنے لاجواب اور بے بس ہو گئی ہے ۔ 17؍ اپریل کو امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہونے والی طلباء تحریک نے پوری دنیا کی طلبا برادری کو انسانیت کے تحفظ اور معصوم بچوں کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا ہے۔صرف امریکہ میں اس وقت چار سو یونیورسٹیاں، تعلیمی ادارے اور کالجوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ یونیورسٹیاں طلباء کی قیادت میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی مخالفت کرنے والی تحریکوں کا مرکز بن چکی ہیں۔ مقامی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے کیمپسیس کی حفاظت اور یہود دشمنی سے لڑنے کے جھوٹے بہانے کے تحت ان مظاہروں پر شدید کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ لیکن تشدد اور دھمکیوں کے باوجود طلباء اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور احتجاج کم ہونے کے کوئی آثار نظرنہیں آ رہے ہیں۔آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک بیشتر یونیورسٹیوں میں غزہ کی حمایت میں احتجاج ہو رہے ہیں ۔اسرائیلی کمپنیوں سے معاہدہ ختم کرنے، غزہ میں بربریت کے خاتمےکے لیے کردار ادا کرنے کامطالبہ کر رہے ہیں۔ترقی یافتہ دنیا کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں طلباء کے اس احتجاج نے مٹھی بھر اشرافیہ اور ان کے زیر کنٹرول چلنے والی عالمی میڈیا اور سیاسی قائدین کو بے چین کر دیا ہے۔

چناں چہ اظہار رائے کی آزادی، احترام انسانیت اور طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے خود کو چیمپئن بتانے والی مغربی طاقت مکمل طور پر بے نقاب ہوچکی ہے ۔ طلباء کے خلاف پولیس کارروائی اور ان کی تحریک کو بے رحمی سے کچلنے کی کارروائیوں کے مناظر نے ترقی یافتہ اقوام کے دوہرے کردار کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور تعلیمی آزادی پر ہر سال رپورٹ شائع کرنے اور ترقی پذیر ممالک کو ہدایات اور نصیحت کرنے والی عالمی طاقتیں خود ایک ڈبے میں بند ہیں۔تاہم سوال یہ ہے کہ آخر بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں طلبا اتنی اہمیت کے حامل کیوں ہوگئے؟ طلبا کے اس احتجاج سے کیا عالمی اثرات مرتب ہوں گے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طلبا کے اس احتجاج کے بعد آیا غزہ اور فلسطین پر عالمی رائے عامہ میں تبدیلی آئے گی؟ یہ سوال اس لیے کافی اہم ہے کہ 10؍ مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے کے لیے اس کی اہلیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے سفارش کی ہے کہ وہ فلسطین کے اقوام متحدہ کے مستقل رکن بننے کی قرارداد کی حمایت کرے۔خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق جنرل اسمبلی میں قرارداد کے حق میں 143 اور مخالفت میں 9 ووٹ ڈالے گئے جس میں امریکا اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ جب کہ 25 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ فلسطین کی رکنیت کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک میں بھارت بھی شامل ہے ۔اکتوبر میں اگرچہ بھارت کی موجودہ حکومت نے اپنی دیرینہ روایات اور پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کی طرف اپنے جھکاو کا تاثر دیا تھا تاہم گزشتہ آٹھ مہینوں میں بھارت نے اپنی دیرینہ پالیسی کی طرف واپسی کی ہے۔غزہ اور اسرائیل جنگ نے بھارت کو عالمی قیادت کا بہترین موقع فراہم کیاتھا۔ جنگی بندی اور انسانیت کے تحفظ کے لیے بھارت اہم کردار ادا کرسکتا تھا ۔

طلباء کی تحریک’صبح نو ‘ کی نوید ہے
بیسویں صدی کے عظیم مفکر مولانا سید ابوالاعلی مودودیؓ نے نوجوانوں کی ذہن سازی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا نوجوان کسی بھی قوم کے لیے سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں، وہ سراپا انقلاب ہوتے ہیں اور ان کے دل و دماغ میں حق کو قبول کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔چناں چہ بیسویں صدی کے دو عظیم مفکرین مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شہید امام حسن البناؓ کی تحریکوں سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہوئے اور نوجوانوں کی طاقت کے ذریعہ سے ہی اسلامی تحریک پوری دنیا میں پھیلی۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’تاریخ نے ہمیں بار بار دکھایا ہے کہ نوجوان ہمیشہ درست رہے ہیں‘‘ بلاشبہ خیر و شر کا پہلو ہر چیز میں ہوتا مگر نوجوانوں میں خیر کو قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔خود امریکہ کی تاریخ طلباء کی تحریک سے روشن ہے اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ استعماریت اور بربریت کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کھل کر سامنے آئے ہیں۔امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں طلباء تاریخی طور پر استعمار اور سامراج کے خلاف مزاحمت اور احتجاج میں کرتے رہے ہیں ۔1530 کی دہائی میں امریکہ کی پرتشدد نو آبادیات کے دوران بولوگنا یونیورسٹی میں ہسپانوی طلباء کے ایک گروپ نے جنگ مخالف تحریک چلائی ۔اس تحریک نےکیتھولک چرچ کو اس قدر پریشان کر دیا کہ پوپ نے ہسپانوی مشہور پادری اور اسکالر Juan Ginés de Sepúlveda کو امریکہ روانہ کیا تاکہ طلباء تحریک کو ختم کیا جاسکے۔اس وقت چرچ کا موقف تھا کہ مقامی امریکیوں کی غلامی اور ان پر قبضہ جائز ہے۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں امریکہ میں علیحدگی پسندی اور نسل پرستی کے خلاف طلباء کے مظاہرے سے لے کر 1960میں ویتنام میں امریکی جنگ کے خلاف تعلیمی اداروں میں احتجاج اور 1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف دھرنوں تک اور اب غزہ میں نسل کشی کے خاتمے میں طلبا استعمار، عسکریت پسندی اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔
وطن عزیز بھارت میں بھی طلبا تحریک نے متعدد ادوار میں تاریخی کردار ادا کیا ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ تاہم، 2019میں پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک کے طول و عرض میں طلباء اور نوجوانوں نے تحریک برپا کی تھی۔چند مہینے قبل ہی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں واپسی کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو یہ احساس تھا کہ کوئی بھی طاقت انہیں چیلنج نہیں کرسکتی۔ کوئی بھی ان کے فیصلوں کے خلاف تحریک برپا نہیں کرسکتا ۔کشمیری عوام کو کئی مہینوں تک گھروں میں محصور کر دیا گیا ۔کہیں سے بھی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی مگر شہریت ترمیمی ایکٹ کے بعد جس طریقے سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، علی گڑہ مسلم یونیورسٹی اور جادو پور یونیورسٹیوں کے طلبا مذہبی بنیاد پر تفریق والے اس قانون کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے مودی حکومت کے اس بھرم کو چکنا چور کردیا کہ ان کے فیصلوں کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ یہ واقعہ اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آج غزہ میں نسل کشی کے خلاف جو مظاہرے ہورہے ہیں،اس میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں اورطلبا کے کیمپ کا ایک بڑا کردار ہے۔طلبا اور خواتین کے احتجاج کی ہی طاقت تھی کہ پارلیمنٹ میں سی اے اے اور این آر سی کے درمیان کورونا لوجی سمجھانے والے امیت شاہ نے نہ صرف 180ڈگری کی پلٹی ماری بلکہ وزیر اعظم مودی کو بھی صفائی اور یقین دہانی کرانی پڑی کہ ملک بھر میں این آر سی نافذکرنے کا ان کی حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کی تجویز پر کبھی غور کیا گیا۔امریکہ کی طرح بھارت میں طلبا کی اس تحریک کے قائدین کو بڑی قیمت چکانی پڑی،خالد عمر، شرجیل امام ،صفورازر گر، آصف جیسے کئی نوجوانوں کو پابند سلاسل کردیا گیا اور چار سال بعد بھی خالدعمر ، شرجیل امام جیسے کئی ایسے نوجوان ہیں جو اپنی بے باکی و حق گوئی پر قائم رہ کر سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ظلم کا سامنا کررہے ہیں ۔یہ سوال الگ ہے کہ قربانیاں دینے والے ان نوجوانوں کے ساتھ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔یہ وہ نوجوان ہیں جن کے قدموں میں بڑی بڑی نوکریاں تھیں ۔جن کی اپنی جماعت میں ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی میں ایک شناخت تھی مگر اپنی کامیاب زندگی پر ان نوجوانوں نے حق کی راہ پر چلنے کو ترجیح دی ہے۔
امریکہ اور مغرب سےمتعلق ہم ترقی پذیر یا پھر تیسری دنیا کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مثالی معاشرہ ہے۔حقوق انسانی، اظہار خیال کی آزادی اور احترام انسانیت کے اعتبار سے قابل تقلید ہے مگر جس طریقے سے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف بھارتی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں ہونے والے طلبا کے مظاہرے کو ٹکرے ٹکرے کینگ کا نام دیا گیا ، ملک دشمن اور غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر کام کرنے جیسے الزامات لگائے گئے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا کی تحریک کو پولس کی طاقت کے بزور بے رحمی سے کچل دیا گیا اور جس طریقے سے بھارت کی مین اسٹریم میڈیا نے طلبا تحریک کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ، آج ویسا ہی کچھ ترقی یافتہ ممالک اور تہذیب و ثقافت کے علمبردار ممالک طلبا تحریک کے ساتھ کررہے ہیں۔ صرف امریکہ میں 4000سے زائد طلبا گرفتار کیے جاچکے ہیں۔یونیورسٹی کے کیمپس میں لگائے خیمے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی مدد سے نہ صرف اجاڑ دیے گئے بلکہ تادیبی کارروائی کرتے ہوئے طلبہ کو یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا ۔ کینیڈا سے آسٹریلیا تک، اور متعدد یورپی ممالک میں بھی احتجاج کرنے والے طلبا کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔دنیا بھر کی اشرافیہ طبقے کی یونیورسٹی آکسفورڈ اور کیمبرج کے طلباء بھی احتجاج کررہے ہیں ۔
فلسطینی امریکی اور قانون کے طالب علم احمد اباسیسن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں امریکی یونیورسٹیوں میں جاری احتجاج پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بربریت اور پولس کی کارروائی نےطلبا کی تحریک کو ختم کرنے کے بجائے نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک کے طلباء ،اساتذہ اور نوجوانوں کو جوش دلادیا ہے۔طلبا کو خاموش کرنے کے لیے ان کی گرفتاری و معطلی کی کارروائی نے سرکاری اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعہ فلسطینی کاز کی حمایت کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا ہی کام کیا ہے۔ طلباپر یہود دشمنی کے الزامات لگائےجارہے ہیں ۔نسل کشی مخالف مظاہروں کو یہود مخالف قرار دینا مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ یہ خطرناک ہے۔اباسین کہتے ہیں کہ طلبا کے مظاہرے کو یہودی دشمن سے تعبیر کرنا اس لیے خطرناک ہے کیوں کہ یہودی مذہب اپنے وجود کے اعتبار سے پر امن مذہب ہے۔مگر اس کو صیہونیت سے جوڑا جارہا ہے اور یہ نظریہ 19ویں صدی میں تخلیق کیا گیا ہے۔یہ غلط پیغام دیا جارہا ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیلی حکومت اور آباد کاروں کی حمایت کرتے ہیں، کمیونٹی کے اندر موجود تنوع کی تردید کرتے ہیں۔امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودی طلبا کی ہے۔احمد کہتے ہیں کہ ہم فلسطینیوں نے اپنے مظلوموں کی شناخت کا انتخاب نہیں کیا اور پھر بھی ہم سے یہود دشمنی کے پھیلنے کے خدشات کو دور کرنے کے لیے مسلسل کہا جاتا ہے۔ کیا غزہ کے بچوں کو اس بات کی پرواہ ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کا مذہب کیا ہے جو ان پر بم برسا کر ان کی ماؤں اور باپوں کو ہلاک کر دیتے ہیں؟

جہاں تک سوال ان ممالک کی مین اسٹریم کے کوریج کے رویہ کا ہے۔امریکہ کے تمام بڑے میڈیا ہائوسیس ABC، CNN اور NBC کے کوریج میں طلبا کے احتجاج اور خیمہ سے متعلق وہی الفاظ استعمال کئے ہیں جو بائیڈن اور امریکی اور اسرائیلی انتظامیہ نے مظاہرین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں۔ مرکزی دھارے کا میڈیا اسرائیل کے رویے پر کھلی، دیانتدار، جامع اور سیاق و سباق پر مبنی عوامی بحث کو ہر قیمت پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔مرکزی دھارے کا میڈیا کھلے عام طلبا کی مذمت کرتے ہوئے طلبا کو الزام دے رہا ہے کہ وہ باہری دنیا کے اشارے پر دہشت گردی کی حمایت کررہے ہیں۔

MSNBC نیوز چینل امریکہ کا بہت ہی مقبول چینل ہے جو روز اول سے اسرائیل کا حامی ہے۔اس کے ایک میزبان جو سکاربورو نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلباء تمام یہودیوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں،وہ کالج کیمپس میں حماس ہیں، اور وہ ہم میں سے ان لوگوں کی مدد نہیں کر رہے جو امریکہ میں فاشزم سے لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے شریک میزبان میکا برزینسکی نے کہا ہے کہ کیمپس کا احتجاج 6جنوری 2021میں کیپیٹل ہل پر سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ہنگامے کی طرح ہے۔تاہم سوال یہ ہےکہ امریکی میڈیا کی اکثریت جھوٹ ،فریب کاری اور غلط بیانی سے کام کیوں لے رہی ہے ؟ دراصل امریکی میڈیا پر سیاسی اور چند صنعت کار اشرافیہ کا قبضہ ہے اور اسرائیل وغزہ کی جنگ میں اشرافیہ کے اقتصادی فوائدہیں ۔اسلحہ مافیا کی تجارت اور کاروبار ان جنگوں کے دم سے ہی ہے ۔احتجاج کرنے والے طلبا کا موقف ہے کہ غزہ میں امریکہ کے ذریعے ہونے والی نسل کشی ہمارے دور کا اخلاقی مسئلہ ہے ۔اس لیے اسرائیلی ساختہ فاقہ کشی اور غزہ کو تباہ کرنے والے امریکی ساختہ بموں کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتے۔ جب طلبا کے اسی اصولی موقف کو مرکزی دھارے کی میڈیا اس احتجاج کو ’’یہود مخالف‘‘اور’’دہشت گردی کے حامی‘‘کے جنون میں توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ میڈیا کے ایک بڑے حصے میں سچ بولنے کا عزم ان کی خواہش سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔

انسانیت کی تباہی و بربادی میں یونیورسٹیوں کا کردار
غزہ میں 35ہزار جانوں کو ہلاک کردیا گیا۔جس میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔اس کے ساتھ ہی غزہ کی تمام 12یونیورسٹیوں کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے طلبا اپنی یونیورسٹیوں سے ناراض کیوں ہیں ۔اگر ان کے مطالبات دیکھیں تو وہ وہ بائیڈن سے زیادہ اپنی یونیورسٹیوں سے مطالبہ کررہے ہیں ۔ دراصل ہارورڈ، کولمبیا اور بہت سی دوسری یونیورسٹیاں اپنے اوقاف اور مالی حالت کو بہتر کرنے کے لیے Airbnb، Alphabetٖ(گوگل کی مادر کمپنیاں)جیسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔یہ کمپنیاں اسرائیل میں کاروبار کرتی ہیں اور اسرائیلی فوج کو ساز و سامان فراہم کرتی ہیں ۔کئی یونیورسٹیوں کا اینڈوریل جیسی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ ہے ۔اینڈوریلنے حال ہی میں امریکی فوج کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے بغیر پائلٹ کے لڑاکا ہوائی گاڑیاں تیار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ بغیر پائلٹ سے چلنی والی لڑاکا ہوائی گاڑیوں کا استعمال ڈیٹا کو جمع کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ یہ گاڑیاں اسرائیل کو فراہم کرنےوالا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج لیونڈر کا استعمال کر رہی ہے، ایک AI سسٹم جو لڑاکا طیاروں اور ڈرونز کو بمباری کے لیے اہداف تیار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔یہ ہتھیار بھی یونیورسٹیوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کےلیبارٹریوں نے ’بیلسٹک ٹارگٹ، نگرانی، سائبر وارفیئر، اور ڈرون ٹیکنالوجی میں تحقیق کرنے کے لیے اسرائیلی وزارت دفاع سے لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی ہے۔ اسرائیلی فوج کو ڈرون، D9 بلڈوزر، لڑاکا طیارے، اور توپ خانے فراہم کرنے میں ایم آئی ٹی کردار ادا کرتی ہے۔اس کے علاوہ یونیورسٹی طلباء اور فیکلٹی کو ہتھیار بنانے والوں سے جوڑنے کے لیے تقریبات کی میزبانی کرتی ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایم آئی ٹی اور دیگر امریکی یونیورسٹیاں فلسطینیوں کے قتل عام میں براہ راست شریک ہیں۔یہی وہ سوال ہے جوامریکی طلبا کو پریشان کررہی ہیں کہ کیا وہ انسانیت کش فسادات میں حصہ ڈال رہے ہیں ۔

چناں چہ وہ اپنی یونیورسٹیوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اسرائیلی کمپنیوں سے معاہدے ختم کریں ۔طلبا سوال کررہے ہیں کہ ہم کس قسم کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو انسانیت کے تحفظ کے بجائے انسانیت کے لیے تباہ کن ہتھیار تیار کرتے ہیں اور انسانیت کو تباہی وبربادی کے ٹھکانے لگارہے ہیں ۔چوں کہ طلبا کے اس احتجاج سے استعماری قوتوں کے مفادات پر براہ راست حملہ ہوتا ہے اس لئے استعمار کے نقطہ نظر سےطالب علموں کا متحرک ہونا خطرناک ہے۔ چناں چہ وہ پوری قوت اس احتجاج کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔حکومتیں ،سیاسی اشرافیہ اور طاقتوروں کی ترجمان میڈیا کی مثلث کے پروپیگنڈہ اور کوششوں کے باوجود دنیا بھر کے طلبا اپنے مفادات ، تعلیم اور روشن مستقبل کو قربان کرکے بہتر دنیا اور ظلم سے پاک دنیا کی تعمیر کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں تویقیناً ایک نئی صبح کی نوید ہے۔یہ تاثر بے کار ہے کہ تعلیمی اداروں کے اس احتجاج سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے توجہ دوسری جانب مبذول ہوگیا ہے۔بلکہ سچ یہ ہے کہ طلبا کا احتجاج رنگ لانے لگا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے خلاف یہود دشمن کا نام دینے کی تمام کوششیں ناکام ہوتی جارہی ہے ۔دنیا فلسطین سے متعلق سوچنے لگی ہے ۔گرچہ کئی یونیورسٹیوں میں طلبا کے احتجاج کو ختم کرنے کے لیے بربریت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے مگر کئی ایسی یونیورسٹیاں ہیں جنہوں نے طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے طلبا سے مذاکرات کے بعد ان کے مطالبات کے مطابق معاہدوں پر نظرثانی کرنے لگی ہیں ۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے(اس کی مکمل فہرست الگ سے ملاحظہ کریں )۔بلاشبہ غزہ نسل کشی اور انسانی جانوں کا کوئی متبادل نہیں ہے اور کوئی بھی ان کے دکھ درد کو مٹانہیں سکتا تاہم رنگ برنگی مخالف تحریک (جنوبی افریقہ میں) اور ویتنام کی جنگ کو دیکھیں تو دنیا بھر کے طلبا تبدیلی لانے اور اپنی حکومتوں کوخارجہ پالیسی پر از سر نو غورکرنے پر مجبور کرنے میں نمایاں تھے۔ تاریخ میں بار بار ایسا ہوتا رہا ہے کہ کوئی بھی تحریک طلباء سے شروع ہوتی ہے اورپھر پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔چناں چہ اسرائیل کے کی غیر مشروط حمایت کرنے والے ممالک کے ہرشعبے میں فلسطین کے عوام کے تئیں ہمدردی اور یکجہتی کا جذبہ نہ صرف موجود ہے بلکہ نسل کشی پر شرمندگی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔یہ صورت حال فلسطین کی جیت اور اسرائیل کی شکست فاش کو ظاہر کرتی ہے۔ مشہور فلسطینی مفکر ایڈورسعید نے کہا تھا ’’اقتدار کے سامنے سچ بولنا مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بہترین طریقہ ہے، اور سب کے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کا واحد طریقہ ہے‘‘۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین