کلکتہ:انصاف نیوز آن لائن
ایسے تو مسلم مجلس مشاورت گزشتہ کئی دہائیوں سے مقصدیت سے بہت دور جاچکی ہے اور یہ چند اشرافیہ مسلمانوںکی جماعت بن گئی ہےجو ٹوئیٹر کی سرگرمی کو ہی اپنی ملی ذمہ داری سے عہدہ برآ سمجھتے ہیں۔مغربی بنگال میں بھی مشاورت تقسیم درتقسیم کی شکار ہے۔دہلی مرکز کی نمائندہ کہے جانے والی مغربی بنگال مسلم مجلس مشاورت جو محض ایک یا پھر ڈیڑھ سال قبل تشکیل پائی تھی بھی اندرونی اختلافات اور عدم تعاون و تال میل کا شکار ہے۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے قرآن سے متعلق توہین آمیز بیان پر مغربی بنگال مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سیکریٹری منظر جمیل نے صدر ڈاکٹر ایم این حق کے صلاح و مشورہ کے بعد میٹنگ بلائی تھی مگر مشاورت کے صدر ڈاکٹر ایم این حق نے جنرل سیکریٹری سے رابطہ کئے بغیر واٹس گروپ میں ایک مختصر پیغام کے ذریعہ میٹنگ رد کردیا۔انہوں نے لکھا کہ کہ چوں کہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اس بیان پر وضاحت کردی ہے اس لئےمیٹنگ کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد گروپ میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ جب میٹنگ جنرل سیکریٹری نے بلائی تھی تو پھر صدر نے میٹنگ رد کیوں کی ؟ کیا صدر نے اس کیلئے جنرل سیکریٹری سے رائے لی تھی۔اس کے بعد گروپ میں جنرل سیکریٹری منظر جمیل نے واضح کیا کہ میٹنگ رد کرنے کیلئے صدر اور ورکنگ صدر نے ان سے کوئی مشورہ نہیںکیا ۔منظر جمیل نے اس کو پروٹوکول کے خلاف بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ افسوس ناک ہے اور تنظیمی قواعد و اصول کے خلاف ہے۔
منظر جمیل نے واٹس اپ گروپ میں اپنے اس پریس ریلیز کو بھی شیئر کیا ہے جسے وہ میٹنگ میں پیش کرنے والے تھے۔پریس ریلیز میں منظر جمیل نے انتہائی جامع انداز میںقرآن سے متعلق ممتا بنرجی کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی اور مقدس کتابوں سے متعلق اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔گرچہ ممتا بنرجی نے اس پر وضاحت کردی ہے مگر ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کیلئے اس طرح کی بے احتیاطی والے بیانات کسی بھی درجے میں مناسب نہیں ہیں۔
معاملہ کیا ہے؟
دراصل گزشتہ ہفتے ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعلی ٰ ممتا بنرجی نے تقریر میںکہا کہ ’’قرآن’ وید اور بائبل ختم ہوجائیں گے مگر ان کے ترقیاتی کام ختم نہیں ہونے والے ہیں ‘‘ اس بیان پرمسلمانوں میں ناراضگی پھیلنا لازمی ہے ۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے بیان پر جو رد عمل ماضی میں مسلمانوں کی جانب سے آتا رہا ہے وہ رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا ۔ اگر اس طرح کے بیانات بی جے پی یا پھرکسی اور تنظیم کے ذمہ دار کی جانب سے آتے تو پھر مسلمانوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔تاہم ممتا بنرجی کی مخالفت میں ایک دو آوازیں بلند ہوئیں ۔بعد میں کافی تاخیر کے بعد امام عیدین قاری فضل الرحمن نے اگر و مگر کے ساتھ بیان جاری کیا۔یہ بیان تیزی سے وائرل ہونے لگا۔
اس درمیان ممتا بنرجی کے کابینہ کے ایک سینئر مسلم وزیر کا بیان آیا ۔یہ بیان مسلمانوں کی دل جوئی اور ممتا بنرجی کے بیان پر اظہار ندامت کے بجائے مسلمانوں پر ہی احسانات جتائے گئے ۔انہوں نے ممتا بنرجی کے بیان کی جو تشریح کی وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔وزیر موصوف کہتے ہیں کہ ممتا بنرجی نے دیگر مذہبی کتابوں سے متعلق بھی کہا ہے کہ مگر صرف مسلمان ہی احتجاج کیوں کررہے ہیں؟ وزیر موصوف خود بھی مسلمان ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے تھاکہ قرآن سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ واضح ہے کہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔اس کا حرف بہ حرف محفوظ ہے چوں کہ اللہ کا کلام ہے اس لئے قرآن بھی ابدالآباد رہنے والی کتاب ہے۔اس کے ختم ہوجانے کی بات تو دور ایک حرف کی تحریف ممکن نہیں ہے۔چناں چہ مسلمانوں نے قرآن کرایم کی حفاظت اور ناموس رسالت پر بال برابر توہین برداشت نہیں کی ہے۔یہ ایسی ریڈ لائن ہے جس کو عبور کرنے کی مسلمانوں نے کبھی بھی اجازت نہیں دی ہے۔
ریاستی وزیر اپنے بیان کے دوسرے مرحلے میں کہتے ہیں کہ بنگال میں مسلمانوں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔مسلمان کھلے عام زندگی گزار سکتے ہیں اور سڑکوں پر نماز پڑھنے کی آزادی ہے۔بہار اور اترپردیش میں مسلمانوں کو ہرقسم کے مشکلات کا سامنا ہے۔ ریاستی وزیر فرہاد حکیم مسلمانوں پر ممتا بنرجی کے احسانات گنوارہے ہیں تو ریاستی وزیر کو اس حقیقت سے روشناس کرانا ضروری ہے کہ اگر ریاست کے 27فیصد مسلمانو ں کا یک طرفہ ووٹ نہیں ملتا تو کیا ممتا بنرجی وزیرا علیٰ بن پاتھیں۔آج ممتا بنرجی 48فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسری مرتبہ وزیر اعلی بنی ہیں تو اس میں 27فیصد مسلمانوں میں سے 25فیصد مسلمانوں کا یک طرفہ ووٹ شامل ہے۔اگر 48فیصد ووٹ سے 25فیصد ووٹ مائنس کردیا جائے تو پھر ممتا بنرجی کے پاس کیا بچتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی حمایت میں کے بدلے مسلمانوں کو کیاملا ؟صرف سڑکوں پر نماز پڑھنے کی چھوٹ ؟ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی صورت حال کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں ۔یہ سوال ریاستی وزیر سے پوچھنا چاہیے۔
ماضی میں خود فرہاد حکیم اس طرح متنازع بیان دے چکے ہیں ۔
ممتا بنرجی کی وضاحت !
ترنمول کانگریس کو جب یہ احساس ہونے لگا کہ مسلمانوں میں ناراضگی پھیل سکتی ہے اور اس کا اثر لوک سبھا انتخابات میں پڑسکتا ہے تو دس دنوں کے بعد ممتا بنرجی نے جارحانہ انداز میںاپنے اس بیان پر اظہار معذرت کرنے کے بجائے وضاحت پیش کی ۔تقریر میںانہوں نے ری پبلک ٹی وی کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک گودی میڈیا میرے بیان کو آدھے ادھورے حصے کو کاٹ کر پیش کررہا ہے ۔میں کیوں چاہوں گی کہ قرآن ختم ہوجائے۔میں کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔گرچہ انہوں نے اپنے اس بیان کے اس حصے کیلئے مسلمانوں سے معذرت نہیں کی ۔صرف انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کا جو مطلب لیا جارہا ہے وہ ان کا مقصد نہیں ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر ٹی وی چینل نے ان کے بیان کو توڑ مرور کیا ہے تو پھر اس چینل کے خلاف کیس کیوں نہیں درج کیا؟ مگر اس معاملے کو سامنے لانے والی ایک مسلم صحافی کو کئی گھنٹوں تک تھانے میں بیٹھارکھا۔
مغربی بنگال مسلم مجلس مشاورت ناکام کیوں ہے؟
ایسا نہیں ہے مسلم مجلس مشاورت پہلی مرتبہ اس طرح سے ناکامی کا سامنا کررہی ہے۔قومی سطح پر مشاورت گزشتہ کئی دہائیوں سے عضو معطل بن چکا ہے۔اہم شخصیات اس سے علاحدہ ہوچکی ہیں ۔مشاورت ملی تنظیموں کے درمیان رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔یہی صورت حال ریاستی سطح پر ہے۔مشارورت کے پرانے افراد الگ ہوچکے ہیں ۔چناں چہ مسلم مجلس مشاورت اہم مسائل اور ایشوز مسلمانوں کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہی ہے۔اب جب کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران جب ابھیشیک بنرجی شہریت ترمیمی ایکٹ پر متنازع بیان دیا اس وقت بھی لوگوں کو امید تھی کہ ملی تنظیمیں اور جماعتیں اپنا احتجاج کرائیں گی۔مگر بشمول مشاورت اس معاملے میں ناکام رہی۔اسی طرح لوک سبھا انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کی نمائندگی کے سوال پر بھی مشاورت سمیت دیگر تنظیمیں بھی غائب رہیں ۔
اب جب کہ ممتا بنرجی کے متنازع بیان پرمشاورت نے جرأت کی بھی تو چند عہدیدار نے مل کراس میٹنگ کو بھی ناکام کردیا ہے۔انصاف نیوز آن لائن کو مشاورت میں شامل ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک سے زائد ممبر نے بتایا کہ چند سینئر عہدیدار جن کا حکمراں جماعت کے لیڈروں سے قریبی تعلق ہے وہ نہیں چاہتے ہیں کہ مشارت کے پلیٹ فارم سے ایسا کوئی بیان نہ جائے جس سے ان کی ناراضگی کا سامنا انہیں کرنا پڑے۔اس میٹنگ کو رد کرانے میں اسی عناصر کا ہاتھ ہے۔