احمد آباد: انصاف نیوز آن لائن
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات کے شہر ودودرا میں ایک سرکاری رہائشی کمپلیکس میں ایک مسلم خاتون کواس کے الاٹ شدہ مکان میں اس لئے داخل ہونے نہیں دیا جارہا ہے کہ خاتون مسلمان ہیں ۔رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ چوں کہ اس کمپلیکس کے زیادہ تر رہائشی ہندئوں ہیں اور کسی مسلم کے آنے سے امن و امان کے ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ شائع ہونے کے بعد گجرات ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ برجیش ترویدی نے چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس پرناو ترویدی کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے از خود نوٹس لینے کی درخواست کی۔تاہم عدالت نے اس کو مسترد کردیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ (وڈوڈرا) میونسپل کارپوریشن اس پورے معاملے میں مداخلت کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا ہے کہ کارپوریشن انتظامیہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی عدالت ہی کچھ کرے گی۔
گجرات ہائی کورٹ چیف جسٹس اگروال نے تاہم جواب دیاکہ وہ ازخود نوٹس نہیں لیں گے بلکہ متاثر خاتون درخواست دائر کرسکتی ہے۔وہ درخواست دینے کی اہل ہیں ، انہیں آنے دیں ہم حکم جاری کریں گے ۔اگر الاٹمنٹ کے بعد قبضہ نہیں دیا جاتا ہے، تو وہ عدالت آ سکتی ہیں، خاتون کو اپنی درخواست دائر کرنے دیں۔ ہم ہر معاملے کو حساس نہیں بنا رہے ہیں… ایک شخص جس کے حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس کےپا س عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا موقع ہے۔یہ مفاد عامہ کا معاملہ نہیں ہے۔
دراصل وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ٹیم نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کیلئے گجرات کو ایک ماڈل کے طور پر استعمال کیا ہے۔وہ اب گجرات میں ادارہ جاتی تعصب میں تبدیل ہوچکا ہے۔چناں چہ گجرات میں مسلمانوں کی آبادی کو الگ تھلگ رکھنے کی یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے ۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق 462 یونٹوں پر مشتمل ایک ہاؤسنگ کمپلیکس کے 33 رہائشیوں نے وڈودرا کے ضلع کلکٹر اور دیگر افسران کو ایک تحریری شکایت بھیجی تھی کہ کسی ایک مسلمان کی موجودگی وجہ سےان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔
ضلع کلکٹر، میئر، وڈودرا میونسپل کمشنر اور پولیس کمشنر کو سونپے گئے میمورنڈ م میں33 دستخط کنندگان نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم خاتون کو جو فلیٹ الاٹ منٹ کیا گیا ہے اس کو ’’غیر قانونی‘‘قرار دیا جائے کسی اور ہاؤسنگ سکیم میں شفٹ کردیا جائے۔
44 سالہ مسلم خاتون انٹرپرینیورشپ اور اسکل ڈیولپمنٹ کی وزارت میں ملازمت کرتی ہیں ۔ وڈودرا میونسپل کارپوریشن (VMC) کے کم آمدنی والے گروپ ہاؤسنگ کمپلیکس میں مکھیہ منتری آواس یوجنا کے تحت ہرنی رہائش کمپلیکس میں رہائشی یونٹ الاٹ کیا گیا تھا۔خاتون جو اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی تھی وہ اس کمپلیکس میں فلیٹ ملنے کے بعد بہت خوش تھی ۔تاہم فلیٹ میں منتقل ہونے سے قبل ہی 462 فلیٹ پر مشتمل ہاؤسنگ کمپلیکس کے 33 رہائشیوں نے تحریری شکایت ڈسٹرکٹ کلکٹر اور دیگر افسران کو بھیجی، جس میں ایک مسلمان کو فلیٹ الامنٹ کئے جانےپر اعتراض کیا گیا ہےکہ کمپلیکس میں مسلم موجودگی سے ممکنہ ’’خطرہ اور پریشانی ‘‘ لاحق ہوسکتی ہے۔اس رہائشی کمپلیکس میں فلیٹ حاصل کرنے والی وہ واحدمسلم ہیں ۔
انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ وڈودرا میونسپل کمشنر دلیپ رانا تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ ڈپٹی میونسپل کمشنر ارپت ساگر اور ایگزیکٹیو انجینئر برائے سستی مکانات نیلیش کمار پرمار نے اس مسئلہ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
44 سالہ مسلم خاتون نے بتایا کہ 2017میں اس کو مکان الاٹ منٹ کیا گیا تھا۔مگراحتجاج سب سے پہلے 2020 میں شروع ہوا جب رہائشیوں نے وزیر اعلیٰ کے آفس (سی ایم او) کو خط لکھا، جس میں ان کے گھر کی الاٹمنٹ کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ تاہم، ہرنی پولیس اسٹیشن نے اس کے بعد تمام متعلقہ فریقوں کے بیانات ریکارڈ کیے اور شکایت بند کردی۔چار دن قبل 10جو ن کو ایک بار پھر رہائشیوں نے احتجاج شروع کردیا کہ ایک مسلم خاتون کو فلیٹ میں نہیں رہنے دیں گے۔
مسلم خاتون نے کہا کہ میں وڈودرا کے ایک مخلوط محلے میں پلی بڑھی ہوں اور میرا خاندان کبھی بھی مسلم کھیتو میں رہنے میں یقین نہیں رکھتی ہے… میں ہمیشہ سے یہ چاہتی تھی کہ میرا بیٹا ایک مشترکہ آبادی والےمحلے میں پروان چڑھے لیکن میرے خواب چکنا چور ہو گئے کیونکہ تقریباً چھ سال ہو گئے ہیں میں جس مخالفت کا سامنا کر رہی ہوں اس کا کوئی حل نہیں۔ میرا بیٹا اب 12 ویں کلاس میں ہے امتیازی سلوک کی وجہ سے ذہنی طور پر متاثر ہوگیا ہے۔
موتناتھ ریزیڈنسی کوآپریٹو ہاؤسنگ سروسز سوسائٹی لمیٹڈ کے میمورنڈم میں کہا گیا ہےکہ ودودڑا میونسپل کارپوریشن نے مارچ 2019 میں ایک اقلیتی استفادہ کنندہ کو مکان نمبر K204 الاٹ کیا تھا… ہمارا ماننا ہے کہ ہرنی علاقہ ایک ہندو اکثریتی پرامن علاقہ ہے اور چار کلومیٹر کے احاطے میں یہاں مسلمانوں کی کوئی بستی نہیں ہے۔یہ 461 خاندانوں کی پرامن زندگی کو آگ لگانے کے مترادف ہے۔‘‘
میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ مسلم خاتون کو فلیٹ الاٹ منٹ کئے جانے کی وجہ سے کالونی کے رہائشیوں کے سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ہم سب نے اس کالونی میں گھر اس لئے بک کرائے تھے کیونکہ یہ ایک ہندو محلہ ہے اور ہم یہ پسند نہیں کریں گے کہ دوسرے مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے لوگ ہماری کالونی میں رہیں۔ یہ دونوں فریقوں کے آرام کے لیے ہے۔
خاتون فی الحال اپنے والدین اور بیٹے کے ساتھ وڈودرا کے ایک اوردوسرے علاقے میں رہتی ہیں۔ خاتون نے کہا کہ میں صرف اس مخالفت کی وجہ سے اپنی محنت سے کمائی گئی جائیداد فروخت نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ میں انتظار کروں گی… میں نے کالونی کی مینیجنگ کمیٹی سے بارہا وقت مانگنے کی کوشش کی لیکن وہ جواب نہیں دیتے۔ اپنی تازہ ترین احتجاج سے محض دو دن پہلے، انہوں نے مجھے فون کرکے دیکھ بھال کے واجبات کا مطالبہ کیاتھا ۔میں نے کہا کہ میں وہی رقم ادا کرنے کو تیار ہوں اگر وہ مجھے بطور رہائشی شیئر سرٹیفکیٹ فراہم کریں جو انہوں نے میرے حوالے نہیں کیا ہے۔ VMC نے پہلے ہی تمام رہائشیوں سے 50ہزار روپے یک وقتی دیکھ بھال کے چارج کے طور پر وصول کرلیے ہیں ۔حکومت نے مجھے ہاؤسنگ کالونی میں رہنے کے حق سے انکار نہیں کیا ہے۔
تاہم کالونی کے ایک اور رہائشی نے مسلم خاتون کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر منصفانہ ہے کیونکہ وہ ایک سرکاری سکیم سے فائدہ اٹھانے والی ہے اور اسے قانونی دفعات کے مطابق فلیٹ الاٹ کیا گیا ہے۔رہائشیوں کے خدشات درست ہو سکتے ہیں لیکن ہم لوگوں سے بات چیت کیے بغیر یہ احتجاج کئے جارہے ہیں۔
وی ایم سی کے ہاؤسنگ ڈپارٹمنٹ کے افسران نے بتایا کہ چونکہ سرکاری اسکیموں میں درخواست دہندگان اور فائدہ اٹھانے والوں کو مذہب کی بنیاد پر الگ نہیں کیا جاتا ہے اس لیے ہاؤسنگ قرعہ اندازی اصولوں کے مطابق کی گئی۔ ایک اہلکار نے کہاکہ ’’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے دونوں فریقوں یا مجاز عدالتوں سے رجوع کر کے حل کرنا چاہیے۔