کلکتہ : انصاف نیو زآن لائن
سپریم کورٹ کی سخت سرزنش کا سامنا کرنے والی ممتا بنرجی نے آج عصمت دری کے خلاف سخت قوانین سازی کا مطالبے کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا کہا ہے کہ اس معاملے میں قومی اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک میں ہردن 90عصمت دری کے واقعات درج کئے جاتے ہیں۔دوسری جانب سپریم کورٹ نے آج آرجی کار میڈیکل کالج وا سپتال میں جونیئر ڈاکٹرکی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں ممتا حکومت کے کردار اور پولس انتظامیہ کے رول پر سخت سرزنش کرتے ہوئے سی بی آئی سے جانچ کی رپورٹ ایک بار پھر طلب کی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے احتجاج کرنے والوں ڈاکٹروں سے اپیل کی کہ وہ کام پر لوٹ جائیں اور انہیں یقین دلایا کہ کوئی بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایمس کے ڈاکٹر 13 دن سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ میں ان سے کہوں گا، براہ کرم کام پر واپس آجائیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔سپریم کورٹ نے آر جی کار عصمت دری کیس میں سی بی آئی کو ایک بار پھر مہر بند لفافے میں تحقیقات کی پیشرفت کے بارے میں اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنی کی ہدایت دی ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بنگال حکومت کو ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ۔
جمعرات کو ریاست نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ اپوزیشن لیڈر شوبھندوادھیکاری تیزابی بم استعمال کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اپنا راستہ اپنائے ۔ ہم نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ تمام فریقوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ان تمام پبلسٹی انٹرسٹ لیگیشن فائلوں کو بند کر دیں تو میڈیا ٹرائل بھی بند ہو جائے گا۔ پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے مقدمات دائر کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہاس اہم معاملے کو شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا جائے ۔
مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاست کے خلاف شکایت اس وقت کی جب عدالت نے ڈاکٹروں کی حفاظت پر تشویش کا اظہارک ا۔ انھوں نے کہا کہ ‘مغربی بنگال کے ایک وزیر نے کہاکہ اگر کوئی ہمارے لیڈر کے خلاف بولے گا تو میں انگلی کاٹ دوں گا۔ ریاستی وکیل کپل سبل نے جواب دیاکہ آپ کے لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے کہا کہ وہ فائرنگ جاری رکھیں گے۔ دونوں فریقوں کے درمیان لفظی جنگ پر چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہاکہ ’’اس معاملے پر سیاست نہ کریں۔ ہمیں ڈاکٹروں کی حفاظت کی فکر ہے۔
آر جی کار کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹروں کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کئی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز کام پر واپس لوٹ جائیں ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘‘ چیف جسٹس نے ڈاکٹروں سے کام پر واپس آنے کی اپیل کی۔ انہوں نے ریاست کو عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت دی۔
سپریم کورٹ نے سیالدہ اے سی جے ایم کو جمعہ کی شام 5 بجے تک پولی گراف ٹسٹ کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی ۔آر جی کار کیس میں گرفتار ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی۔ سی بی آئی نے منگل کو سیالدہ عدالت سے رجوع کیا اور ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ کی درخواست کی۔ ذرائع کے مطابق انہیں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہاں نہیں لایا گیا۔ اس جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ کے لیے عدالتی اجازت کی ضرورت ہے۔ سی بی آئی نے گرفتار سیوک پولس کے پولی گراف ٹیسٹ کے لیے سیالدہ عدالت میں درخواست دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صبح ساڑھے 9 بجے لاش برآمد ہوئی۔ اور رات ساڑھے گیارہ بجے ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ ایف آئی آر تقریباً 14 گھنٹے بعد کیوں درج ہوئی۔یہ ناقابل قبول ہے۔ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر 14 گھنٹے تاخیر سے کیوں درج کی گئی؟ پرنسپل ایف آئی آر درج کرانے کیوں نہیں آئے؟ کیا کوئی انہیں ایف آئی آر کرانے روک رہا تھا؟ پرنسپل نے جب استعفیٰ دیدیا تو انہیں دوسرے میڈیکل کالج و اسپتال میں ٹرانسفرکیوں کیا گیا ہے؟ عدالت نے اس پر ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو آر جی کار اسپتال میں عصمت دری اور قتل کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق، سی بی آئی نے تحقیقات کی پیشرفت پر ایک اسٹیٹس رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ ریاست نے توڑ پھوڑ کے واقعہ کی رپورٹ بھی پیش کی۔ سپریم کورٹ نے قتل اور عصمت دری کے واقعات میں ٹائم لائن یا واقعات کی ترتیب کے بارے میں ریاست سے کئی سوالات پوچھے۔ ریاست کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی ویڈیو گرافی کی گئی تھی۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کے وکلا نے آر جی کار اسپتال کے انتظامیہ پر دھمکیاں دینے کا الزام لگایا۔ شکایات سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کون کر رہا ہے؟ ہمیں اس کا نام دو۔” چیف جسٹس نے ڈاکٹروں کو بھی کام پر واپس آنے کا کہا۔
جسٹس پارڈی والا نے سماعت کے دورانکہا کہ میں حیران ہوں، پوسٹ مارٹم سے پہلے کہا گیا کہ یہ غیر معمولی موت ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ پھر پوسٹ مارٹم کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ اس سلسلے میں ریاست کی نظر ثانی شدہ وضاحت سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد اسے غیر فطری موت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ پھر پولیس کو موت کی وجہ معلوم ہوئی۔
وزیرا علیٰ ممتا بنرجی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر ملک میں ریپ کی روک تھام کے لیے سخت قوانین لانے کی اپیل کی ہے۔خط میں ممتا نے ملک بھر میں عصمت دری کے واقعات میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے قصورواروں کے ٹرائل کی کارروائی 15 دن کے اندر مکمل کرنے کیلئے قانون سازی کی اپیل کی ہے۔
وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے چیف ایڈوائزر الاپن بنرجی نے جمعرات کو نوبنو میں ایک پریس کانفرنس میں اس خط کی جانکاری دی۔ جمعرات کوترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا اور مغربی بنگال سمیت تمام ریاستی حکومتوں سے درخواست کی کہ وہ مرکزی حکومت پر سخت انسداد عصمت دری کے قوانین کو نافذ کرنے کے لیےدباؤ ڈالیں۔
آر جی کارکیس میں ریاستی حکومت تنقید کی زد میں۔ سپریم کورٹ نے بھی سوال اٹھائے ہیں ۔ اس صورتحال میں ممتا نے وزیر اعظم کو خط لکھا۔ خط میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں عصمت دری اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روزانہ اوسطاً 90 ریپ ہو رہے ہیں۔ ایسےاہم اور حساس واقعات کو روکنے کے لیے فوری طور پر سخت قوانین لانے کی ضرورت ہے۔ خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ فاسٹ ٹریک عدالتوں کے ذریعے ایسے واقعات کی تیز ٹرائل کے عمل کو مکمل کرکے سزا کو یقینی بنانے کے معاملے کو بھی قانون کے دائرے میں رکھا جائے۔ وزیراعلیٰ نے واقعے کے 15 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
جمعرات کو، ابھیشیک نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ایک سخت انسداد عصمت دری قانون متعارف کرایا جانا چاہئے، جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ واقعہ کے 50 دنوں کے اندر مجرم کی شناخت ہو اور اسے سزا دی جائے اور مجرم کو سخت ترین سزا دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 10 دنوں میں ملک میں عصمت دری کے 900 واقعات ہوئے ہیں۔ ہر روز عصمت دری کے 90 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ عصمت دری کی چار شکایتیں ہر گھنٹے اور ایک ہر 15 منٹ میں درج کی جاتی ہیں۔ ابھیشیک کو لگتا ہے کہ ملک میں عصمت دری کے خلاف سخت قوانین ضروری ہو گئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ تمام ریاستی حکومتوں کو مرکزی حکومت پر سخت انسداد عصمت دری قوانین بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اس سے کم کوئی بھی چیز خالصتاً علامتی ہوگی اور اس کا کوئی فائدہ نہیںہوگا۔
9 اگست کی صبح ڈاکٹر کی لاش آر جی کار میڈیکل کالج کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی چوتھی منزل کے سیمینار ہال سے برآمد ہوئی تھی۔ عصمت دری اور قتل کے الزامات لگے۔ کلکتہ پولیس نے اس واقعہ میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ بعد میں کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم پر سی بی آئی نے واقعہ کی تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لی۔سپریم کورٹ اپنی پہل پر کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے بنچ نے واقعات کے سلسلہ کی صداقت پر سوال اٹھایا۔ عدم اطمینان کا اظہار کیا۔اس صورتحال میں ممتا نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہےکہ عصمت دری کو روکنے کے لیے سخت قانون نافذ کیا جائے۔