محمد فاروق
اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کی خارجہ پالیسی ایک ایسے موڑ پر آن پہنچی ہے جہاں قومی وقار‘خودمختاری اور آزاد سفارت کاری کے اصول پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ حالیہ امریکی دورے میں مودی کی سفارتی روش اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات نے ایک بار پھر اس امر کو ثابت کر دیا کہ ہندوستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کے بجائے محض ایک طفیلی ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنا رہا ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ مودی حکومت نے امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہو‘لیکن اس مرتبہ سپردگی کا یہ عالم تھا کہ سفارتی شائستگی کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ ٹرمپ ایک طرف چین کے خلاف ہندوستان کو استعمال کرنے کے خواہاں ہیں‘دوسری طرف ہندوستان کی اقتصادی و عسکری کمزوریوں کو مزید بڑھانے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ مگر مودی حکومت امریکی حمایت کے سراب میں اپنی داخلی اور خارجی خودمختاری کو داؤ پر لگانے کیلئے تیار نظر آتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی ہندوستان پالیسی کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ ہندوستان کو محض ایک مہرے کے طور پر دیکھ رہا ہے جو خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن کے نزدیک ہندوستان کی حیثیت ایک ایسے اتحادی کی ہے جو نہ تو برابر کی سطح پر مذاکرات کی سکت رکھتا ہے اور نہ ہی امریکی پالیسیوں سے اختلاف کی جرات۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے بارہا ایسے فیصلے کئے جو ہندوستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ چاہے وہ عالمی تجارتی تنظیم میں ہندوستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہو یا ایچ بی 1 ویزا پالیسی میں سختی کے ذریعے ہندوستانی آئی ٹی ماہرین کو دھچکا دینا‘ہر معاملے میں امریکہ نے اپنی بالادستی قائم رکھی اور مودی حکومت نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
مزید برآں‘دفاعی معاملات میں بھی مودی حکومت کی کمزوری عیاں ہو چکی ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو کچھ محدود دفاعی معاہدوں کی پیشکش تو ضرور کی‘مگر ان میں وہ شرائط شامل کیں جو ہندوستان کیلئے سودمند ہونے کے بجائے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہندوستان کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے‘مگر اس کے بدلے میں امریکہ نے ہندوستان کو روسی ہتھیاروں کی خریداری سے روکنے کی کوشش کی جو ایک خودمختار ملک کیلئے ناقابل قبول ہونا چاہئے تھا۔
مودی کے اس دورے میں توانائی کے شعبے میں خاصی سرگرمی دیکھی گئی۔ توانائی کے شعبے میں چھ جوہری ری ایکٹرز کی بات چیت ہوئی تاہم اس کی راہ میں قانونی اور تکنیکی رکاوٹیں موجود ہیں جنہیں مستقبل میں حل کرنا ہوگا۔وزیر اعظم کے اس دورے کے دوران ایک اور اہم پہلو مشترکہ پریس کانفرنس میں سول نیوکلیئر معاہدوں کو تیز کرنے کے عزم کا اعادہ تھا۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان 2008 میں تاریخی سول نیوکلیئر معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے‘لیکن اس کے بعد سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اب دونوں ممالک نے تعطل کو ختم کرنے کیلئے نہ صرف بڑے جوہری ری ایکٹرز بلکہ چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز پر بھی تعاون کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اقتصادی میدان میں بھی امریکہ نے ہندوستان کے ساتھ استحصالی رویہ اختیار کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی ”امریکہ فرسٹ“ پالیسی کے تحت ہندوستان کی کئی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کئے گئے‘جبکہ امریکی کمپنیوں کو ہندوستانی منڈی پر تسلط حاصل کرنے کے مزید مواقع دیئے گئے۔ یہ دوغلی پالیسی اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکہ ہندوستان کو ایک برابر کے شراکت دار کے بجائے ایک تابع ملک کی طرح دیکھتا ہے۔ مودی حکومت کی کمزور مزاحمت اور غیر موثر سفارت کاری نے اس استحصالی رویے کو مزید تقویت بخشی ہے۔
ہندوستان کے داخلی سیاسی منظرنامے میں بھی مودی حکومت کا امریکی جھکاؤ سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ بی جے پی کے نظریاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی حکومت نے امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات استوار کئے جو ہندوستان کی روایتی ناوابستگی کی پالیسی کے سراسر خلاف ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان بین الاقوامی سفارتی توازن کھو چکا ہے۔ چین اور روس جیسے اہم عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ محض اپنے مفادات کیلئے ہندوستان کو استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کا حالیہ امریکی دورہ نہ صرف سفارتی ناکامی کی علامت ہے بلکہ ہندوستانی خودمختاری پر ایک گہرا سوالیہ نشان بھی چھوڑ گیا ہے۔ امریکہ کے سامنے اس بے دریغ سپردگی نے ہندوستان کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں قومی مفاد پس پشت چلا گیا ہے اور ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے اس کی شناخت کمزور ہو رہی ہے۔ اگر مودی حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں کرتی تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان عالمی سفارتی بساط پر محض ایک مہرہ بن کر رہ جائے گا جسے عالمی طاقتیں اپنی مرضی سے حرکت دیتی رہیں گی۔