Friday, December 13, 2024
homeتجزیہاپنے عہد کے نباض اور مفکر: پروفیسر امتیاز احمد

اپنے عہد کے نباض اور مفکر: پروفیسر امتیاز احمد

غالباً معروف مؤرخ اور ماہر عمرانیات ابن خلدون کا قول ہے کہ جس قوم یا معاشرے کا دانشور طبقہ منافق، مصلحت پسند اور بزدل ہو جائے اسے زوال اور تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ معاصر ہندوستانی معاشرہ جن حالات سے دوچار ہے اس میں پروفیسر امتیاز جیسی شخصیت کا جانا ایک بڑا المیہ ہے

پروفیسر اخلاق آہن

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات سے وابستہ عالمی شہرت کے حامل دانشور پروفیسر امتیاز احمد کا آج بروز 19 جون 2023 کو صبح ساڑھے دس بجے انتقال ہوگیا۔ وہ کچھ دنوں سے ایمس، دہلی میں زیر علاج تھے اور گزشتہ کئی برسوں سے بیمار تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی دوسری اہلیہ ڈاکٹر صبیحہ ہیں جو بڑی تندہی اور لگن سے تا دم آخر ان کی خدمت کرتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں : برطانوی وزیر اعظم رشی سُنک نے یوکرینی صدر زیلینسکی کو کھلائی ماں کے ہاتھوں سے بنی برفی، دیکھیں ویڈیو
پروفیسر امتیاز احمد جیسی شخصیت کا جانا ایک بڑا واقعہ ہے۔ غالباً معروف مؤرخ اور ماہر عمرانیات ابن خلدون کا قول ہے کہ جس قوم یا معاشرے کا دانشور طبقہ منافق، مصلحت پسند اور بزدل ہو جائے اسے زوال اور تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ معاصر ہندوستانی معاشرہ جن حالات سے دوچار ہے اس میں پروفیسر امتیاز جیسی شخصیت کا جانا ایک بڑا المیہ ہے۔ وہ ملک کے معدودے چند دانشوروں میں سے تھے جو حالات کی ناسازگاری کی پروا کیے بغیر بڑی بے باکی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا گہرا مطالعہ اور مشاہدہ سیاسی اور سماجی حالات و واقعات اور پیچیدگیوں کے حوالے سے ان کے تجزیاتی مباحث میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خواہ وہ ان کے علمی و تحقیقی مقالات و کتب ہوں یا اخباری مضامین اور ٹیلی ویژن، ریڈیو وغیرہ پر گفتگو، ہر جگہ ان کی ژرف نگاہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران انھوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک سنجیدہ اور ممتاز ماہر عمرانیات اور دانشور کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔

انہوں نے شعبہ سیاسیات، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی کے علاوہ بطور مہمان استاد کناڈا، اٹلی، امریکہ، برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں بھی خدمات انجام دیں۔ ان کے بعض علمی کارنامے موضوع کے اعتبار سے انہیں بنیاد گذار حیثیت دیتے ہیں۔ ان میں خاص طور سے ان کی شہرہ آفاق اور فکر انگیز کتاب Cast and Social Stratification Among Muslims in India رہی، جس کے نتیجے میں انھیں سخت تنقید کا سامنا بھی ہوا۔ اسی طرح ان دوسری معرکتہ لآرا اور بحث انگیز کتابوں میں Lived Islam in South Asia اور Rituals and Religion among Muslims in India اور Middle class values in India and Europe وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

پروفیسر امتیاز اپنی خاص اور قدرے کھردرے افتاد طبع کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے اور ان کی شخصیت کا یہ پہلو ان کی زندگی کے واقعات کو متاثر کرتا رہا۔ چنانچہ شعبہ میں اپنے بعض ہمکار اساتذہ سے نزاع کے سبب معطل ہوئے اور ان کے کیریئر کا بیشتر حصہ اسی حالت میں گذرا لیکن وہ نہایت مضبوط اعصاب کے حامل انسان تھے اور یہ ناہمواریاں ان کے علمی شغف کو متاثر نہ کرسکیں بلکہ اسی دوران وہ دنیا بھر میں اپنی دانشورانہ شان کا مظاہرہ کرتے رہے۔

ان پرستاروں اور ناقدین کا بڑا حلقہ تھا۔ ان کے طلباء اور ان کی علمیت سے واقف افراد انہیں بہترین استاد، ایک دردمند انسان اور ہمہ وقت طلباء اور اہل علم ودانش کی ہر ممکن معاونت کرنے والے شخص کے طور پر جانتے ہیں۔ جن قابل قدر اساتذہ نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کو عالمی شہرت اور شناخت دلوانے میں اہم رول ادا کیا ان میں پروفیسر امتیاز احمد کا نام بھی سرفہرست ہے۔ آج کا معاشرہ اور تعلیمی حلقہ جس بے بضاعتی، انتشار, تنگ نظری، منافقت اور جہل سے دوچار ہے، اس میں ان کی اور ان جیسے افراد کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جائے گی۔

(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں پروفیسر و صدر شعبہ مطالعات فارسی و مرکزی ایشیا ہیں)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین