Thursday, November 21, 2024
homeادب و ثقافتامریکن یوم آزادی : نیو لبرل سامراج کا اغواشدہ تہوار — پروفیسر...

امریکن یوم آزادی : نیو لبرل سامراج کا اغواشدہ تہوار — پروفیسر ڈوگن

4 جولائی کو امریکہ میں یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ یہ دن بظاہر انٹی امپیرل ازم اور انٹی برطانیہ ہے۔ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے لوگوں کی تقدیر اور آزادی کی علامات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دن درحقیقت یوم آزادی کے بجائے غلامی اوراسیری کا دن ہے۔ ۔ ۔ پروفیسر ڈوگن (ترجمہ:وحید مراد)

4 جولائی، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں آزادی کا دن ہے اور ابھی چند روز قبل ہی یہ جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ 1776 کواسی دن امریکہ نے برطانوی نوآبادی سے آزاد ریاست کی حیثیت حاصل کی تھی۔ اس تہوار سے جو پہلی بات ذہن میں آتی ہے وہ امریکی عوام کی خوشی ہے۔ وہ خوشی جو انہوں نے برطانوی نسل پرستانہ، سرمایہ دارانہ اور استحصالی استعمار سےآزادی کی صورت میں حاصل کی۔ برطانوی سامراج دنیا بھرکی بحری سیاست کا گڑھ تھا اور اس سے زیادہ بدتر سامراجیت کہیں نہیں پائی جاتی تھی۔

لیکن سامراج سے حاصل کی گئی آزادی سے ہر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتاہے اور نہ ہی ہر قوم اس ادھوری آزادی سے اپنی آرزئوں اور امنگوں کی تکمیل کر سکتی ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے آزادی کے فوری بعد ہر کام کی ابتدا برطانوی میٹروپولٹن نظام کے خلاف، برعکس اقدامات سے کی۔ یہ ملک آزاد برادریوں کا ایک ایسا وفاق تھا جس میں مذہبی عناصر بھی شامل تھے لیکن انکی وجہ اشتراک سرمایہ دارانہ نظام سے محبت تھی۔ یہ برطانوی معاشی نظام کا ہی تسلسل تھا جس میں دولت کی طاقت اور اقتدار کے سامنے کسی غیر مادی و روحانی اقدار کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ یہ استحصال، غلامی، نسل پرستی اور جبر پر مبنی نظام تھا جسکا لازمی نتیجہ ثقافتی انحطاط کی صورت میں ہی نمودار ہوتا ہے۔ آزادی ایک روحانی قدر ہے اور جب یہ سرمایہ کی بڑھوتری کیلئے استعمال ہونے لگے تو یہ آزادی نہیں رہتی بلکہ غلامی کی بدترین شکل بن جاتی ہے۔

جب تک ریاستہائے متحدہ امریکہ کا یہ نظام اپنی ریاستی حدود کے اندرمقامی لوگوں تک محیط رہا، قابل قبول تھا۔ جیسے اب بھی دنیا کے کئی خطے ہیں جہاں انتہاپسندانہ سوچ رکھنے والے مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ گروہ پائے جاتے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے کسی قسم کا کاروبار زندگی پسند کرسکتے ہیں۔ لیکن امریکہ کے حوالے سے کچھ ایسے اقدامات ہوئے جو ناقابل تلافی تھے۔ نسل پرستی اوراستحصال پر یقین رکھنے والے برطانوی سامراج کے کچھ سرغنہ گروہ، افریقی اقوام کی نسل کشی اور وحشیانہ استحصال کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ برطانوی سلطنت کی وسعت سکڑتی جا رہی ہے تو اسکی جگہ لینے کیلئے ریاستہائے متحدہ امریکہ جیسی نوآبادی کو تیار کیا۔ برطانوی سامراج نے اس ریاست کے آزاد ہونے کے ساتھ ہی اسے اپنی سابقہ سلطنت کے علاقے کے طورپر استعمال کرنا شروع کیا لیکن اب یہ برطانیہ کا ایک صوبہ نہیں بلکہ اس نظام کا مرکز تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد اس امریکی سرمایہ دارانہ ریاست کے پیامبر کا کردار ووڈرو ولسن (Woodrow Wilson) نے ادا کیا۔ عالمی جمہوریت کے ضامن کے طور پر امریکی کردار کے بارےمیں انکا 14 نکاتی اعلان امریکی سامراج اور گلوبل ازم کا پروگرام بن گیا۔ یوں امریکہ، آزادی کے مرکز کے بجائے عالمی تسلط اور آمریت کے مرکز میں تبدیل ہوگیا۔

بیسویں صدی میں ریپبلکن اور قدامت پرستوں نے آزاد برادریوں کی ریاست کی پرانی ‘ مقامی اور غیر جانبداری کی حکمت عملی” کی طرف لوٹنے کی کوشش کی

لیکن قدرے ہچکچاہت کے باوجودامریکہ میں سامراجی راستے پر چلنے کو ہی زیادہ قابل عمل سمجھا گیا۔ پیٹرک بوکانن (Patrick Buchanan) نے بہت تلخ لہجے میں اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ بیسویں صدی میں ریاستہائے متحدہ امریکہ نے تقریباًپوری دنیا حاصل کر لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو کھو دیا۔ اوربالآخر اپنے آپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے بعد بائیں بازو کے علامتی گلوبلسٹ، غیر متوازن، عمر رسیدہ، لبرل اور نیو کنزرویٹو جو بائیڈن کا انتخاب کیا۔

ٹرمپ نے سامراج مخالف اٹھنے والے پرانے اور ابتدائی دور کے امریکہ کو بچانے اور واپس لانے کی شدید خواہش کے ساتھ انتہائی کوشش کی۔ امریکہ نے اپنے یوم آزادی مناتے وقت اس آدرش کا اظہار بھی کیا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بالآخر وہ ہار گیا۔

امریکی شناخت کی ابتداء اوربنیاد میں مسیحانہ لبرل ازم اور سرمایہ داری سے بالکل مختلف فلسفہ کارفرما تھا۔ امریکی حقیقت پسند اور عملیت پسند تھے۔ انکے لئے اہم چیز صرف یہ تھی کہ نظام اچھی طرح کام کرے اور نتائج دے۔ انکے لئے حق کا معیار بھی صرف یہی تھا۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ عمل سیاسی طورپر درست ہے یا نہیں بس اہمیت صرف اس بات کی تھی کہ وہ درست طور پر چلتا رہے۔ انکے فلاسفہ چارلس سینڈرز پیئرس (Charles Sanders Peirce)، ولیم جیمز (William James) اور جوزایہ رائس (Josiah Royce) کے نظریات کا اصل مرکز یہی تھا۔

اس قسم کی عملیت پسندی امریکی آزادی کے اصل آدرش، گہری خواہش، امنگ و ارادے کا نتیجہ ہے۔ اسکی ریڈیکل بنیاد کسی بھی موضوعی یا معروضی، مابعدالطبیعاتی و بدیہی اصول، ترجیحی قانون اور روایتی اقدار کو واضح طور پرسختی کے ساتھ مسترد کرتی ہے۔

یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکی قوم کا جس عقلی اصول و علامت پر یقین محکم ہے وہ یہ ہےکہ’آپ اپنی خوشی اور ناخوشی جیسے نتائج پر نظر رکھتے ہوئے جو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کیجئے، سب کچھ آپکی آزادانہ مرضی اور انتخاب پر منحصر ہے۔ آپ کو اجازت ہے کہ آپ جب چاہیں نئے سرے سے مطلق ابتدا کے طورپر بھی شروعات کر سکتے ہیں۔ یہ رویہ اگرچہ بہت پرکشش ہے لیکن آج کا گلوبلسٹ اور الٹرا لبرل امریکی جس قدر عدم روادار اور جارح بن گیا ہے، اسکے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔

چنانچہ اس صورتحال میں آج کے امریکہ کیلئے 4جولائی، یوم آزادی کے بجائے ‘عظیم علت اور لت’ کا دن ہے۔ علت اور لت سے مراد صرف منشیات اور نشہ آور اشیاء نہیں جن میں یہ ملک تیزی سے ڈوب رہا ہے بلکہ اس میں بصری، جنسی، ورچوئیل اور ڈیجیٹل لت بھی شامل ہے۔ یہ بیرونی، اجنبی، برطانوی سامراجی نظریہ کی لت ہے جو دنیا بھر میں ہر جگہ فوجی اڈوں کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ لبرل ڈیموکریسی برآمد کرنے کے جھوٹے مشن پر گامزن ہے۔

لیکن ایک اور امریکہ بھی ہے، جو موجودہ گلوبلسٹوں کے زیر کنٹرول ہر چیز کا سخت مخالف ہے۔ یہ امریکہ ری پبلکنز، ٹرمپ کا حامی اور عظیم بیداری کا امریکہ ہے۔ اس امریکہ کی خواہش ہے کہ لوگ حقیقی آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں اور جدوجہد کریں۔ یہ حقیقی آزادی ان لوگوں کے غلامی کے چنگل سے نجات حاصل کرکے ہی نصیب ہو سکتی ہے جنہوں نے امریکہ کو خراب کیا، دیگر کمزور اقوام کو اسکا مخالف بنایا، اسکے بنیادی نظریات اورآدرش کو تباہ کیا اور اسے کئی سالوں سے ہائی جیک کیا ہوا ہے۔

(پروفیسر الیگزنڈر ڈوگین (Professor Aleksandar Dugin) روس کے سیاسی تجزیہ کار، معاشیات، تاریخ، فلسفہ اور فوجی حکمت عملی کے ماہر ہیں۔ لبرل ازم کا ماضی، حال اور مستقبل انکی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ وہ روس میں اہم سیاسی و فوجی شخصیات کے مشیر رہ چکےہیں اور’ صدر پیوٹن کا دماغ’ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ امریکی مقتدر حلقوں اورتھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ امریکہ کے پچھلے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی حکمت عملی پروفیسر ڈوگین نے تیار کی تھی اس لئے امریکہ میں انہیں دنیا کا خطرناک ترین فلسفی و پولیٹیکل سائنسٹسٹ سمجھا جاتا ہے۔ وہ تیس سے زائد کتب کے مصنف ہیں جن میں ‘جیو پالیٹکس کی فائونڈیشن’ اور ‘چوتھی سیاسی تھیوری’ زیادہ مشہور ہیں۔)

متعلقہ خبریں

تازہ ترین