Saturday, July 27, 2024
homeبنگالپسماندگی کی شکار بنگال کی مسلم خواتین اور ممتا حکومت کا دہرا...

پسماندگی کی شکار بنگال کی مسلم خواتین اور ممتا حکومت کا دہرا کردار

مغربی بنگال کی مسلم خواتین کی سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی سے متعلق مختلف رپورٹوں میں واضح طور پر نشان دہی کی گئی ہے کہ ان کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگرچہ کہ ریاست کے مسلمانوں کی مجموعی صورت حال ہی خراب ہے۔ ظاہر ہے کہ پسماندہ اقوام کی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اس کو بھی المیہ سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ جس ریاست میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے ایک خاتون وزیر اعلیٰ ہیں وہاں خواتین کی یہ حالت ہے۔ ممتا بنرجی اپنی فلاحی اسکیموں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں اس کے باوجود سچر کمیٹی، رنگا ناتھ مشرا کمیشن، پروفیسر امیتابھ کندو اور پراتیچی کی سفارشات کی روشنی میں مسلمانوں بالخصوص مسلم خواتین کی سماجی، معاشی اور فلاحی ترقی کے لیے کوئی ایکشن پلان نہ تیار کیا گیا اور نہ ہی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، جبکہ ریاست کے مسلمانوں کی وجہ سے ہی ممتا بنرجی تیسری مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔

چند مہینے قبل ریاست کے مسلم اکثریتی ضلع مرشدآباد کے ساگر دیگھی میں ضمنی انتخاب میں ترنمول کانگریس کے امیدوار کی شکست کے بعد ممتا بنرجی کچھ متحرک ہوئیں اور اقلیتی ترقی کی جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، اس کے علاوہ بیرون ریاست میں مقیم مزدوروں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھی کمیٹی کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ ریاست سے باہر کام کرنے والوں میں اکثریت مسلم مزدوروں کی ہے، مگر چھ مہینے سے زائد کا عرصہ گزر گیا اب تک کمیٹی وجود میں نہیں آسکی ہے۔ اسی طرح ممتا بنرجی نے وزارت اقلیتی امور کا چارج خو د ہی سنبھال لیا ہے۔ 2021ء میں تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد ممتا بنرجی نے وزارت اقلیتی امور کی ذمہ داری ایک مسلم وزیر کو دی تھی۔ اس سے قبل دس سالوں تک یہ وزات ممتا بنرجی نے خود اپنے پاس رکھی تھی۔ ساگر دیگھی ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد ممتا بنرجی نے مسلم وزیر سے اقلیتی امور وزارت کا چارج لے کر ایک بار پھر اس محکمہ کا چارج سنبھال لیا ہے۔ اس تبادلہ سے وزارت کے کام کاج میں کوئی فرق پڑتا ابھی تک تو نظر نہیں آیا ہے بلکہ الٹا عالیہ یونیورسٹی کی شکل میں اقلیتوں کا تعلیمی بحران گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔ مغربی بنگال اقلیتی کمیشن، جس کی ذمہ داری مسلمانوں کی تعلیمی، اقتصادی اور سماجی صورت حال پر سالانہ رپورٹ پیش کرنا ہے گزشتہ دس سالوں سے عضو معطل ہوکر رہ گیا ہے۔

پنچایت انتخابات میں ممتا بنرجی کی پارٹی نے شاندار جیت حاصل کی ہے مگر مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طریقے سے حکمراں جماعت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے پارٹی کو فکر مند بنا دیا ہے۔پچھلے دنوں بنگال اسمبلی کے مانسون سیشن میں ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی ہمایوں کبیر جنہوں نے 2021ء میں پولیس کمشنر کے عہدہ سے استعفیٰ دے کر ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، 2016ء میں پراتیچی انسیٹیوٹ اور گلڈ کی مشترکہ رپورٹ “Living Reality of Muslims in West Bengal” کے حوالے سے کہا کہ ریاست میں مسلم خواتین کی معاشی اور سماجی صورت حال انتہائی خراب ہے، اس لیے لکشمی بھنڈار اسکیم کے تحت قبائلی اور دلت خواتین کی طرح مسلم خواتین کو بھی ایک ہزار روپے دیے جائیں۔ 2021ء میں ترنمول کانگریس کے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد ممتا بنرجی نے ’’لکشمی بھنڈار‘‘ کے نام سے ایک اسکیم کی شروعات کی ہے۔ اس اسکیم کے تحت عام طبقات کی خواتین کو پانچ سو روپے اور دلت اور قبائلی خواتین کو ایک ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔


سابق وزیر ہمایوں کبیر اپنے دفتر میں (فائل فوٹو)

یہ سوال الگ ہے کہ کیا ہر مہینے مسلم خواتین کو محض ایک ہزار روپے مل جانے سے ان کی پسماندگی ختم ہوجائے گی؟ مگر ترنمول کانگریس کے وزرا اور ممبران اسمبلی نے اپنے ہی پارٹی کے ایک ممبر کے ایک بیان پر جو رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ حیران کن ہے۔ سابق آئی پی ایس آفیسر اور ممبر اسمبلی ہمایوں کبیر نے جیسے ہی مسلم خواتین کی پسماندگی کا ذکر کرنا شروع کیا اسمبلی میں موجود ان کے دیگر ساتھی شور و غل کرنے لگے۔ مگر ہنگامہ آرائی کے باوجود انہوں نے اپنی بات پوری کی اور کہا کہ اگر پسماندگی کی بنیاد پر دلت اور قبائلی خواتین کو ہر مہینے ایک ہزار روپے دیے جاسکتے ہیں تو مسلم خواتین ان سے زیادہ پسماندگی کا شکار ہیں انہیں کیوں کچھ نہیں دیا جاتا؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں اختتام پذیر پنچایت انتخابات کے دوران کئی مسلم خواتین نے اس کی شکایت کی ہے۔ اسمبلی کا پہلا سیشن ختم ہونے کے بعد ہمایوں کبیر کو ترنمول کانگریس کے وزرا اور چیف وہپ اور ڈپٹی چیف وہپ نے گھیر لیا اور کہا کہ تعلیم یافتہ شخص ہونے کے باوجود انہوں نے پارٹی کی پالیسی کے خلاف اسمبلی میںتقریر کیوں کی ہے؟ اگرچہ اسمبلی میں ریاستی وزیر ششی پانجا نے وہی پرانی دلیل دہرائی کہ یہ اسکیم مذہبی بنیاد پر نہیں دی جا رہی ہے تاہم، پارٹی نے انہیں سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اجازت کے بغیر اسمبلی اور باہر کوئی بیانات نہیں دے سکتے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ریاست کی مسلم خواتین کی پسماندگی کے سوال پر ترنمول کانگریس اس قدر پریشان کیوں ہے، جبکہ گزشتہ دس سالوں میں ممتا بنرجی کی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنے میں لگی رہی؟ حکومت جانتی ہے کہ ان دس سالوں میں اقلیتوں کی ترقی کے لیے اس نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں، اس لیے جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے حکومت پریشان ہو جاتی ہے۔ مختلف رپورٹوں کا جائزہ لینے کے بعد ریسرچ اسکالر قمر الزماں ملا نے STATUS OF MUSLIM WOMEN IN WEST BENGAL کے عنوان سے اپنے مقالہ میں بتایا ہے کہ مغربی بنگال میں تعلیم کی شرح 77.08 فیصد ہے، قومی اوسط شرح 74 فیصد ہے مگر مغربی بنگال میں مسلمانوں میں تعلیم کی شرح محض 57.18 فیصد ہے جبکہ شیڈول ٹرائب میں 57.92 فیصد ہے، یعنی مسلمانوں میں تعلیم کی شرح قبائلیوں سے بھی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم خواتین میں تعلیم کی شرح خوف ناک حد تک کم ہے یعنی 49.57 فیصد ہے۔ پروفیسر گھوش کی تحقیق کے مطابق دیہی علاقے میں آباد مسلم خواتین کی صورت حال مزید خراب ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں، بالخصوص خواتین میں تعلیم کی شرح انتہائی کم کیوں ہے؟ اس کا جواب پراتیچی کی رپورٹ میں واضح طور پر دیا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں سرکاری اسکولس اور تعلیمی ادارے انتہائی کم ہیں۔ مغربی بنگال مقداری اور معیاری تعلیم کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کی معاشی حالت بہت خراب ہے اور وہ تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں مایوسی کا رویہ اور مسلم مرکز علاقوں میں تعلیم کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سہولتوں تک رسائی کا فقدان دو عوامل ہیں جو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہیں دور دراز کے اسکولوں تک رسائی نہیں ہے۔ ملازمت پر مبنی تعلیم فراہم کرنے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں مرد اور خواتین کے لیے الگ الگ ٹیکنیکل اسکولس کی مناسب تعداد قائم کرنے کا تعلق تعلیمی پسماندگی سے ہے۔ ورک فورسیس کے اعتبار سے بھی مسلم خواتین کی حالت نازک ہے۔

ساٹھ فیصد مسلم خواتین گھریلو ہیں بقیہ تیس فیصد خواتین غیر منظم سیکٹر زرعی، جوٹ مل اور گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔ مسلم خواتین کی ایک قابل ذکر تعداد دستکاری کے کام میں بھی مہارت رکھتی ہے جیسے سوئی کا کام، زردوزی کا کام، کڑھائی، سلائی اور کاغذی دستکاری وغیرہ۔ دیہی اور مضافاتی علاقوں کی مسلمان خواتین روزانہ صبح کام کی تلاش میں بڑی تعداد میں لوکل ٹرینوں کے ذریعے کولکاتا اور دوسرے شہروں کو جاتی ہیں۔ بنگال کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے پاس زمینیں ہندوؤں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی بنگال میں مسلم خواتین کی کام میں شرکت کی شرح دیگر طبقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بنگال میں ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والوں کے کام میں شرکت کی شرح بالترتیب 19.2،29.2 فیصد اور 28.8 فیصد ہے، جبکہ مسلم خواتین کی کام میں شرکت کی شرح صرف چودہ فیصد ہے۔ ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ اچانک ہمایوں کبیر نے اس معاملے کو کیوں اٹھایا ہے حالانکہ انہوں نے پولس آفیسر کے طور پر ریاست میں طویل خدمات انجام دی ہیں؟ 2020ء میں چند نگر پولیس کمشنر رہ چکے ہیں، ان کے اس عہدہ پر رہنے کے باوجود تیلنی پاڑہ میں فرقہ واران فسادات میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مکانات جلائے گئے۔ راقم الحروف نے خود ان سے سوال کیا تھا کہ اگر پولیس اسٹیشن کے سامنے واقع مسلمانوں کے گھروں کو جلایا جاتا ہے تو کیا اس کو پولیس کی نااہلی نہیں کہی جائے گی؟ اس سوال پر وہ برہم ہوگئے تھے اور کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اسی طرح 2016ء میں وہ بارک پور پولیس کمشنریٹ کے ڈپٹی پولیس کمشنر تھے۔ حاجی نگر، حالی شہر میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مکانات جلائے گئے تھے مگر وہ بے بس نظر آئے۔ اس لیے تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ ہمایوں کبیر کا یہ بیان ان کی وقتی ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ان سے وزارت چھین لی گئی ہے اس لیے وہ مسلم مسائل پر بول کر حکومت پر دباؤ بنانا چاپتے ہیں، اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین