کلکتہ شہر کا سوسالہ قدیم ادارہ انجمن مفیدالاسلام جسے لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے مقصد کے تحت قائم کیا گیا تھا کی 2020کی سالانہ رپورٹ جو سامنے آئی ہے اس میں آڈیٹر نے حساب و کتاب میں کئی خامیوں کو اجاگر کیا ہے ۔آڈیٹرنے جن نکات کی نشاندہی کی ہے اس کو خامی قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کا بدعنوانی میں شمار کیا جانا چاہیے۔مگر افسوس نا ک صورت حال یہ ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے ذمہ داران کے خلا ف کوئی بھی بولنے کی جرات نہیں کرتا ہے ۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ
(1)چندہ کی تفصیلات کو صحیح طریقے سے نہیں لکھا گیا ہے ۔رسید نمبر 408اب تک واپس نہیں کیا گیا ہے ۔
(2) ’’علی انٹر پرائز ‘‘ کو انجمن مفید الاسلام کی عمارتوں کی مرمت کےلئے اکائونٹ سے 20لاکھ روپے مئی2019کو دئیے گئے تھے مگر رپور ٹ لکھے جانے یعنی 27نومبر 2020تک ایک بھی بل جمع نہیں کیا گیا ہے ۔آڈیٹر لکھتے ہیں کہ 20لاکھ کی رقم جو جاری کیا گیا اس میں کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں کاٹا گیا ۔
آگے لکھا گیا ہے 20لاکھ کی رقم جاری ہونے سے قبل 4,69,703لاکھ روپے اسی فنڈ میں جاری کئے گئے تھے اس کےلئے تین بل جمع کئے گئے ہیں ۔
(4) آڈیٹر آگے لکھتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ سالوں میں بھی یہ توجہ دلائی ہے کہ کسی بھی بل کی ادائیگی میں ’’ٹی ڈی ایس ‘‘ کو وضع کیا جائے مگر ہماری توجہ دلانے کے بعد باوجود محمد سرفراز، قابل شیخ اور علی انٹرپرائز کو بل کی رقم کی ادائیگی کے وقت ٹی ڈی ایس کی کٹوتی نہیں کی گئی ہے ۔
(4) آڈیٹر لکھتے ہیں کہ 10ہزار سے زاید کی رقم نقد میں ادائیگی نہیں ہونی چاہیے ۔مگر اس کے باوجود متعدد مرتبہ 10ہزار سے زاید کی رقمیں نقدادائیگی کی گئی ہے ۔اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 18,375روپے تروپ کو اور11,980,لائورینس اینڈ کمپنی کو نقدمیں دئیے گئے ہیں ۔جب کہ دس ہزار سے زاید کی رقم نقد میں دینا خلاف قانون ہیں ۔
5)) چار سال سے زایدسالوں سے اسٹاف کو قرض دینے کے نام پر 8لاکھ روپے دئے گئے ہیں۔اب تک اس کی واپسی نہیں ہوئی ہے۔
مذکورہ بالا پانچ نکات کو پڑھنے سے انداز ہوتا ہے کہ انجمن مفیدالاسلام کی موجودہ انتظامیہ کس لاپرواہی اور بدانتظامی کے ساتھ چلارہی ہے ۔ایک سال گزرجانے کے باوجود رسید واپس نہیں لیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ رسیدکس کے نام سے جاری ہوا ہے اور جب رسید واپس نہیں آئی تو اس کو واپس لانے کےلئے انتظامیہ نے کیا کیا؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ علی انٹرپرائز جسے 20لاکھ کی خطیررقم یک مشت اور اس سے قبل 4لاکھ کی رقم دی گئی ۔ایک سال گزرجانے کے باوجود علی انٹرپرائز نے اگر رسید نہیں دی تو اس کے خلا ف کیا کارروائی کی گئی۔اس معاملے میں سالانہ رپورٹ میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے ۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ علی انٹرپرائز کو کس بنیادپر یہ ٹھیکہ دیا گیا ہے۔کیا اس کے ٹینڈر جاری ہوئے تھے اور علی انٹرپرائز حکومت کے وضع کردہ اصولوں پر عمل کیا ہے یا نہیں ۔
ٹی ڈی ایس کاٹنے میں لاپرواہی کیوں برتی جارہی ہے اور بالخصوص مخصوص کمپنیوں کے ساتھ یہ رعایت کی گئی ہے ۔جب دس ہزار سے زاید رقم کا بل نقد میں نہیں دے سکتے ہیں تو پھر کس کے اشارے پر دس ہزار سے زاید کی رقم نقد میں دیا گیا ۔
یہ وہ سوالات ہیں جو انجمن کے سالانہ میٹنگ میں ممبران کے ذریعہ اٹھانے چاہیے ۔مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ سالانہ میٹنگ نششتن ،خوردن اور برخواستن کی مصداق بن گئی ہے۔
اس معاملے میں انجمن کے ذمہ داران کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی مگر کوئی بھی جواب دینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔انجمن کے قدیم ممبر نے بتایا کہ اب انجمن میں جمہوریت کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ایک خاص گروپ کا اس قدر غلبہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں اپنی رائے پیش کرنا دشمنی مول لینے کے مترادف ہے اس لئے اب پرانے ممبران خاموشی ہی اختیار کرلیتے ہیں ۔