Saturday, July 27, 2024
homeخصوصی کالمکورونا کی بیماری ایک سیریس مسئلہ ہے

کورونا کی بیماری ایک سیریس مسئلہ ہے

سید سعادت اللہ حسینی
(امیر جماعتِ اسلامی ہند)

ہم میں سے کسی نے اپنی زندگی میں اچانک اموات کا ایسا پیہم سلسلہ کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔کتنے گھر اجڑ گئے اور کتنے خاندانوں کی معیشت پوری طرح تباہ ہوکر رہ گئی۔۔۔اور کتنے لوگ زندگی بھر کے لئے طرح طرح کے عوارض میں گر فتار ہوگئے۔ایسے حساس مسئلے میں بے بنیاد باتیں، اٹکل کی بنیاد پر دعوے، شبہات اور کنفیوژن پیدا کرنا نہایت قابل مذمت رویہ ہے۔۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ماسک کی پابندی کے ذریعہ بھی کافی کچھ کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔۔لیکن لوگ یہ چھوٹی سی پابندی بھی نہیں کررہے ہیں۔۔اس کا ایک بڑا سبب، وہاٹس اپ پر پھیلنے والی بے بنیاد افواہیں ،اٹکلیں اور بیماری اور احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں پیدا کیے جارہے شکوک ہی ہیں۔۔۔۔
یہ ایک پیچیدہ سائنسی مسئلہ ہے اور متعلق سائنسوں میں گہری بصیرت کے بغیر اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ ایسے معاملات میں ماہرین کی آراء ہی پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔ یہ کہنا کہ دنیا کے سارے ڈاکٹرز اور سارے حیاتیاتی سائنسدان سازشی قوتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور اُن کی پڑھائی ہوئی پٹی پڑھ رہے ہیں، نہایت غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔
کرونا کو ایک بڑی عالمی مصیبت بتانے والے اور احتیاطی تدابیر کا مشورہ دینے والے سب کے سب اسلام مخالف یا عالمی استعمارکے حامی عناصر نہیں ہیں۔۔۔ہمارے ملک میں تمام ہی طبقات کے ماہرین اس بیماری کو لے کر حساس ہیں۔ عالم اسلام میں فقہ اور اسلامی شریعت کے جتنے معتبر ادارے ہیں، ان سب نے ایڈوائزریز اور فتوے جاری کیے ہیں۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ، یوکے اسلامی مشن، یورپین کونسل آف فتوی اینڈ ریسرچ، ورلڈ یونین آف اسلامک اسکالرز، دارالعلوم دیوبند، شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند۔۔۔آپ دیکھیں گے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی معتبر عالم دین یا تحریکی رہنما ایسا بچا ہوا ہے جس کی نمائندگی اس طرح کے فتووں میں نہ ہوئی ہو۔ ان میں سے کئی اداروں کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں رائے دینے سے پہلے ماہرانہ مشاورت اور تمام پہلووں پر گہرے غور و فکر اور تفصیلی تبادلہ خیال کا نہایت مستحکم نظام موجود ہے۔ الاتحاد العالمی للعلماء المسلمین، تحریکی علماء کی ایک عالمی تنظیم ہے۔ علامہ قرضاوی کی قائم کردہ اس تنظیم کے ارکان کی بڑی تعداد اپنی حق گوئی و جراءت کی وجہ سے طرح طرح کی شدید آزمائشوں سے گذررہی ہے۔انہوں نے کورونا پر، احتیاطی تدابیر پر، ویکیسین پر، ان سب پر موقف اختیار کیا ہے۔ان کے موقف ان کی سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ فتویٰ ضرور دیکھنا چاہیے۔
https://www.iumsonline.org/ar/ContentDetails.aspx?ID=12889
عالم اسلام میں کئی جگہ ڈاکٹروں کی تنظیمیں ہیں۔ یہ اسلامی تحریکوں کی تںطیمین ہیں۔ ان سے وابستہ لوگ اپنے اپنے میدانوں کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک کے سنجیدہ ،باشعور اور دین اور اسلام دشمنوں کی سازشوں سے باخبر اور حساس لوگ ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیموں کے لوگوں نے باطل سے ہمت و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے غیر معولی قربانیاں بھی دی ہیں۔ پھر خاص طور پرمغربی ملکوں میں جو لوگ اس سے وابستہ ہیں ان میں سے بعض، میڈیکل سائنس کی مختلف شاخوں میں عالمی سطح کے استناد کے حامل ہیں۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کونسی سائنسی تحقیقات قابل اعتماد ہیں کونسی نہیں ہیں۔ خود وہ مریضوں کو دیکھ رہے ہین۔ ان کے ایکسرے اور اسکین ، ان کے خون کی رپورٹیں، ان کے جسم پر وائرس کے ذریعہ پڑنے والے اثرات، ویکسین کے اثرات ، مرنے والوں کی اموات کے اسباب، یہ سب ان کے مشاہدے و مطالعے میں ہے۔کیا ان سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سازشی قوتوں کا آلہ کار بن کر انسانوں کی جان و مال کے زیاں کا سبب بنیں گے؟ میں یہاں بطور نمونہ چند تنظیموں کے ویب پیجیز اور سوشل میڈیا پیجیز کے لنکس دے رہاہوں۔ ان لنکس پر جاکر ان کے بیانات اور تحقیقی مقالے دیکھ لییجئے۔ ان سب نے اسے ایک عظیم عالمی بحران قرار دیا ہے۔ یہ سب، احتیاطی تدبیروں بلکہ ویکسین کے لئے بھی پوری قوت سے تحریکیں چلارہے ہیں۔
۱۔ پاکستان اسلامک میڈیکل اسوسی ایشن (پڑوسی ملک میں تحریک کی قائم کردہ ڈاکٹروں کی تنظیم)[ یہ حوالہ ہم اس لئے دے رہے ہیں کہ سب سے زیادہ سازشی نطریات اسی ملک میں مقبول ہیں۔۔لیکن وہاں کے بھی ماہرین کی۔۔۔۔دین دار ماہرین کی کیا رائے ہے؟ یہ اس سے معلوم ہوتا ہے]
https://www.facebook.com/PIMAofficial

Home Front


۲۔ نارتھ امریکہ میں تحریکی اور دین پسند ڈاکٹروں کی تنظیم

National Muslim Taskforce Statements


https://www.facebook.com/imanacares/
۳۔برطانیہ میں تحریکی اور دین پسند ڈاکٹروں کی تنظیم
https://britishima.org/
https://www.facebook.com/BritishIMA
مرحوم نجم الدین اربکان نے دنیا بھر کے دین پسند ڈاکٹروں اور ان کی تنظیموں کا ایک وفاق تشکیل دیا تھا۔ جو ورلڈ اسلامک ہیلتھ یونین کے نام سے کام کرتا ہے۔ اس میں دنیا بھر سے تقریبا ۴۰ ملکوں کی اسلامی میڈیکل تنظیمیں شامل ہیں۔
ویب سائٹ: http://www.wihu.org.tr/en/homepage
چند ماہ پہلے اس نے ایک عالمی کانفرنس آن لائن اسی وبا کے سلسلے میں منعقد کی تھی۔اس کانفرنس میں ۹۰ مسلمان ملکوں سے اسلام پسند ڈاکٹرز، حیاتیاتی سائنسدان وغیرہ شریک رہے۔ اس کے اختتام پر جو قراردادیں منظور ہوئی ہیں وہ دستیاب ہیں۔۔۔صدارتی بیان میں واضح کیا گیا کہ ویکسین کے ذریعہ کسی سازش کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ وبا کسی حیاتیاتی ہتھیار کا نتیجہ ہے، اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔۔۔بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ الٹا انہوں نے بڑی طاقتوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ شکوک و شبہات اور افواہوں کو پھیلنے کی چھوٹ دے کر انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔
http://www.wihu.org.tr/en/
https://www.facebook.com/WorldIslamicHealthUnion/posts/2077824082353283
ایک طرف یہ ماہرانہ آراء ہیں، روزانہ ہونے والی اموات کی، اور سیریس بیماریوں کی ٹھوس حقیقتیں ہیں اور دوسری طرف محض اٹکلیں اور بے بنیاد اور سطحی بنیادوں پر شکوک و شبہات کی فہرست ہے۔۔بے شک سازشی قوتیں ہر اہم واقعہ کی طرح اس واقعہ کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور بے شک حکومت کا رویہ نہایت غیر ذمے دارانہ، توہم پرستانہ اور سیاسی مفادات اور عصبیتوں سے بری طرح متاثر ہے۔ ان رویوں پر ضرور تنقید ہونی چاہیے لیکن ان کو بنیاد بناکر بیماری کی اہمیت ہی کو کم کرنا اور احتیاطی تدابیر کی حوصلہ شکنی کرنا نہایت مہلک رویہ ہے ۔دوسروں کی بے حس مفاد پرستی یا توہم پرستم جہالت ہماری لاپروائی کے لئے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ ایسے رویوں سے بیماری کے پھیلاو میں مدد ہوتی ہے۔۔یہ بیماری لوگوں کی احتیاط اور اس کے نتیجہ میں وائرس کے پھیلاو کی زنجیرchain توڑنے سے ہی رک سکتی ہے۔۔۔جان کی حفاظت اور مال کی حفاظت کو شریعت کے مقاصد میں شامل کرنے والے دین کے علم برداروں کی کیا یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اس زنجیر کو توڑنے میں مدد کریں تاکہ انسانیت اس موذی مرض اور اس پیچیدہ چیلنج سے باہر آسکے۔ لوگ چین کی سانس لے سکیں۔۔۔بے شمار اموات بچائی سکیں اور معیشت کی گاڑی کو چلاکر کروڑوں اربوں لوگوں کو بھک مری اور معاشی بدحالی کی دوزخ سے نجات دلاسکیں؟ خوف نہ پھیلانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو حقیقت سے بے خبر رکھیں۔۔۔حقائق اور چیلنجوں کا درست شعور اور حوصلے و بے خوفی کے ساتھ اس کا مقابلہ یہ مومنانہ شیوہ ہے۔ کہیں کسی انسان کی یا انسانوں کی جان بچانے کی ضرورت ہو تو ہم بے شک اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انسانوں کو بچائیں۔۔کسی اصول کی خاطر، دین و ایمان کی خاطر، کسی بڑے مقصد کی خاطر، جان سمیت بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہر دم تیار رہیں۔۔۔یہ شجاعت ہے۔۔لیکن کسی مقصد کے بغیر، محض لاپروائی سے، علم و شعور کی کمی سے، بے بنیاد وہاٹس اپیات کا اثر قبول کرکے، یا دغا باز عطائیوں کے نامعقول دعووں سے متاثر ہوکر اپنی اور دوسروں کی جانوں کے لئے خطرہ پیدا کرنا شجاعت نہیں حماقت ہے۔۔۔ان حماقتوں سے بچانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔۔
جس طرح بعض حلقوں کی جانب سے نہایت غیر ذمے دارانہ باتیں اور سازشی نظریات پھیلائے جارہے ہیں اور عجیب و غریب سوالات کھڑے کرکے لوگوں میں کنفیوژن پیدا کیا جارہا ہے وہ بہت نقصان دہ رویہ ہے۔۔۔گزشتہ تین چار سو برسوں میں ایسے ہی رویوں سے ہم نے امت کے اندر سائنس، ٹکنالوجی اور علم و تحقیق کے تئیں بے اعتنائی اور گریز کی کیفیات پروان چڑھائیں۔ یہ ہماری پسماندگی اور زوال کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ جب چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو اسے فرنگی سازش قرار دیا گیا۔ ریل گاڑی آئی تو اسے دجال کا گدھا کہا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی باتوں نے ہمیں صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔۔۔ بے شک ویکسین اور بیماری کے مینیجمنٹ میں نقائص بھی ہیں۔مفادات حاصلہ بھی کارفرما ہیں۔۔ان پر سوالات کھڑے کرنے کی ضرورت بھی ہے اور گنجائش بھی۔ لیکن متعلقہ علوم و فنون کے اصولوں اور کلیات کی بنیاد پر سنجیدہ علمی و تحقیقی سوالات اور تنقیدیں ہونی چاہیے۔۔۔جذباتی ، سیاسی یا مضحکہ خیز حد تک سادہ لوح لاعلمی یا بچکانہ الجھنوں کی بنیاد پر نہیں ۔ اور زیادہ اہم بات یہ کہ ان استحصالی قوتوں سے مقابلے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عام لوگ غلط فہمیوں کے اور اس کے نتیجے میں طرح طرح کی جانی و مالی مصیبتوں کے شکار ہوجائیں۔۔۔کسی بھی مسئلے پر رائے قائم کرنے سے پہلے متعلقہ اہل علم سے مسئلے کو گہرائی سے مسجھنے کا اصول، بدقسمتی سے ہمارے اکابرین و قائدین سے لے کر قلم کاروں اور عوام تک، ہر سطح پر بری طرح نظر انداز ہے۔۔۔۔۔
بے شک سازشیں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن سازشوں کو سمجھنے کے لئے بھی علم و فراست درکار ہے۔۔متعلقہ علوم و فنون میں مہارت درکار ہے یا ان علوم و فنون کے معتبر ماہرین کو پہچاننے اور ان سے استفادہ کرنے کی صلاحیت درکار ہے۔ ہر کس و ناکس کی اٹکل اوروجدان کی بنیاد پر ایسے اہم اور حساس معاملات میں سازش کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ سازشی نظریات اور سازشوں کو پہچاننے کے جدید تحقیقی اصولوں اور قرآنی رہنمائی پر میں زندگی نو میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ یہ مضامین میری کتاب مسلم امت: راستہ اور منزل میں شامل ہیں۔۔۔۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین