افروز عالم ساحل
آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کا معاملہ ایک بار پھر سے خبروں میں ہے۔ گزشتہ دنوں گوہاٹی میں ایک پروگرام میں اپنے خطاب میں وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے این آر سی پر نظرثانی اور اس کے نئے سرے سے تشکیل کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور جلد ہی اس پر کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
گزشتہ 27 مارچ 2022 کو ہمانتا بسوا سرما نے کہا کہ ریاست میں این آر سی کی فہرست کو نئے سرے سے اپڈیٹ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے کی گئی کارروائی کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اس کی خامیوں کو دور کیا جا سکے۔ اس سے قبل آسام کے وزیر زراعت اتل بورا نے بھی این آر سی کا مسئلہ اٹھایا تھا اور اس کی دوبارہ تصدیق کے لیے سپریم کورٹ جانے کی بات کہی تھی۔ تب انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ ہم این آر سی کی اس فہرست کو قبول نہیں کریں گے، جو اگست 2019 میں شائع ہوئی تھی۔
دراصل، ہمانتا بسوا سرما نے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں بعد کہا تھا کہ ان کی حکومت سرحدی اضلاع میں 20 فیصد اور باقی اضلاع میں 10 فیصد ناموں کی دوبارہ تصدیق کرنا چاہتی ہے۔ ریاست کے این آر سی کوآرڈینیٹر ہتیش دیو سرما نے حتمی فہرست میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی بھی داخل کی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل سپریم کورٹ مرکز اور آسام حکومت کی دوبارہ تصدیق کی اجازت دینے کی اپیلوں کو خارج کر چکی ہے۔
بتا دیں کہ مئی 2021 میں ہتیش سرما نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ این آر سی کو اپڈیٹ کرنے کے عمل میں کئی سنگین، بنیادی اور اہم غلطیاں سامنے آئی ہیں، اس لیے دوبارہ تصدیق کی ضرورت ہے۔ تصدیق کا کام متعلقہ اضلاع میں مانیٹرنگ کمیٹی کی نگرانی میں کیا جانا چاہیے اور ایسی کمیٹیوں میں ترجیحاً ڈسٹرکٹ جج، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جیسے لوگ شامل ہونے چاہئیں۔ ہتیش سرما نے اپنی اس درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ فہرست میں بہت سے نااہل افراد کو شامل کر لیا گیا ہے، جنہیں باہرکیا جانا چاہیے۔ اس سے قبل 2020 میں بھی سرما نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی این آر سی کی فہرست حتمی نہیں ہے اور اس کی دوبارہ تصدیق کی ضرورت ہے۔ آسام حکومت نے بھی اسے ’فائنل این آر سی‘ نہیں مانا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
آسام میں دوبارہ این آر سی کے لئے بنایا جارہا ہے ماحول
ادھر آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے لیڈروں کے بیان بھی اب آنے لگے ہیں۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے مشیر سموجل بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ اس این آر سی کی حتمی فہرست میں بہت سے غیر قانونی بنگلہ دیشی لوگوں کے نام شامل ہیں اور ہم ایک غیر قانونی بنگلہ دیشی مکت این آر سی چاہتے ہیں۔ صرف این آر سی فہرست کی دوبارہ تصدیق ہی اس مسئلہ کو حل کر سکتی ہے۔
انتر راشٹریہ ہندو پریشد کے صدر پروین توگڑیا نے بھی گزشتہ 5 اپریل 2022 کو گوہاٹی میں این آر سی کے تعلق سے پریس کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ این آر سی کو نئے سرے سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا اور 50 لاکھ غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کو ملک بدر نہیں کیا گیا تو آسام کی صورتحال 32 سال پہلے کی کشمیر جیسی ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا ’’20 سال کے بعد، آسام میں ایسی ہی صورتحال ہو رہی ہے جیسے کشمیر میں 32 سال پہلے تھی اور پھر کسی کو ’دی آسام فائلز‘ کے نام سے فلم بنانا پڑے گی۔ لیکن ہم آسام کو کشمیر بننے نہیں دیں گے، اگر آسام کو غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے چنگل سے بچانے کے لیے ضرورت پڑی تو ہم آسام میں زبردست تحریک شروع کریں گے۔‘‘
آسام میں ان بیان بازیوں کے بعد سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں کہ بی جے پی 2024 لوک سبھا الیکشن سے قبل آسام کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر این آر سی کی بات چھیڑ سکتی ہے۔ حالانکہ لوک سبھا میں گزشتہ 15 مارچ 2022 کو ایک سوال کے جواب میں داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا نند رائے کہہ چکے ہیں کہ حکومت نے ابھی تک قومی سطح پر ہندوستانی شہریوں کے قومی رجسٹر یعنی این آر سی کو تیار کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
این آر سی سے اخراج کی پرچیاں ہنوز جاری نہیں کی گئیں
این آر سی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے فارن ٹریبیونل میں سنوائی کے بعد جنہیں مسترد کردیا گیا ہے انہیں اس کی پرچی جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ این آر سی کے ریاستی کوآرڈینیٹر نے 2 جولائی، 2019 کو منعقدہ ایک میٹنگ میں بتایا تھا کہ دسمبر 2020 کے آخر تک این آر سی سے خارج شدہ افراد کو اخراج کی پرچی جاری کر دی جائے گی، لیکن یہ پرچی ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہے۔ جب اس سلسلے میں لوک سبھا میں رکن پارلیمنٹ عبدالخالق نے 27 جولائی 2021 کو سوال کیا کہ ’31 اگست 2019 کو این آر سی کی حتمی فہرست کا اعلان ہونے کے باوجود اخراج کی پرچی جاری کرنے میں تاخیر کی وجہ کیا ہے؟ تب وزیر نتیا نند رائے نے کہا تھا کہ کوویڈ کے پھیلنے اور سیلاب کی صورت حال کی وجہ سے استرداد کی پرچی جاری کرنے کا عمل ملتوی کر دیا گیا ہے۔ بتادیں کہ اس پرچی کی بنیاد پر ہی این آر سی سے خارج شدہ افراد اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے فارن ٹریبونل میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
آسام کے شہریوں کی حتمی این آر سی فہرست 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی، جس میں قریب 3 کروڑ 11 لاکھ سے زائد لوگوں کو شامل کیا گیا تھا، ان میں 19 لاکھ 6 ہزار 657 لوگوں کو اس فہرست سے باہر رکھا گیا، یعنی انہیں اس شہریت رجسٹر کے لیے اہل نہیں مانا گیا تھا۔ اس سے قبل بی جے پی نے جولائی 2018 میں جاری ہونے والے این آر سی کے جزوی مسودے کا خیر مقدم کیا تھا، جس میں 40.7 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو باہر رکھا گیا تھا۔ تاہم، پارٹی نے ایک سال بعد شائع ہونے والے مکمل مسودے کی مخالفت کی، کیونکہ اس فہرست سے مبینہ طور پر مسلمانوں سے زیادہ ہندو باہر تھے۔ آسام میں ان معاملات سے واقفیت رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ حکومت دوبارہ این آر سی پر نظر ثانی اور اس کے نئے سرے سے تشکیل کی بات اس لیے کر رہی ہے، کیونکہ فہرست سے باہر ہونے والے 19 لاکھ لوگوں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے۔
غور طلب ہے کہ دو سال سے زائد وقت گزر جانے کے بعد بھی نہ ہندوستان کے رجسٹرار جنرل نے ابھی تک آسام میں این آر سی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے معاملے میں کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اور نہ آسام کی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا مستقبل ابھی تک موہوم ہے۔ حالانکہ گزشتہ سال ماہ ستمبر میں آسام کے ایک ٹریبونل نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ 31 اگست 2019 کو شائع ہونے والی این آر سی کی فہرست حتمی ہے۔ لیکن نیشنل رجسٹرار جنرل آف پاپولیشن نے ابھی تک اس کی اطلاع نہیں دی ہے۔ بتادیں کہ جن 19 لاکھ لوگوں کو این آر سی کی فہرست سے باہر رکھا گیا تھا، انہیں ابھی تک بے دخلی کے حکم کی کاپی نہیں ملی ہے۔ نتیجتاً وہ اس فیصلے کو فارن ٹریبونل میں چیلنج نہیں کر سکتے۔
آسام میں این آر سی پر کتنا ہوا خرچ؟
آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی)، 1951 کو اپڈیٹ کرنے کی اسکیم کے تحت، آسام کی حکومت کو مرکزی حکومت کی جانب سے 1602.52 کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ یہ جانکاری داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا نند رائے نے یکم دسمبر 2021 کو راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں دی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال 4 مارچ 2021 کو آسام حکومت نے رجسٹرار جنرل آف انڈیا کو ایک خط لکھ کر 31 مارچ 2021 کے بعد این آر سی کے زیر التواء کاموں کو مکمل کرنے کے لیے پہلے سے پورے پروجیکٹ کے لیے مختص کی گئی 1602.66 کروڑ روپے کے علاوہ ہر ماہ اضافی 3.22 کروڑ روپے جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے جواب میں آر جی آئی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جسپال سنگھ نے 23 مارچ 2021 کو آسام حکومت کے سکریٹری (داخلہ اور سیاسی امور) ایس آر بھویان کو صاف طور پر لکھا ہے کہ ’این آر سی سے متعلق تمام سرگرمیاں 31 مارچ 2021 تک مکمل کر لی جائیں۔ مقررہ بجٹ میں ہی اور اسکیم کے تحت 31 مارچ 2021 کے بعد اخراجات کے لیے اضافی فنڈ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔‘ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 31 مارچ 2021 کے بعد ہر ماہ 3.22 کروڑ روپے کی مانگ بہت زیادہ لگ رہی ہے۔ اس طرح سے رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے آسام حکومت کی این آر سی کے بقیہ کام کے لیے مالی امداد جاری رکھنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ بتا دیں کہ 31 دسمبر 2019 کو اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی نے اس عمل پر ہونے والے اخراجات کو اس شرط کے ساتھ 1,602.66 کروڑ روپے کر دیا تھا کہ یہ عمل 31 مارچ 2021 تک مکمل ہو جائے اور اب اس رقم میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔
واجپائی حکومت میں بنا تھا ملک گیر این آر سی کا منصوبہ
آپ کو یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ سال 2003 میں ہی پورے ملک میں ہندوستانی شہریوں کا قومی رجسٹر تیار کرانے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ تب مرکز میں این ڈی اے کی حکومت تھی اور اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم تھے۔
ہندوستانی شہریوں کا قومی رجسٹر کے تعلق سے راجیہ سبھا میں 05 مارچ 2003 کو اس وقت کے داخلی امور کے وزیر مملکت آئی ڈی سوامی نے تحریری طور پر بتایا تھا کہ ’حکومت ہندوستانی شہریوں کا ایک قومی رجسٹر تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ فی الحال، حکومت کی طرف سے 13 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مختلف اضلاع کے چند منتخب ذیلی اضلاع میں صرف ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے، جس پر تقریباً 18.00 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ پائلٹ پروجکٹ پر عمل درآمد کے طریقوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ جلد ہی پروجیکٹ شروع کیا جائے گا جس کی 40 تا 50 ہفتوں کے اندر مکمل ہونے کی امید ہے۔‘ کہا جاتا ہے کہ اس وقت حکومت نے اس کی پوری تیاری کرلی تھی، لیکن اٹل بہاری واجپائی دوبارہ اقتدار میں لوٹ کر نہیں آسکے۔
آسام کے لوگ اب دوبارہ کسی این آر سی کے حق میں نہیں!
آسام میں بی جے پی ۳۱ اگست 2019 کے بعد سے ہی این آرسی کی حتمی فہرست میں خامیاں بتاتے ہوئے مخالفت کرتی رہی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے جس ذہنیت کے ساتھ آسام میں این آر سی کی وکالت کی تھی وہ نتیجہ کے اعتبار سے اس سے کچھ مختلف نکلا تھا۔ این آر سی کی اس حتمی فہرست سے وہ تمام ہندو، جین، سکھ اور بدھ مت کے لوگ بھی باہر ہو گئے ہیں، جو ۱۹۷۱ کے بعد ہندوستان آئے ہیں۔
2019 میں اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ نے آسام کا دورہ کیا تھا اور متعدد ماہرین سے این آر سی کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی تھی، تب ہفت روزہ دعوت نے کئی قسطوں میں تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس وقت لوگوں کا صاف طور پر کہنا تھا کہ آسام کے لوگ اب دوبارہ کسی این آر سی کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ جو این آر سی چار سالوں سے کروڑوں روپے خرچ کر کے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تیار کی گئی وہ اچانک غلط کیسے ہو گئی؟ اس این آر سی کے چکر میں انہوں نے اپنا سکھ چین سب لٹا دیا، کئی لوگوں کی جان چلی گئی، ایسے میں اب آسام کسی نئی این آر سی کو برداشت ہرگز نہیں کرے گا۔ ایڈووکیٹ حافظ رشید احمد چودھری کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے بنگلہ دیشی ہونے کا پروپیگنڈا لمبے عرصے سے چلا آرہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ اندر جیت گپتا نے 1997 میں 40 لاکھ غیر بنگلہ دیشی ہونے کی بات کی تھی۔ 2004 میں ایک اور سابق رکن پارلیمنٹ اور وزیر سری پرکاش جیسوال نے انہی باتوں کو دہرایا اور کہا کہ 50 لاکھ بنگلہ دیشی آسام میں ہیں۔ گورنر ایس کے سنہا نے یہ اعداد وشمار 75 لاکھ بتا ڈالے اور کہا کہ ہر روز 6 ہزار بنگلہ دیشی ہندوستان آرہے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ گورنر کے عہدے پر بیٹھا ہوا شخص ایسا کیسے سوچ سکتا ہے؟ کیا اسے بنگلہ دیش کی آبادی کا علم نہیں ہے؟ اگر روزانہ 6 ہزار بنگلہ دیشی ہندوستان آتے تو بنگلہ دیش اب تک خالی ہو چکا ہوتا۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ جو لوگ اس این آرسی کو قبول نہیں کر رہے ہیں، وہ سیاست سے متاثر لوگ ہیں۔ انہیں اسے اب قبول کر لینا چاہیے کہ این آر سی کا عمل سائنٹیفک طریقے سے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ختم ہو چکا ہے۔ ہمیں اسے ہر حال میں قبول کرنا چاہیے۔
اب تک صرف 329 غیر ملکیوں کو واپس بھیجا جا سکا
جب سے آسام میں فارنرس ٹریبونل قائم کی گئی ہے، تب سے اب تک اس کے ذریعے 143466 لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا جا چکا ہے۔ وہیں ہماری حکومت ان میں سے صرف 329 افراد کو ہی ان کے آبائی ممالک کو ڈی پورٹ کر سکی ہے۔
یہ معلومات راجیہ سبھا میں گزشتہ 09 فروری 2022 کو داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا نند رائے نے ایک رکن پارلیمنٹ کے سوال کے جواب میں تحریری طور پر دی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ریاست آسام میں کام کرنے والے فارنرس ٹریبونل کی کل تعداد 100 ہے اور 31 دسمبر 2021 تک زیر التواء مقدمات کی کل تعداد 123829 ہے۔ یہی نہیں، ان فارنرس ٹریبونل نے 31 دسمبر 2021 تک 121598 لوگوں کو ہندوستانی قرار دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہندوستانی ہونے پر ہماری حکومتوں نے سوال اٹھائے تھے اور انہوں نے فارنرس ٹریبونل میں درخواست دے کر اپنے بھارتی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
23 مارچ 2022 کو راجیہ سبھا میں نتیا نند رائے نے تحریری طور پر بتایا کہ 31 دسمبر 2021 تک کے اعداد و شمار کے مطابق، اب تک مجموعی طور پر 4,35,282 کیس آسام کے فارنرس ٹریبونل کے پاس آئے ہیں۔ جن میں سے کل 3,09,048 مقدمات نمٹائے جا چکے ہیں۔
راجیہ سبھا میں دی گئی معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سال 2019-20 ، 2020-21 اور 2021-22 میں ان فارنرس ٹریبونلس کے کام کاج کے لیے وزارت داخلہ کل 69 کروڑ روپئے جاری کر چکی ہے ۔
اس تحریری جواب میں ہر سال نمٹائے گئے مختلف سالوں کے مقدمات کے اعداد و شمار بھی پیش کیے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر آسام میں فارنرس ٹریبونل کے کام کی رفتار کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
سال 2021 میں آسام کے سو فارنرس ٹریبونل کے ذریعہ نمٹائے گئے معاملوں کی تعداد 15865 ہے۔ یعنی ایک فارنرس ٹریبونل نے ایک سال میں صرف 159 معاملے نمٹائے ہیں۔ سال 2020 کی حالت تو اس سے بدتر ہے۔ ان سو فارنرس ٹریبونل کے ذریعہ نمٹائے گئے معاملوں کی تعداد 10311 ہے۔ یعنی ایک فارنرس ٹریبونل نے ایک سال میں صرف 104 معاملے ہی نمٹا سکا ہے۔
فارنرس ٹریبونل کے رکن کی اہلیت کے لیے اندرونی طور پر کیا پیمانہ رکھا گیا ہے، اسے جان کر آپ کو حیرانی ہوگی۔ فارنرس ٹریبونل کے رکن کا تقرر اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس نے اپنی مدت کار میں کتنے لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فارنرس ٹریبونل اراکین کے معاہدے کی تجدید کرنے کے لیے 2017 کے ٹریبونل اراکین کے دو سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اس جائزہ میں جن اراکین نے کم معاملات نمٹائے، لیکن زیادہ درخواست دہندگان کو غیر ملکی قرار دیا، ان کی پرفارمنس کو ’بیسٹ‘ بتاتے ہوئے انہیں برقراررکھا گیا اور جن اراکین نے زیادہ معاملوں کا نمٹایا لیکن کم درخواست دہندگان کو ’غیر ملکی‘ قرار دیا، ان کی پرفارمنس کو خراب بتاتے ہوئے فارنرس ٹریبونل سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں کچھ لوگوں کو فارنرس ٹریبونل میں اس مشورے کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے کہ انہیںبہتری کی ضرورت ہے۔ اس تعلق سے ایک رپورٹ ہفت روزہ دعوت میں شائع ہو چکی ہے۔
بتادیں کہ ایک وکیل جسے کم از کم 7 سال کا تجربہ ہو، وہ ایف ٹی ہیڈ یعنی فارنرس ٹریبونل کا سربراہ ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ایف ٹی ہیڈ کو آفیشیل طور پر جج نہیں کہا جاتا ہے۔ لیکن سہولت کی بات کریں تو ایک ایف ٹی ہیڈ کو فی ماہ 85 ہزار روپے اور ایک کار کی سہولت ملتی ہے۔
کیا فارنرس ٹریبونل سیاسی کنٹرول میں ہیں؟
فارنرس ٹریبونل پر ہمیشہ سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ اس ٹریبونل میں سارے فیصلے سیاسی مداخلت سے لیے جاتے ہیں۔ چنانچہ آسام کے ایک ایم ایل اے نے آسام اسمبلی میں سال 2018 میں ایک تحریری سوال پوچھا تھا کہ ’’کیا وزیر اعلیٰ کی فارنرس ٹریبونل کے اراکین کے ساتھ میٹنگ رکھی گئی ہے؟ اگر ہاں تو ان میٹنگوں کا ایجنڈا کیا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ ’’ہاں، میٹنگ رکھی گئی ہے۔ لیکن اس میٹنگ کا کوئی ایجنڈا اور کارروائی طے نہیں کی گئی ہے۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وزیر اعلیٰ فارنرس ٹریبونل کے اراکین کے ساتھ میٹنگ کر سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں کہا گیا ’’فارنرس ٹریبونل (ایف ٹی) سیاسی ’بی‘ محکمہ کے کنٹرول میں ہے اور اس محکمہ کا سربراہ ہونے کے ناطے اور ریاستی انتظامیہ کا سربراہ ہونے کے ناطے وزیر اعلیٰ کے ذریعہ ایف ٹی عدالت کے اراکین کے ساتھ میٹنگ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔’‘
بتادیں کہ 8 ستمبر 2020 کو آسام کے ضلع ڈھوبری میں کام کرنے والے سات مسلم اسسٹنٹ سرکاری وکلاء (اےجی پی)، جو مقامی فارنرس ٹربیونل (ایف ٹی) سے وابستہ تھے، ان کی خدمات ختم کر دی گئیں۔ بتادیں کہ ان اے جی پیز کا کام ٹربیونل میں سرکار کی جانب سے کیس دائر کرنا ہوتا ہے۔ اب مسلم کمیونٹی سے آنے والے اکثر اے جی پی کی جگہ بنگالی ہندو کمیونٹی کے وکیلوں کو دی گئی ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کا جھوٹ!
30 مارچ 2022 کو وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے آسام اسمبلی میں دعویٰ کیا کہ ریاست میں این آر سی اندراجات کے دوران کسی کی جان نہیں گئی ہے۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ’’این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کی مشق کی وجہ سے موت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘ وہ اسمبلی میں کانگریس کے ایم ایل اے ڈی پورکیاستھ کے ذریعہ اٹھائے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ حالانکہ انہوں نے اس بات کو ضرور تسلیم کیا کہ 31 افراد جو غیر ملکی قرار دیے گئے ’ٹرانزٹ کیمپوں‘ میں ہلاک ہوئے تھے۔ بتادیں کہ حراستی مراکز کا نیا ترجیحی نام ’ٹرانزٹ کیمپ‘ ہے۔ ہفت روزہ دعوت ان اموات کی پوری فہرست کافی پہلے شائع کر چکا ہے۔
لیکن ’سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس ‘ نامی تنظیم نے ایسے 58 افراد کی فہرست تیار کی ہے جن کی موت این آر سی تیار کرنے کے دوران ہوئی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ تمام اموات صرف جولائی 2019 تک شہریت سے متعلق مسائل کی کثرت کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ بتادیں کہ ان 58 مہلوکین میں 9 خواتین شامل ہیں۔ وہیں مرنے والوں میں سے 28 ہندو، 27 مسلمان، ایک بورو، ایک گورکھا اور ایک قبائلی ہے۔ خود ہفت روزہ دعوت کا یہ نمائندہ آسام میں ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہے، جن کے گھر والوں یا جاننے والوں نے شہریت سے محروم کردیے جانے کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ ہفت روزہ دعوت ایسی کئی اموات کی تفصیل ان ہی کالموں میں شائع کر چکا ہے۔
ایک کہانی یہ بھی!
یہ کہانی 2012 کی ہے۔ 40 سالہ ارجن ناماسدرا کو فارن ٹربیونل کی طرف سے نوٹس ملا، جس میں اس کی ہندوستانی شناخت پر سوالیہ نشان لگا تھا۔ اس نوٹس کے بعد ارجن نے خود کشی کر لی۔ لیکن ارجن کو ان کی موت کے بعد اسی ٹریبونل نے اسے ’ہندوستانی‘ قرار دیا۔
اس کہانی کا ذکر خود پی ایم مودی نے 23 فروری 2014 کو آسام کے ضلع کاچھر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارجن کا خاندان اب محفوظ رہے گا۔ لیکن آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اب اسی ارجن کی 80 سالہ ماں ’اکول رانی ناماسدرا ‘ کو فارن ٹربیونل نے نوٹس دے کر اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ بتادیں کہ ارجن کی ماں سے پہلے، اس کی ساس سبتری بسواس کو بھی 2017 میں فارن ٹریبونل سے نوٹس ملا تھا، ان کا خاندان آج تک کیس لڑ رہا ہے۔ اس تعلق سے ’دی کوئنٹ‘ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔