جمعہ کی شام تری پورہ کے شمالی علاقے کے ایک مسجد پر ہندوانتہا پسندوں نے اچانک حملہ کردیا
اگرتلہ (فرحانہ فردوس؍انصاف نیوز آن لائن)
تری پوری میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت کا سلسلہ جاری ہے۔جمعہ کی شام تری پورہ کے شمالی علاقے میں آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور ہندو جاگرن منچ نے مشترکہ طور پر ریلی نکالی اور مسجد میں آگ لگانے کی کوشش کی مگر گزشتہ سات دنوں میں پہلی مرتبہ مسلمان اپنے گھروں سے باہر نکل کر مسجد کو بچانے کی کوشش کی اور مسلمان جب باہر نکل آئے تو یہ فسادیوں کا گروپ خوف زدہ ہوگیا ۔
تری پورہ کے سماجی کارکن جو پیشے سے ریاضی کے ٹیچر ہیں سلطان اختر نے انصاف نیوز آن لائن کو بتایا کہ گزشتہ 7دنوں سے تری پورہ میں ہندوانتہا پسند جماعتوں نے مچا رکھا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب تک مسلمانوں کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔یہ صرف یک طرفہ کارروائی کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب پولس سیکورٹی فورسیس کی موجودگی میں ہورہا ہے۔
تری پورہ کی سیکولر جماعتوں کے کردار سے متعلق انہوں نے کہا کہ بائیں محاذ اور کانگریس نے صرف بیان جاری کردیا ہےجب کہ ترنمول کانگریس نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ترنمول کانگریس کے ششمتا دیو کے قافلے پر حملے سے متعلق ترنمول کانگریس نے سخت رد عمل کا مظاہر کیا مگر تری پورہ کے مسلمانوں پر حملے سے متعلق کچھ بھی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
تعجب خیز بات ہے کہ بنگال میں ’’بنگالی ‘‘ کے نام پر انتخاب لڑنے والی ترنمول کانگریس نے جہاں آسام کے مسلمانوں پر حملے پر خاموشی اختیار کرلی ہے وہیں تری پوری میں آباد بنگالی مسلمانوں پر لگاتار مظالم پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔تری پورہ میں بنگلہ بولنے والے مسلمان ہی نشانے پر ہیں ۔بنگالی مسلمانوں کے مقابلے تری پورہ کی مقامی زبان بولنے والے مسلمان قدرے محفوظ ہیں ۔
تری پورہ کے ایک سینیئر پولیس افسر نےانصاف نیوز کو بتایا کہ حالات اب پرسکون ہیں اور ریاست میں تقریباً 150 مساجد کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک مسجد کے قریب توڑ پھوڑ کی تصدیق کی اور کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کی جا رہی ہے، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے شناخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
بنگلہ دیش میں بعض مندروں اور درگا پوجا کے پنڈالوں میں توڑ پھوڑ کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیم ہندو جاگرن منچ اور وشو ہندو پریشد نے سرحدی ریاست تری پورہ میں مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔حالانکہ انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود دس ہزار سے زائد مظاہرین اس میں شامل ہو گئے۔وہ بعض مسلم علاقوں سے گزرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی، جس سے مظاہرین مشتعل ہو گئے اور پتھراؤ کر دیا۔ پولیس نے بھی جوابی کارروائی کی جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔اس دوران ایک مورتی کو توڑنے کی افواہیں پھیل گئیں حالانکہ پولیس نے بعد میں اس کی تردید کی۔ تاہم اس دوران کئی مساجد پر حملے کیے گئے اور ان میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
مسجد پر حملے کے بعد مسلمان گھر سے پہلی مرتبہ باہر آکر مسجد کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے
تری پورہ سے شائع ہونے والے اخبار براک بلیٹن کے صحافی انربان رائے چودھری نے بتایاکہ ”تری پورہ میں گزشتہ تین چار دنوں سے صورت حال کافی کشیدہ تھی حالانکہ اب کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے۔ کیونکہ پولیس نے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔”
ملک گیر تنظیم جمعیت علماء ہند کا کہنا ہے کہ تریپورہ میں 12 مساجد پر حملے ہوئے، چند مساجد پر بھگوا جھنڈے بھی نصب کر دیے گئے جب کہ بعض مساجد میں آگ لگانے کو کشش کی گئی۔بی جے پی کے ریاستی ترجمان نوویندو بھٹاچاریہ کا کہنا تھا کہ بی جے پی ایسے واقعات کی حمایت نہیں کرتی۔مسلم تنظیموں نے تری پورہ میں مسلمانوں اور مساجد کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہوئے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے تریپورہ کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ بپلاب کمار دیب کو خط لکھ کر قصورواروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
شمال مشرقی ریاستوں پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی سمانتک گھوش کا کہنا ہے کہ تریپورا میں ہندو مسلم کشیدگی کی کوئی روایت نہیں ہے۔ دونوں فرقے اور قبائلی ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ وہاں اب تک فرقہ وارانہ فساد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
سمانتک گھوش کا کہنا تھا کہ آئندہ 25 نومبر کو ریاست میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اگلے برس اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ایسے میں چونکہ حکمراں بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کو پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اس لیے وہ ہندو مسلم کو لڑانے کے اپنے آزمودہ فارمولے کو اپنا رہی ہے۔
سمانتک گھوش کہتے ہیں کہ بائیں بازو کی جماعت، تریپورا میں 25 برس تک اقتدار پر رہی۔گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اسے عوامی ناراضگی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور چونکہ اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی اس لیے ووٹروں نے اسے ریاست میں بھی اقتدار سونپے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پچھلے چار برس سے زیادہ عرصے کے دوران بی جے پی حکومت نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔اس لیے عوام اس سے خوش نہیں ہیں۔ ایسے میں وزیر اعلی وپلب دیب کو ہندو ووٹروں کی صف بندی ہی کامیابی کا واحد راستہ دکھائی دے رہا ہے۔”وپلب دیب یوں بھی اپنے مسلم مخالف بیانات کے لیے کافی مشہور ہیں۔”
سلطان اختر کہتے ہیں کہ انتخابات صرف بہانے ہیں بلکہ تری پورہ کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے ایسے بھی ہمارے حالات پر قومی اور علاقائی میڈیا کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ تری پورہ کے مسلمانوں کی معاشی حالت کافی کمزور ہے ۔وہ کبھی بھی فساد نہیں چاہتے ہیں ۔اس کے باوجود ہندوانتہاپسند جماعتیں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔