Saturday, December 21, 2024
homeاہم خبریںمغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ایک اور عالمی ریکارڈ اپنے نام درج...

مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ایک اور عالمی ریکارڈ اپنے نام درج کیا ———’’فون ڈائریکٹری‘‘ ’’گوش برآواز کو ’’ سرسید احمد خان ایوارڈ ‘‘ سےنواز کر ’’بانی علی گڑھ کو سچی خراج تحسین پیش کرنے کی’ سعی نامحمود‘۔ادبی ایوارڈ کی تاریخ نادر کارنامہ

کلکتہ (صبا تابش)
مغربی بنگال اردو اکیڈمی جو گزشتہ 10سالوں بالخصوص 2017کے بعد سیمینار اور مشاعروں کے انعقاد کا عالمی ریکارڈ قائم کرچکی ہے اور اب بنگال اردو اکیڈمی نے ایک اور عالمی ریکارڈ درج کرتے ہوئے ادبی دنیا کی تاریخ میں ’’فون ڈائریکٹری ‘‘ (گوش برآواز) کوپہلی مرتبہ ایوارڈ سے نوازا گیا ہے- وہ ایوارڈ بھی سائنسی ، تکنیکی اور سماجی موضوعات کے زمرے کے تحت بانی علی گڑھ اور ہندوستانی مسلمانوں میں جدید تعلیم کے مصلح اوراردو کے فروغ میں کلیدی کردار اداکرنے والے 19ویں صدی کی عظیم شخصیت ’’سرسید احمد خان ‘‘ مرحوم کے نام سے منسوب ہے- یقینا مغربی بنگال اردو اکیڈمی کا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جسے صدیوں تک یاد رکھا جائے گا-

اس کو بھی پڑھا جاسکتاہے
مغربی بنگال اردو اکیڈمی عظیم شاعر قصیر شمیم کے انتقال پر تعزیتی جلسہ تو دور تعزیتی بیان بھی جاری نہ کرسکی ادبا و شعرا میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے اس رویے پر شدید ناراضگی مگر خوف سے کوئی بھی کھل کر بولنے کو تیار نہیں

گزشتہ ہفتے مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے قومی اور ریاستی سطح پر کتابوں پر 2018-2019کےلئے ایوارڈ کا اعلان کیا تو اس میں ’’ریاستی سطح کے تحت سائنسی ، تکنیکی اور سماجی موضوعات کے زمرے میں ’’فون ڈائریکٹری (گوش برآواز)کو سرسید ایوارڈ 2018کےلئے ایوارڈ دینے کا اعلان بھی شامل تھا ۔ یہ خبر عام ہوتے ہی بنگال ہی نہیں بلکہ دیگر ریاستوں کے شعرا و ادباحیرت زدہ ہوگئے ۔ان ادبا و شعرا کے بقول ادبی ایواڈر کی پوری تاریخ میں آج تک جو نہیں کیا گیا ہے اس کو انجام دے کر یقینا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بلکہ دوسری ریاستی کی اکیڈمیوں سے بھی یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اس عظیم کتاب گوش برآواز پر ایوارڈ دینے کا اعلان کرے۔ بلکہ ایک اعلیٰ قسم کے چاپلوس شاعر نے مطالبے کی حمایت میں قطعہ ہی ارشاد فرمادیا ہے ۔ انصاف نیوز آن لائن کے قاری اس قطعہ کو پڑھنے کے متحمل نہیں ہے اس لئے اس کا یہاں پر ذکر نہیں کیا جارہا ہے ۔

اکیڈمی کے ذمہ دارن ایوارڈ کا اعلان کرتے ہویے

’’گوش برآواز‘‘ ’ شعرا کے فون نمبراور تعارف پر مشتمل ہے، مصنف نے اس کے ساتھ ہر شاعر کے ایک شعر کو بھی درج کرکے اس کتاب کی افادیت کو دو چند کردیا ہے۔یقینا سیکڑوں چھوٹے اور بڑے شعرا کے نمبرات اوران کے ایک نمائندہ شعر کو جمع کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔اس کےلئے مرتب کی ہمت کو داد دینی چاہیے مگر اس پر ایوارڈ کسی بھی مضحکہ خیزی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
کتابوں پر ایوارڈ دینے کا مقصد تخلیقی صلاحیت کی پذیرائی کرنا ہوتا ہے۔مگر مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے آلو اور تربوز کے بھائو میں جس طریقے سے ایوارڈوں کا اعلان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔

اس کو بھی پڑھا جاسکتاہے
انجمن مفید الاسلام کے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں بدعنوانیوں کا انکشاف رپورٹ منظر عام پر آنے کے باوجود انتظامیہ کا احتساب نہیں کیا گیا

ان حالات پر اس مشہور قصہ سے سبق لینے کی ضرورت ۔

ایک بزرگ اپنےمرید باصفا کے قافلے کے ساتھ ایک گائوں میں فروکش ہوئے،چند مریدان گائوں اور مارکیٹ کی سیرکےلئے نکل گیے تو دیکھا کہ بازار میں کاجو، کشمش ، سیپ، اخروٹ آلو، تربوز بھنڈی اور مولی سب ایک روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہورہے ہیں۔مریدین باصفا یہ منظر نامہ دیکھ کر اپنے پیر کے پاس دور پڑے اور کہا کہ یہ گائوں بہت ہی اچھا اور یہاں کا حکمراں نیک دل معلوم ہوتا ہے اب ہمیں یہیں مستقل قیام کرنا چاہیے۔ پیر صاحب نے پوچھا کہ بتائو ماجرا کیا ہے ؟آخر تم لوگوں نے کیا دیکھ لیا ہے ؟۔مریدان باصفا دستہ بستہ عر ض کیا کہ حضور!یہاں ہرایک چیز کی قیمت ایک روپے فی کلو ہے،سیپ اور کاجو جہاں ایک روپے فی کلو ہے وہیں آلو اور مولی بھی ایک روپے فی کلو ہے۔ مسلسل دعوتی سفر کی وجہ سے ہم تھکان کے شکار ہوچکے ہیں اس لئے اب ہم لوگ یہیں رہ کر کاجو، کشمش اور سیپ کھا کھا کر اپنی صحت کو بہتر بنائیں گے۔ پیر صاحب بہت ہی تجربہ کار اورجہاں دیدہ شخصیت تھے انہوں نے فورا مریدان کو ہدایت دی کہ یہاں سے بھاگو اور یہ لعنتی بستی ہے۔ یہاں ایک منٹ بھی رکنا گوارا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مریدان با صفا جو عقیدہ کی حدتک حضرت پیر صاحب کے سامنے لب کشائی کو کفر سمجھتے تھے وہ بھی خاموش نہیں رہ سکے ۔سوال شکم سیری کا تھا اس لئے اعتراض کردیا کہ آخر ایسی ہدایت کیوں دی جارہی ہے؟۔ کیا آپ کو پسند نہیں ہے کہ ہماری صحت بہتر ہو؟۔ پیر صاحب نے کہا کہ بیوقوفوں یہ ناقدروں اور نااہلوں کی بستی ہے۔ جہاں سیب اور کاجو کی قیمت آلو اور مولی کے برابر ہے -وہاں انسانوں کی کیا قدر ہوگی؟۔

مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے جس طریقے سے کتابوں پر ایوارڈ کا اعلان کیا ہے وہ مذکورہ بالا قصہ پر صد فیصد سچ منطبق ہوتا ہے۔اکیڈمی ہر ایک ایوارڈ یافتہ کتاب کے مصنف کو 15ہزار روپے دینے کا اعلان کیاہے ۔ مساوات کے پیش نظر کوئی بھی تفریق نہیں کی گئی ہےاور بہت ہی فخریہ طور پراس کا اعلان بھی کیا گیا ہےمگر کیا یہ تعجب خیز نہیں ہے کہ مظفرحنفی ،صغیر ابراہیم، ڈاکٹر ابرار رحمانی مغربی بنگال میں ڈاکٹر عاصم شاہنواز جیسے سخن وروں کی کتابوں کو نوآزمودقلم کاروں کی کتابوں کی صف میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مساوات نہیں ہے بلکہ ظلم و ناانصافی ہے۔ظلم کی تعریف یہی ہے- ’’ جس کا جو محل ہےوہاں نہ رکھا جائے ‘‘۔
اکیڈمی کے ذمہ داروں نےکتابوں پرایوارڈ کے اعلان کےلئے منعقد پریس کانفرنس میں فخریہ اعلان کیا کہ اس سال کتابوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے ۔زمرے کا اضافہ کیا جارہا ہے اور قومی سطح پر ایوارڈ یافتہ کتابوں کو بنگال کی اہم شخصیات کے نام پر اور ریاستی سطح کی کتابوں کو قومی سطح کی اہم شخصیات کے نام پر ایوارڈ دیا جائے گا۔مگر ایوارڈ اور جن کی شخصیت پر ایوارڈ دیا جارہا ہے اس کے درمیان کچھ تو مناسبت ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ ایوارڈ میں روایت عام ہے کہ درجہ بندی ہوتی ہے۔پہلا، دوسرا نمبر اور تیسری پوزیشن دینے کے بجائے تمام کتابوں کو برابری کا درجہ دیدیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ معیاری اور تحقیقی کتابیں لکھنے والی شخصیات کے ساتھ ظلم ہے۔اس ایوارڈ سے منصفین کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی ۔ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی جو دوسروں کی مدد سے مصنفین بن جاتے ہیں۔ایوارڈ دراصل انعام ہوتا ہے اوریہاں جس طریقے سے ریوڑی تقسیم کی گئی ہے وہ امدادکے زمرے میں آتا ہے ۔ایسے میں مرحوم مظفر حنفی، پروفیسر صغیر ابراہیم اور ڈاکٹر ابراررحمانی جیسی شخصیات امداد کے تو ہرگز مستحق نےنہیں ہیں-

بنگال اردو اکیڈمی کے اس عظیم کارنامے پر اکیڈمی کے سابق رکن نے بتایا کہ اس وقت جس طریقے سے ریوڑی تقسیم کرکے واہ واہی اصولاجارہا ہے وہ دراصل اس کے ذریعہ اپنی جہالت کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔وہ کہتے ہیں اردو اکیڈمی کا مقصد تخلیق کاروں کی صلاحیت میں اضافہ اور اس کےلئے ماحول ساز گار کرنا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اکیڈمی اپنے مقصد سے منحرف ہوگئی ہے اور اس کا مقصد صرف اخباروں کے صفحات میں رہنا ہی ہوگیا ہے اور اس کےلئے ہرقسم کے گھٹیے حربے آزمایے جارہیے ہیں۔ نوجوان نسل کی تخلیقی صلاحیت میں اضافے کےلئے یونیورسٹی، کالج اورا سکول سطح پر مقالہ و مضمون نویسی کا مقابلہ کرایا جاسکتا تھا۔

متعلقہ خبریں

تازہ ترین