ہندوستان جمہوری ملک ہے ، یہاں آئین کی حکومت ہے ، یہاں آئین کے تحت حکومت بنتی اور چلتی ہے ، حکومت کی تشکیل ووٹ کے ذریعہ ہوتی ہے ، عام طور پر لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں ،جس کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے ، اور جو بغیر بھید بھاؤ اور بغیر کسی عصبیت کے سب کے فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہے ، دوسرے لفظوں میں لوگ اسی پارٹی اور اس کے امیدوار کو ووٹ دے کر جیت دلاتے ہیں ،جس کو لوگ اپنے حق میں مفید پاتے ہیں ، اور اسی کی حکومت بنتی ہے ،جس کے کام سے لوگ مطمئن ہوتے ہیں۔
ماضی اور حال میں بہت فرق ہے ، ماضی میں روایت یہ رہی کہ پارٹی کے لیڈر اور قائدین جو کہہ دیتے تھے ، لوگ مان لیتے تھے اور اسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے تھے ،جس کے لئے اس کے قائدین رہنمائی کرتے تھے ، مگر موجودہ وقت میں حالات بہت مختلف ہیں ، عوام میں بیداری آگئی ھے ، اب لوگ اسی کو ووٹ دیتے ہیں ،جس کو اپنے حق میں اچھا اور مفید سمجھتے ہیں۔
بہار ایسا صوبہ ہے ،جہاں کے ووٹروں نے ہمیشہ سیاسی سوجھ بوجھ کا زیادہ اچھا مظاہرہ کیا ہے ، اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ الیکشن کے موقع پر حساب وکتاب ضرور کرتے ہیں ، اس موقع پر یہاں کے لوگ کسی کی نہیں سنتے ہیں ، اس کا مشاہدہ اکثر الیکشن کے موقع پر ہوتا ہے ۔
موجودہ وقت میں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہار کی حکومت ملک کے بہت سے صوبوں کے مقابلہ میں اچھی ہے ، اس صوبہ میں امن و شانتی ہے ، اس کے وزیر اعلیٰ باوقار ہیں ، ملک کے سیاسی لیڈروں میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ، صوبہ کی تعمیر و ترقی میں بھی ان کی دلچسپی بہت زیادہ ہے ، یہ کہا جائے کہ ان کے دور حکومت میں بہار میں بہار ہے تو بیجا نہ ہوگا ۔
مسلم اقلیت بہار کی بڑی اقلیت ہے ، حکومت سازی میں ہمیشہ اس کا اہم رول رہا ہے ، آج کچھ فرقہ پرست لوگوں نے نفرت کا ماحول پیدا کردیا ہے ، جس کا فائدہ وہ لوگ حاصل کر رہے ہیں ، مگر موجودہ وقت میں بھی مسلم ووٹ کی اہمیت ختم نہیں ہوئی ہے ، کچھ سال پہلے تک مسلم اقلیت کے مسائل حل نہیں ہوتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ کام کرنے میں دشواری ہے ،کام کرنے میں شواری ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ اب اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ، اب تو بہار میں مہا گٹھبندھن کی سرکار ہے ، تمام سیکولر پارٹیوں کی حمایت سے بہار کی حکومت چل رہی ہے ، پھر بھی بہار کی بہار میں مسلم اقلیت کے ادارے خزاں رسیدہ ہیں ، خزاں رسیدہ ہی نہیں ،بلکہ بعض کی جڑ کاٹ دی گئی ہے ،جس کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرائی گئی ، مگر ابھی تک اس کی اصلاح نہیں کی گئی ،جو نہایت ہی افسوس کی بات ہے
جہانتک مسلم اقلیت کے مسائل کی بات ہے تو ان میں سے چند یہ ہیں
(1) اردو زبان مسلم اقلیت کی مادری زبان ہے ، یہ بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے ، یہ تہذیب وثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے ، ہمیشہ اسکول کے نصاب میں یہ زبان مادری اور لازمی زبان کے خانہ میں رہی ، نیز سکنڈری اور پلس ٹو اسکول کے مانک منڈل میں یہ زبان شامل رہی ،جس کی وجہ سے اسکول میں اردو ٹیچر کی بحالی ہوتی رہی ، مگر موجودہ وقت میں سکنڈری اور پلس ٹو اسکول کے مانک منڈل سے اردو کو نکال دیا گیا ہے ،جس کی وجہ سے ادو زبان مادری اور لازمی مضمون کے خانہ سے نکل کر اختیاری مضمون ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے اب اردو اساتذہ کی بحالی کا راستہ بند ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ، اس جانب مختلف تنظیموں کی طرف سے حکومت کی توجہ بار بار مبذول کرائی گئی ، مگر نہ تو اس نوٹیفیکیشن کو واپس لیا گیا اور نہ اردو کو مانک منڈل میں شامل کیا گیا ، اس طرح سکنڈری اور پلس ٹو اسکول میں اردو کے طلبہ کو مادری زبان سے محروم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اور اردو کے شعبے بند ہونے کے دھانے پر ہیں ، جو افسوس کی بات ھے ، محترم وزیر اعلی حکومت بہار نے اپنی تقریر میں ہمیشہ کہا کہ ہر اسکول میں اردو ٹیچر بحال ہوں گے ، خواہ طلبہ رہیں یا نہیں رہیں ، اس کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوسکا ، اس کے برعکس اردو کو مانک منڈل سے نکال دیا گیا
(2) اردو کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے دو ادارے یعنی بہار اردو اکادمی اور اردو مشاورتی کمیٹی ان دونوں کی تشکیل برسوں سے نہیں ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ ادارے مفلوج ہیں ، اس کی وجہ سے بھی اردو ابادی میں مایوسی ہے ۔
(3) ادارہ تحقیقات عربی و فارسی پٹنہ ایک اہم ادارہ ہے ، اس ادارہ نے بہار ہی نہیں ،بلکہ ملک میں بڑی مقبولیت حاصل کی ،یہ پورے طور پر حکومت بہار کی تحویل میں ہے ، برسوں سے اس کے عہدے خالی ہیں ، پروفیسر کی بحالی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ مفلوج ہے ، اور اس سے مسلم اقلیت کے طلبہ تعلیم سے محروم ہورہے ہیں ،
(4) مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ ملک کا مشہور ادارہ ہے ، اس کے شعبہ سینیر میں اساتذہ کے عہدے خالی تھے ، ان میں سے دو عہدہ پر تقرری کی کاروائی ہوئی ھے ،جبکہ شعبہ جونیر میں ابھی بھی تمام عہدے خالی ہیں ، کچھ اساتذہ ڈیپوٹیشن پر دے دیئے گئے ہیں ،جبکہ جلد مستقل اساتذہ کو بحال کیا جانا ضروری ہے ، مختلف سطح سے حکومت کی توجہ مبذول کرائی گئی ، مگر ابھی تک اساتذہ کی بحالی کی کاروائی شروع نہیں۔ ہوئی ، اس طرح غریب مسلم اقلیت کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے
(5) بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ حکومت بہار کا ایک اہم ادارہ ہے ، جس سے بہار کے بہت سے مدارس ملحق ہیں ، یہ مدرسہ بورڈ مثالی بورڈ ہے ،جس نے ملک کے دیگر صوبوں کی رہنمائی کی ھے، یہ بورڈ خود مختار بورڈ ہے ، بہار سرکار نے مدارس ملحقہ کے ادارہ کی تنخواہ کے لئے گریڈ متعین کر کے قابل ستائش کام کیا ، لیکن موجودہ وقت میں حکومت نے مختلف نوٹیفکیشن جاری کی ہے ،جو مدرسہ بورڈ اور مجلس منتظمہ کی خود مختاری کے خلاف ہے ، اس سے بھی مسلم سماج میں مایوسی پائی جارہی ہے ۔
یہ چند مسائل ہیں ، جن کا تذکرہ کیا گیا ، مسلم اقلیت کی جانب سے حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور بیزاری پائی جارہی ھے ، یہ مہا گٹھبندھن سرکار کے لئے لمحہ فکریہ ہے ، حکومت بہار کو چاہئے کہ وہ حالات کا جائزہ لے اور اپنے صوبہ کی مسلم اقلیت کو مایوسی سے بچائے ، تاکہ مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں مضبوطی آئے ، ملی تنظیموں سے بھی درخواست ہے کہ اس جانب اپنی سطح سے کاروائی کریں ،اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈران سے بھی اپیل ہے کہ اپنی پارٹی تک اس کو پہنچانے کی زحمت کریں ،تاکہ حکومت اس جانب توجہ دے اور مسلم اقلیت کے مسائل کو حل کر کے استقامت حاصل کرے ، اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے –