کلکتہ:
مغربی بنگال کے سابق وزیراعلیٰ بدھادیب بھٹا چاریہ کے انتقال پر جہاں تمام سیاسی جماعتوںاور اس کے لیڈروں نے نظریاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ریاست کیلئے ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا ہے وہیں دریدہ دہن اور بدتمیز خاتون تسلیمہ نسرین نے بدھا دیب بھٹا چاریہ کے خلاف مورچہ کھول دیا اور الزام عائد کیا کہ بدھا دیب بھٹا چاریہ نے اس کو کلکتہ سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اپنے فیس بک پوسٹ میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ بدھا دیب بھٹا چاریہ کی موت پر آنسو کیوں بہائوں ۔تسلیمہ نے لکھا ہے کہ بدھا دیب بھٹاچاریہ کا انتقال ہو گیا ہے۔2003 سے پہلے اگر میں ایسی خبر سنتی تو میں آنسو بہاتی۔ لیکن اس نے کئی سالوں تک میرے آنسو بہائے۔ آج اس کی موت پرمیری آنکھوں سے آنسو نہیں بہہ رہے ہیں۔
تسلیمہ نے پھر لکھا ہے کہ 2002 تک ان کے ساتھ تعلقات میرے بہت ہی اچھے تھے۔ پھر کون جانے اس کے ساتھ کیا ہوا۔ 2003 میں اس نے میری کتاب ’’کالا نائی کاوا نائی‘‘ پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دن میں نے سوچا تھا کہ میں اس سے زیادہ بائیں بازوں کے نظریات کا حامی ہوں ۔میں ایک ملحد ہوں، میں ایک فیمنسٹ ہوں، میں مذہب، ذات، طبقے، جنس سے قطع نظر سب کے لیے برابری اور مساوات پر یقین رکھتی ہوں۔ جب میں ایک بنیاد پرست ملک میں نوعمر تھی تب سے اپنے نظریات کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال رہی ہوں۔ میں نے اپنی دو حصوں پر مشتمل کتاب میں لکھا تھا کہ کسی بھی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونی چاہیے۔اس نے میری کتاب پر پابندی لگا دی کیونکہ میں نے مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کی وکالت کی تھی۔بائیں بازو کے لیڈر کے طور پر بدھا دیب بھٹا چاریہ کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔مگر اس نے کتاب پر پابندی عائد کردی کہ مسلمان ناراض ہوجائیں ۔
اس پابندی کے خلاف ہائی کورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیم اے پی ڈی آر نے مقدمہ دائر کیا تھا۔عدالت نے پابندی ختم کردی ۔اس کے بعد سے ہی وہ مجھ سے ناراض ہوگیا۔میں نے مقدمہ نہیں کیا تھا بلکہ سجاتا بھدرا نے کلکتہ ہائی کورٹ میں کیس کیا تھا ۔ وہ مجھے کلکتہ سےباہر نکالنے کے لیے بے چین ہو گیا ۔ 2007 میں مجھے ساڑھے چار ماہ تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔میں تنگ آ کر ملک چھوڑ کر چلی گئی۔
میرے ملک چھوڑنے کے پیچھے ایک بڑا کھیل ہوا ۔بے بس، بے گناہ، جلاوطن، ستائے ہوئے، ایماندار اور غیر سمجھوتہ کرنے والے انسان کی زندگی اذیت ناک بنادی گئی۔
سنا ہے اس نے بعد میں ایک کتاب لکھی۔ اس نے اپنے دور حکومت میں کیا کیا غلطیاں کیںاس نے سب کچھ لکھا۔ اس نے صرف یہ ذکر نہیں کیا کہ اس نے مجھے بغیر کسی قصور کے مغربی بنگال سے نکال دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا، اس نے سوچا کہ اس نے جو کیا وہ اچھا ہے۔ اس نے میرے تمام خوابوں اور امنگوں کو کچل کر رکھ ۔ اس نے بنگال کو بنگالی روح سے چھین کر اچھا کیا۔
تسلیمہ نسرین نے لکھا ہے کہ میں یورپ کی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر کلکتہ میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔کیونکہ بنگلہ دیش کی کسی حکومت نے مجھے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ بدھ بابو جس کے ساتھ میں نندن میں ادب اور ثقافت کے بارے میں گپ شپ کرتی تھی، وہ پیرس سے اپنے مطلوبہ تحائف لے کر آئے، وہ شخص میری بنگالی ماں، بنگال میں میری آخری پناہ گاہ کو میرے پیروں کے نیچے سے گھسیٹ لے گا۔ ممتا دیدی میرے بارے میں بدھ بابو کے نقش قدم پر چلتی ہیں، اس لیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہے کہ وہ میرے ساتھ وہی بدسلوکی کی
آخر میں تسلیمہ نے زندگی میں کیے گئے اچھے کاموں کے لیے بدھا دیب بھٹا چاریہ کو لال سلام پیش کیا۔جب کہ وہ بدھا دیب بھٹا چاریہ کے لیے دائمی سکون کی خواہش نہیں رکھتی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ آج بدھ بابو کے انتقال سے پرانے الفاظ ذہن میں آئے۔ میں روح پر یقین نہیں رکھتی، میں بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتی۔ اس لیے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ باقی سب کی طرح سکون سے رہو، یا جہاں بھی ہو خیریت سے رہو۔ لیکن اس نے اپنی زندگی میں جو اچھے کام کیے ہیں، میں کہوں گی، کامریڈ، لال سلام۔